نفرتوں کو ہوا مت دو !!!

عبدالرحمان منگریو  اتوار 6 اکتوبر 2019

ایک محب وطن ہونے کی وجہ سے پاکستان کی قسمت پر رونا آتا ہے کہ جسے دشمنوں سے زیادہ دوستوں بلکہ محبت کے دعوے داروں نے تباہ و برباد کیا ہے ۔ ہر کوئی اس کی محبت میں خود کو دوسروں سے زیادہ گرفتار بتاتا ہے اور پھر اُس پر اپنا حق جتاتے ہوئے اس ملک کا مالک بننے کی کوشش کرتا ہے۔

سوائے خود کے باقی تمام ہم وطنوں کی حب الوطنی اُسے مشکوک نظر آتی ہے ۔چونکہ یہ کثیر القومی ملک ہے اس لیے یہ روش انفرادی سطح سے آہستہ آہستہ اجتماعی بنتی گئی اور یوں حب الوطنی گروہی ، مذہبی ، قومی و لسانی اور اداراتی رنگ اختیار کرگئی ۔

آج ہرقوم دوسرے سے  اور یہاں تک کہ لسانی گروہ بھی دوسروں سے خود کو زیادہ محب ِ وطن اور ملک کا وارث و مالک سمجھنے لگے ہیں ۔ یہاں بھائی چارہ اور برابری والی اسلام اور تحریک پاکستان کی تعلیمات کا اب نام و نشان نہیں ہے ۔ملک پر قابض قوتوں کا راج ہے ، وہ اپنے  عزائم کی تکمیل کے لیے یہاں لڑاؤاور حکومت کرو والی سام راجی روش اپنائے ہوئے ہیں ۔

ان قوتوں کو یہ اختیار ہے کہ وہ اس ملک کے بنیادی تصور اور بناوٹ میں ردو بدل کرکے یہاں کے آئین و قوانین کی اپنی من پسند تشریح کرکے اُن کا بے دریغ استعمال کریں ۔  جب کہ ان کے آلہ کاروں کو اس قدر چھوٹ حاصل ہے کہ وہ جب جی چاہے ، کسی بھی مخالف فرد ، گروہ یا قوم کو حاصل  بنیادی حقوق ، آئینی تحفظ اور اس کی اکائی (صوبہ ) کی جغرافیائی و ڈیموگرافی کو پامال کریں۔

پی ٹی آئی حکومت آنے کے بعد سندھ پر مختلف اطراف سے دباؤ ڈالنے کی مسلسل کوششیں ہورہی ہیں۔ دیکھا جائے تو گزشتہ 10برس کے دوران پی پی پی اور ن لیگ کی حکومتوں کے دوران بھی مرکز میں موجود حکومتوں کے ماتحت صوبائی حکومتیں مخالف جماعتوں کی رہی ہیں ، انھیں ٹف ٹائم تو دیا گیا مگر اس دوران کسی مخالف صوبائی حکومت کو گرانے کے لیے کوئی غیر آئینی اقدام نہیں کیا گیا لیکن موجودہ حکومت کے پاس مرکز اور تین صوبوں کی حکومت ہے اورصرف ایک صوبہ سندھ میں دوسری جماعت کی حکومت ہے جوکہ بھاری مینڈیٹ رکھنے والی حکومت ہے ، مگر مرکزی حکومت اور کچھ غیر جمہوری  گروہ اس جمہوری و آئینی حکومت کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

پورا ملک کرپشن کا آوا ہونے کے باوجود صرف صوبہ سندھ میںپکڑ دھکڑ مچائی گئی ہے۔ اس پکڑ دھکڑ کو پہلے تو صوبہ کے عوام کی جانب سے سندھ کی صوبائی حکومت کے خلاف اقدام سمجھا جارہا تھا ، جس پرماسوائے غیر آئینی طریقہ سے صوبائی حکومت کے خاتمے کے ،سندھ کے عوام کو کوئی بڑا اعتراض بھی نہیں تھا، لیکن پی ٹی آئی کی مرکزی حکومت اور اس کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کی جانب سے آہستہ آہستہ اختیار کیے گئے رویے سے سندھ کے عوام اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پی ٹی آئی +ایم کیو ایم کی مرکزی حکومت سندھ کی پی پی پی حکومت کے خلاف نہیں بلکہ سندھ کی وحدانیت کے خلاف ہیں ۔ جس کے لیے اُن کے پاس کئی دلائل ہیں جیسے مرکزی حکومت کی طرف سے صوبہ کے فنڈز روکنا، صوبہ کے انتظامی اُمور میں مداخلت اور اپنے اتحادیوں کو خوش کرنے کے لیے کراچی کو صوبہ سے کسی بھی طرح توڑ کر علیحدہ صوبہ بنانے یا وفاقی کنٹرول میں دینے کی کوششیں کرنا۔

