سوشل میڈیا پر کشمیر کے سودے کا پروپیگنڈا

اعزاز احمد کیانی  بدھ 28 اگست 2019
کیا ٹرمپ سے حالیہ ملاقات میں عمران خان نے واقعی کشمیر کا سودا کیا ہے؟ (فوٹو: فائل)

کیا ٹرمپ سے حالیہ ملاقات میں عمران خان نے واقعی کشمیر کا سودا کیا ہے؟ (فوٹو: فائل)

وزیراعظم پاکستان عمران خان کے حالیہ امریکا کے دورے اور اس دورے سے متصل ہندوستان کے کشمیر سے متعلق فیصلے کے بعد مسئلہ کشمیر پر ایک نئی بحث شروع ہوچکی ہے۔ مین اسٹریم میڈیا پر حزب اختلاف کے رہنما اور سوشل میڈیا پر حزب اختلاف سے متعلق لوگ عمران خان کو کشمیر پر سودا کرنے کا مرتکب قرار دے رہے ہیں۔ اس طبقہ فکر کا خیال ہے کہ ہندوستان نے عمران خان سے کسی معاہدہ اخفا کی بنیاد پر اتنا بڑا فیصلہ لیا ہے اور یک جنبش قلم کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا ہے، بصورت دیگر یہ ہندوستان کےلیے قطعاً ممکن نہ ہوتا۔

سوشل میڈیا کی دنیا کا المیہ یہ ہے کہ اس دنیا کے مکین نہ حقائق سے آشنا ہوتے ہیں اور نہ ان کی طبع نازک حقائق جاننے کی سعی کے بار کی اہل ہے۔ بلکہ ان کی تمام آرا و تبصرے ان کی ذاتی پسند و ناپسند کے تابع ہوتے ہیں۔ یہ جس بھی جماعت و شخصیت سے متاثر ہوتے ہیں، اس کے ہر قول و فعل کو بلاتحقیق و بلا کسی ذہنی مشقت ابدی سچائی کے طور پر قبول کرلیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اپنی پسند و ناپسند کے فطری حصار سے نکل کر آزاد و غیر جانبدار اور اصولی و مبنی برحقائق رائے قائم کرنے والے لوگ خال خال رہ گئے ہیں۔

حق و باطل اور جھوٹ و سچ کے نزاعات میں سچائی کے تلاش کے بجائے ان کے پیش نظر ہمیشہ اپنی جماعت کا دفاع رہتا ہے۔ ان کی تمام صلاحیتوں اور کوششوں کا واحد مصرف جماعت کا دفاع ہے۔ چنانچہ یہ بات گویا قلم خودبخود لکھ رہا ہے کہ ہماری اکثریت کے نزدیک جماعتی مفاد اور وابستگی قومی مفاد پر مقدم آچکی ہے۔ یہ باہم انفراق اور اس انفراق کے نتیجے میں باہمی حسد اب اس قدر بڑھ چکا ہے کہ ہماری تشفی اب بغیر اس کے ممکن ہی نہیں کہ مخالف کی ہر طریقے سے تضحیک و تحقیر کی جائے، بلکہ سوشل میڈیا پر گالیوں کا تبادلہ اور غیر اخلاقی الفاظ و اصطلاحات کا استعمال معمول بن چکا ہے۔

حادثے سے بڑھ کر سانحہ یہ ہے کہ ہماری قومی سطح کی سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنما بھی ان عیوب سے قطعاً مبرا نہیں، بلکہ ان کے ہاں بھی یہ تمام نقائص و عیوب اپنی انتہائی صورت میں پائے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں اصولی و نظریاتی اختلاف کے بجائے شخصی و ذاتی بنیادوں پر اختلاف کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ہمارے ارباب سیاست کے نزدیک اختلاف کےلیے مجرد یہی بنیاد کافی ہے کہ آپ کا تعلق حزب اختلاف سے ہے۔ ہماری سیاست عالی فکر سے عاری جذبات اور عقید و تقلید کے بنیاد پر قائم ہے۔ چنانچہ ہماری اکثریت کے اذہان اب یہ بات قبول کرنے کو تیار ہی نہیں کہ ان کی قیادت سے بھی غلطی کا صدور ممکن ہے۔ بغیر ثبوت کے مخالف جماعت کے ارکان کو خارجی ایجنٹ، ملک و قوم کا دشمن اور جمہوریت کےلیے خطرہ قرار دینا ہماری سیاست کی عادت بن چکی ہے۔

سیاست دانوں کے روزانہ کے بیانات اور ٹی وی انٹرویوز میں سے اگر اتہام کو نکال دیا جائے تو شاید باقی ماندہ مواد کل مواد کا دس فیصد بھی نہ ہو۔ سیاست کی اسی طرح پر ابلیس بارگاہ خداوند میں اپنی عرضداشت میں کہتا ہے
جمہور کے ابلیس ہیں ارباب سیاست
باقی نہیں اب میری ضرورت تہہ افلاک

سیاست کا یہی اسلوب سیاست سے اخلاقیات کی معدومی کی وجہ ہے۔ میرے نزدیک سیاسی جماعتوں و سیاسی رہنماؤں کا یہ اسلوب سیاست نہ صرف عوام کے متذکرہ بالا رویے کی ایک بڑی اور بنیادی وجہ ہے، بلکہ یہ اس اسلوب سیاست کا فطری نتیجہ بھی ہے۔

