پی سی بی میں تبدیلیوں کا سفر۔۔۔۔۔

عباس رضا  اتوار 15 ستمبر 2019
پاکستان کرکٹ میں کاغذی انقلاب کیا رنگ لائے گا؟ فوٹو: فائل

پاکستان کرکٹ میں کاغذی انقلاب کیا رنگ لائے گا؟ فوٹو: فائل

ورلڈکپ کے بعد سے پاکستان کرکٹ میں مسلسل تبدیلیوں کی لہر چل رہی ہے،ہیڈ کوچ مکی آرتھر اور معاون سٹاف کو فارغ کئے جانے کے بعد مصباح الحق کو نہ صرف کوچ بلکہ چیف سلیکٹر کا عہدہ بھی سونپ دیا گیا ہے۔

روایتی سلیکشن کمیٹی ختم کرتے ہوئے فرسٹ کلاس کرکٹ کی 6ایسوسی ایشن ٹیموں کے کوچز کو ہی سلیکٹرز کا رول دیدیا گیا ہے، ماضی میں مصباح الحق کے ہیڈ کوچ کے طور پر کام کرنے والے وقار یونس نے ان کے ماتحت بولنگ کوچ کے طور پر کام کرنا قبول کرلیا ہے،اس فیصلے کے کیا اثرات مرتب ہوں گے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

فی الحال تو دونوں نے کہا ہے کہ ہم اپنے اپنے رول سے آگاہ ہیں اور دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کام کریں گے تو کوئی مسائل پیدا نہیں ہوں گے،بہر حال بظاہر سادہ نظر آنے والی صورتحال کتنی پیچیدہ ہوسکتی ہے، اس کے بارے میں ابھی سے کرکٹ حلقوں میں تبصرے شروع ہوچکے ہیں۔

مصباح الحق نے ہیڈ کوچ کی کمان سنبھالی تب ہی امکان ظاہر کیا گیا تھا کہ اب بیٹنگ کوچ کی ضرورت نہیں، جمعہ کو قذافی سٹیڈیم میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے چیئرمین پی سی بی احسان مانی نے بھی کہہ دیا کہ سابق کپتان سے بہتر بیٹنگ کوچ کون ہوسکتا ہے، تاہم اگر انہوں نے ضرورت محسوس کی تو کسی کی خدمات حاصل کرسکتے ہیں، اس ضمن میں منصور رانا کا نام لیا جارہا ہے۔

کوچنگ سٹاف کی پہلی انٹرنیشنل مصروفیت سری لنکا کیخلاف سیریز ہے، اس میں 3ون ڈے کراچی اور بعد ازاں اتنے ہی ٹی ٹوئنٹی میچ لاہور میں کھیلے جائیں گے،مصباح الحق کو ہیڈ کوچ بنانے سے قبل ہی پری سیزن کیمپ کا کمانڈنٹ مقرر کیا گیا تھا، تاہم ٹریننگ کے لیے بلائے جانے والے بیشتر کرکٹرز طویل فارمیٹ کے لیے موزوں تھے، اس کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان کو اکتوبر میں سری لنکا کی ٹیسٹ سیریز میں میزبانی کرنا تھی، بعد ازاں دونوں بورڈز نے اتفاق رائے سے محدود اوورز کی کرکٹ کے میچز پہلے کروانے کا فیصلہ کرلیا،اس کیمپ میں فارم اور فٹنس کی بنیاد پر سری لنکا کیخلاف سیریز کے لیے کھلاڑیوں کا انتخاب معقول بات نہیں ہوگی۔

سلیکٹرز کو اب ورلڈکپ میں کارکردگی اور اپنے تجربے کی بنیاد پر کھلاڑیوں کو منتخب کرنا ہے،اس کیمپ کا ایک فائدہ تو سرفراز احمد کو ہوا ہے، انہوں نے اپنا وزن کم کرنے کیساتھ فٹنس پر کام کیا، مصباح الحق کا دل جیتنے میں بھی کامیاب ہوگئے، فوری طور پر کوئی متبادل بھی تیار نہ ہونے کی وجہ سے ہی ان کو ہی سری لنکا کیخلاف ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میچز کے لیے کپتان برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا، بہرحال صرف ایک سیریز کے لیے قیادت سونپ دینے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ابھی تک بھی پی سی بی کو ان پر مکمل اعتماد نہیں۔

ورلڈکپ سے قبل بھی سرفراز احمد کا مستقبل غیر یقینی صورتحال سے دوچار تھا، اس کا اثر کارکردگی پر بھی پڑا،ٹاپ سری لنکن کرکٹرز کے انکار کے بعد پاکستان کو آسان شکار پر ہاتھ صاف کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہونا چاہیے لیکن سرفراز احمد اب بھی دہرے دباؤ میں ہوں گے، قیادت کیساتھ ان کو اپنی ذاتی کارکردگی سے بھی ٹیم کا مفید پلیئر ثابت کرنا ہے، کیریئر کے آغاز سے اب تک مسلسل رنز بنانے والے بابر اعظم کو نائب کپتان مقرر کرنے کا فیصلہ اچھا ہے۔

بیٹنگ کرتے ہوئے پراعتماد اور میڈیا کا سامنا کرنے میں دشواری محسوس کرنے والے نوجوان بیٹسمین اگرچہ انڈر19ورلڈکپ میں پاکستان ٹیم کی قیادت کرچکے ہیں لیکن انٹرنیشنل سطح پر قومی ٹیم کی کمان سنبھالنے کے لیے تیار ہونے میں وقت لگ جائے گا،ان کی گرومنگ میں سرفراز احمد کا کردار بھی اہم ہوگا، میچ کی مشکل صورتحال میں اہم فیصلے کرتے ہوئے بابر اعظم سے بات ہوتی رہی تو وہ قیادت کی اہم ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہوسکتے ہیں۔