اُس کے لیے کبھی آرٹیکل 149کی متعصبانہ تشریح کرنا تو کبھی گورنر راج کی باتیں کرنا اور کبھی ہارس ٹریڈنگ کا کھیل رچانہ وغیرہ وغیرہ ، مگر اس بار تو حد ہی ہوگئی کہ آئین کو سبوتاژ کرتے ہوئے سندھ میں صوبہ بنانے کی خاطر صوبائی اسمبلی کو حاصل آئینی اختیار ات کو ختم کرنے کے لیے ایک سازش کے تحت قومی اسمبلی میں سندھ کی صوبائی اسمبلی کے خلاف قانون سازی کی تیاری کرتے ہوئے آئین کی آرٹیکل 239کی بھی فراڈ تشریح کی جارہی ہے اوراپنے گروہی مفادات کی خاطر اس شق میں ترمیم کے لیے آئین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جارہی ہے ۔ ان تمام باتوں سے ان کی نیتیں ظاہر ہورہی ہیں ۔ وہ ملکی وفاقی اداروں کی جانب سے ہی RAWکے ایجنٹ قرار دیے گئے لوگوں کی 35سالہ منشا کو پورا کرنے کے لیے سندھ کی وحدانیت کے ساتھ کھلوار کرنے پر بضد ہیں ۔

سندھ کے عوام ششدر ہیں کہ کراچی کو سندھ سے علیحدہ کرنے پر مرکز اور پی ٹی آئی آخر کیوں بضد ہیں ۔ کیا ملک کے تمام مسائل حل ہوچکے ہیں جو مرکزی حکومت نے اپنی تمام مشنری اور وزراء کی فوج کو سندھ کو علاقہ غیر سمجھ کر اُسے فتح کرنے پر لگادیا ہے ؟ اور اس کی وجوہات کیا ہیں ۔ اس کی ظاہری وجہ تو ایم کیو ایم کا بیانیہ اور کوششیں ہیں۔ ایم کیو ایم سندھ کے متروکہ علاقہ ہونے کا پروپیگنڈہ کرتی رہی ہے۔ تو آئیں سب سے پہلے ایم کیو ایم کے اس  پروپیگنڈہ کی حقیقت جانتے ہیں ۔

قیام پاکستان کے وقت برپا ہونے والے فسادات یا تو پنجاب میں ہوئے یا پھر بنگال میں ہوئے تھے کیونکہ بنگال اور پنجاب کو مسلم و غیر مسلم حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا ۔ ایسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے انڈیا اور پاکستان دونوں نے Evacuee Law یعنی متروکہ قانون بنائے اور ان میں شرط رکھی گئی کہ جن علاقوں میں فساد ہوئے ہیں اور نقل مکانی ہوئی ہے (جوکہ اکثر پنجاب اور بنگال میں تھے ) وہاں خالی کی جانے والی ملکیت کی بنیاد پر معاوضہ یا زمین دی جائے گی ۔

ان حالات کا فائدہ اٹھاکر اتر پردیش ، سینٹرل پردیش اور بہار سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ سندھ میں وارد ہوگئے ، جنھیں قانون کے مطابق آنا ہی نہیں تھا ۔ جو لوگ فسادات میں متاثر ہوئے ، ان سے متعلق ہندوستان اور پاکستان کے مابین ایک معاہدہ ہوا کہ یہ، یہ شہر متاثر ہیں ، انھیں Agreed علاقے قرار دیا گیا ۔ان شہروں میں اکثر مغربی پاکستان کے شہر اور دہلی ، الور ، راجستھان اور بیکانیر و دیگر کچھ علاقے شامل تھے۔ یو پی اور سی پی و بہار سے کوئی بھی شہر اس Agreed فہرست میں شامل نہ تھا اور نہ ہی اُن علاقوں کے لوگوں کو کوئی خطرہ تھا اور نہ ہی اُنہیں نقل مکانی کرنی تھی کیونکہ ان علاقوں میں امن تھا ۔