ان دونوں طبقات کے علاوہ ایک تیسرا طبقہ بھی ہے جو ہمیشہ نفس مسئلہ کے بجائے دوسری لایعنی بحثوں کو جنم دیتا ہے۔ یہ طبقہ ہر اس مسئلے و معاملے پر، جس پر قومی اتفاق رائے اور وحدت فکر و عمل کی ضرورت ہوتی ہے، اختلاف کے جواز پیدا کرتا ہے یا کم از کم اختلاف پیدا کرنے کی اپنی سی سعی کرتا ہے۔

اس مفصل تمہید سے مقصود ان رویوں کی وضاحت تھا جو ہماریے معاشرے میں اخلاقیات کے زوال کا باعث ہیں۔ یہی وہ رویے ہیں جو اس قوم کو تقسیم در تقسیم کیے جارہے ہیں اور معاشرے میں سیاسی انتہاپسندی کو فروغ دے رہے ہیں۔

جہاں تک اس بنیادی سوال کا تعلق ہے کہ کیا عمران خان نے کشمیر کا سودا کیا ہے تو میرے نزدیک تمام واقعاتی شہادتوں اور تاریخی حقائق کی روشنی میں اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے کشمیر کے معاملے پر ثالثی کی پیشکش پر مقبوصہ کشمیر کے تمام طبقات یعنی ہندو نواز اور ہندو مخالف طبقات نے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ کشمیری رہنماؤں کی جانب سے اطمینان کے اظہار کا واضح مطلب یہ ہے کہ ان کی اطلاعات کے مطابق بھی پاکستان یا پاکستانی حکومت نے کشمیر کے معاملے پر کوئی خفیہ معاہدہ نہیں کیا۔

ہندوستان کا کشمیر پر واضح اور اٹل موقف یہ ہے کہ کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ انگ ہے۔ کشمیر کو ہندوستان کے ساتھ ملانے کی خواہش ہندوستان کی تمام حکومتوں کی خواہش رہی ہے۔ بھارتی وزیراعظم نے ہندوستان کے یوم آزادی کے موقع پر لال قلعے کی فصیل سے خطاب کرتے ہوئے اس بدیہہ حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جو کام مختلف حکومتیں جموں و کشمیر میں ستر سال میں نہ کرسکیں وہ ہم نے ستر دنوں میں کر دکھایا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس شق کا خاتمہ کیا جانا ہندوستان کے پہلے وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل کے خوابوں کی تعبیر کی طرف پہلا قدم ہے۔ ایک ملک، ایک قانون، ایک صدر اور ایک جھنڈا بی جے پی کے منشور کا حصہ ہے، چنانچہ کشمیر کی شناخت اور کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ بی جے پی کی دیرینہ خواہش کی تکمیل ہے۔ جس کا اعتراف وزیراعظم ہندوستان نے ان الفاظ میں کیا ہے کہ ایک ملک، ایک آئین کی پالیسی اب حقیقت بن چکی ہے اور ملک کو اس پر فخر ہے۔

دفعہ پینتیس اے اس سے قبل تین مرتبہ ہندوستان کی عدالت عظمیٰ میں زیر بحث آچکی ہے اور تینوں مرتبہ عدالت عظمیٰ نے اس شق کو برقرا رکھا۔ پہلی مرتبہ 1961 میں لکھن پال بنام صدر کیس میں عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بنچ نے اس شق کو برقرار رکھا۔ دوسری مرتبہ سمپت پرکاش بنام ریاست جموں و کشمیر میں عدالت عظمیٰ کا ایک اور پانچ رکنی بنچ اس شق کے حق میں فیصلہ سناچکا ہے اور تیسری مرتبہ 2016 میں اسٹیٹ بینک آف انڈیا بنام سنتوش گپتا میں بھی دو رکنی بنچ اس شق کی برقراری پر فیصلہ دے چکا ہے۔ اب چوتھی مرتبہ پھر یہ کیس عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے جس کی سماعت اسی ماہ ہے۔

کچھ لوگ عمران خان کے عہد حکومت میں اس فیصلے کے وقوع کو کسی خفیہ معاہدے اور کشمیر پر سودے کی دلیل کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ میرے نزدیک یہ محض ایک اتفاق ہے۔ نریندر مودی ہندوستان کے دوسری بار وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں۔ اس مرتبہ وہ پہلے سے زیادہ عددی برتری کے ساتھ پارلیمنٹ میں آئے ہیں، لہٰذا صرف کشمیر ہی نہیں بلکہ اب وہ ہر بڑا اور مشکل فیصلہ لینے کی پوری قوت رکھتے ہیں اور کشمیر سے متعلق فیصلہ بھی اسی کا ایک نتیجہ ہے۔

یہ تمام واقعات اور حقائق اس بات کو پایہ ثبوت تک پہنچاتے ہیں کہ کشمیر پر کسی قسم کا کوئی سودا نہیں ہوا بلکہ ہندوستان کا حالیہ فیصلہ ہندوستان کی کشمیر پالیسی کا حصہ ہے۔ ممکن ہے مستقبل قریب نہ سہی لیکن مستقبل بعید میں ہی ہمارے سیاست دان اس راز سے پردہ فاش کردیں کہ یہ محض سیاسی بیان بازی تھی اور ان بیانات میں کوئی سچائی نہ تھی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