سری لنکا کیخلاف سیریز کے لیے ممکنہ کھلاڑیوں کا اعلان پیر اور حتمی سکواڈ کی رونمائی 23ستمبر کو ہوگی،اس میں بھی مصباح الحق کو اہم فیصلے کرنا ہیں،اوپنرز میں فخرزمان کی فٹنس مشکوک اور فارم کے مسائل بھی چل رہے ہیں،پری سیزن کیمپ میں بھی ایکشن میں نظر نہیں آسکے تھے، ان کی جگہ عابد علی کو موقع دیا جائے تو ہوم سیریز میں اپنی صلاحیتیں نکھار سکتے ہیں، فخرزمان کی طرح ان کے تکنیکی مسائل بھی کم ہیں، مصباح الحق ان کی عمدہ فٹنس کا خود بھی اعتراف کرچکے ہیں۔

محمد حفیظ کا خلا پر کرنے کے لیے افتخاراحمد کا نام لیا جارہا ہے، ماضی میں قومی ٹیم میں شامل اور پھر ڈراپ ہونے والے مڈل آرڈر بیٹسمین میں کارکردگی دکھانے کی صلاحیت ہے لیکن اپنی بڑھتی عمر کی وجہ سے ان کو ورلڈکپ 2023ء کے پلان کا حصہ قرار نہیں دیا جاسکتا،پاکستان کو ون ڈے کرکٹ سے ریٹائر ہونے والے شعیب ملک کا بھی خلا پرکرنا ہے،گرین شرٹس کی سیریز ایک کمزور ٹیم کیخلاف ہی سہی اس سے مستقبل کی راہوں کا تعین ہوگا، فی الحال تو سری لنکا کی جانب سے سیکیورٹی کا معاملہ ایک بار اٹھائے جانے سے سیریز غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے، امید ہے کہ معاملات حل اور مہمان ٹیم کراچی اور لاہور میں میچز کھیلنے کے لیے تیار ہوجائے گی۔

دوسری جانب نئے ڈومیسٹک سٹرکچر کے تحت قائد اعظم ٹرافی ٹورنامنٹ کا آغاز ہوچکا، ڈیپارٹمنٹس اور ریجنز ختم کئے جانے کے بعد 6صوبائی ٹیموں میں جگہ بنانے والے خوش قسمت کھلاڑی ایکشن میں ہوں گے،بیروزگار ہونے والوں کی اکثریت یہ تبدیلی لانے والوں کو بددعائیں دے رہی ہے،پی سی بی کی جانب سے فرسٹ کلاس کرکٹ کو مقبول بنانے کی کوشش بھی کی جارہی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ پرڈاکٹ بھی فروخت ہونے والی ہو،عالمی سطح پر بھی ٹیسٹ کرکٹ کی مقبولیت میں کمی ہوئی ہے۔

پاکستان میں ڈومیسٹک سیزن بھی سخت گرمی میں شروع ہوا ہے، کرکٹرز کے پسینے چھوٹ رہے ہیں، شائقین کی بڑی تعداد سٹیڈیمز کا رخ کرتے ہوئے میدانوں کی رونقیں نہیں بڑھائے گی، صوبائی ٹیموں کو سپانسر کرنے کے لیے بڑی کمپنیز آگے نہیں آئیں گی تو ڈومیسٹک مقابلوں کو پرکشش بنانے کا خواب پورا نہیں ہوسکے گا،وزیر اعظم اور پی سی بی کے پیٹرن انچیف عمران خان کے ویڑن کو پیش نظر رکھتے ہوئے ملکی کرکٹ کو آسٹریلوی طرز پر استوار کرنے کے لیے مہم تو بڑے زور و شور سے شروع ہوئی ہے، پیسہ بھی پانی کی طرح بہایا جارہا ہے۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پی سی بی کے ایوانوں میں ایک کاغذی انقلاب برپا پے، پچز میں بہتر لانے،کوکا بورا گیند کے استعمال، لائیو سٹریمنگ سمیت کئی نئی چیزیں متعارف کرواتے ہوئے بتایا جارہا ہے کہ پاکستان کرکٹ درست سمت میں گامزن ہوگئی، دوسری طرف پاکستان بھر میں مختلف چھوٹے بڑے شہروں سے مسلسل صدائیں بلند ہورہی ہیں کہ فلاں باصلاحیت کرکٹر نظر انداز ہوگیا، فلاں اپنے سابق محکمے سے تعلق کی بناپر ایسوسی ایشن کی ٹیم میں شامل ہوگیا۔

ہیڈ کوچ و چیف سلیکٹر اور چیئرمین پی سی بی نے ہر سطح پر فٹنس کا انٹرنیشنل معیار برقرار رکھنے کا نعرہ لگایا لیکن اب بھی ٹیموں میں کئی ایسے کھلاڑی شامل ہیں جن کو مسلسل فٹنس مسائل کا سامنا رہا ہے،فوری طور پر اوپر سے نیچے تک اکھاڑ پچھاڑ کرنے کے بجائے ابتدا میں انڈر19کرکٹ پر توجہ دیتے ہوئے مستقبل کے لیے کھیپ تیار کی جاتی،ٹیلنٹ کی دستیابی اور گرومنگ کے بعد ہی فرسٹ کلاس کرکٹ کے لیے مضبوط ٹیمیں تشکیل دینے کا خواب دیکھا جاسکتا ہے، پی سی بی کا ’’کاغذی انقلاب‘‘ آگے چل کر کیا رنگ دکھائے گا، فی الحال کچھ کہا نہیں جاسکتا، بہر حال اچھے کی امید رکھنا چاہیے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