لکھنؤ میں تو اس قدر امن تھا کہ آزادی کے اعلان پروہاں کے ہندو اور مسلمانوں نے مل کر 14اگست منائی تھی ۔ پھراس بے جا نقل مکانی سے متعلق لیاقت نہرو پیکٹ ہوا ، جس میں سندھ کی جانب نقل مکانی کا بھی کوئی ذکر نہ تھا بلکہ اس پیکٹ میں صرف یہ طے کیا گیا کہ جو لوگ فسادات کی وجہ سے نقل مکانی کرگئے ہیں وہ اپنے گھروں کی طرف واپس آجائیں ، سرکار انھیں اُن کے گھر اور ملکیتیں واپس کردے گی ۔ اس پیکٹ میں واپسی کی ڈیڈ لائین 1950رکھی گئی ، جس کی بنیاد پر کچھ لوگ واپس بھی گئے ، جن میں ساحر لدھیانوی اور قرت العین حیدر جیسے بڑے نام بھی شامل ہیں ۔پھر جو رہ گئے وہ اپنی مرضی سے یہاں اپنے روشن مستقبل کی وجہ سے رہے ۔

یہ بھی ایک امر حقیقت ہے کہ قیام ِ پاکستان کے بعد قائد اعظم پنجاب اور لیاقت علی خان بنگال کی سیٹوں سے پہلی آئین ساز اسمبلی کے رکن بنے تھے ، اس لحاظ سے وفاقی دارالحکومت یا تو ڈھاکہ بن سکتا تھا یا پھر لاہور ،  لیکن ایک سازش کے تحت وفاقی دارالحکومت کراچی کو بنایا گیا اور اس بہانے انڈیا کے اتر پردیش ، سینٹرل پردیش اور دیگر Non Agreedعلاقوں کے لوگوں کو یہاں منتقل کیا گیا ۔ جب کہ سندھ کا صوبائی دارالحکومت حیدرآباد منتقل کردیا گیا ، جس سے بھی سازش کی بُو آتی ہے، کیونکہ اگر کراچی کو پاکستان کا وفاقی دارالحکومت بنایا ہی گیا تھا تووہاں سندھ کا صوبائی دارالحکومت بھی برقرار رہ سکتا تھا ، جس کی مثال کلکتہ تھی ، جوکہ 1912سے مسلسل ہندوستان کا دارالحکومت ہونے کے ساتھ ساتھ بنگال کا دارالحکومت بھی تھا، لیکن جماعتی دباؤ کے تحت سندھ کے دارالحکومت کو زبردستی کراچی سے منتقل کیا گیا۔

سندھ کے عوام کو یہ بات قبول نہ ہوئی اور انھوں نے بھرپور مخالفت کی اور بالآخر وفاقی دارالحکومت کو اسلام آباد منتقل کیا گیا لیکن یہاں بھی سندھ کے ساتھ زیادتی کی گئی کہ دارالحکومت تو اسلام آباد منتقل کیا گیا لیکن اس دارالحکومت کی آڑ میں یہاں بڑے پیمانے پر آباد کیے گئے Non Agreed علاقوں سے آنے والے لوگوں کو اسلام آباد منتقل نہیں کیا گیا بلکہ اُنہیں یہاں من چاہے دعوؤں (Claims) کی بنیاد پر مستقل و مستفید کیا گیا ۔ اس کے باوجود دیکھا جائے توسندھ کے لوگوں نے لاکھوں آنیوالے پناہ گزین لوگوں کو ’’بھلی کرے آیا ‘‘ کہہ کر نہ صرف یہاں آباد ہونے دیا بلکہ ان کی خدمت میں اپنا سب کچھ نچھاور کردیا ۔

پھر پاکستان کے دیگر صوبوں میں آباد ہونے والی اردو آبادی تو وہاں کی قومیت میں گھل مل گئی لیکن سامراجی سازش کے تحت سندھ صوبہ میں انھیں مقامی آبادی سے الگ فوقیتی انداز میں رکھا گیا ۔ پھر اس پر سونے پے سہاگہ کہ اس آبادی کو 1400سال پہلے مسلمانوں کی مدینہ ہجرت سے تشبیہہ دیکرانھیں مہاجرین کا خطاب دیا گیا ، حالانکہ اسلام کی پہلی ہجرت حبش کی طرف تھی لیکن اس سے تشبیہہ یہاں کے مفاد پرست گروہ کے عزائم کو پورا کرنے میں مددگار نہ ہوتی، اس لیے مدینہ کی طرف ہجرت کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا، اور اس کی آڑ میں صوبہ سندھ کی تمام ملازمتوں اور زمینوں کے بھاری حصے پر قبضہ کیا گیا ۔ جس پر سندھ کے مسلمانوں کو اپنی حق تلفی محسوس ہوئی ۔ وہ جنہوں نے پاکستان کے قیام میں اس لیے حصہ لیا تھا کہ یہاں اُن کی پس ماندگی اور غربت کا خاتمہ ہوگا ، انھیں تعلیم و روزگار کے مواقع تک رسائی ہوگی۔

اُن کی گروی زمینیں انھیں واپس ملیں گی اور شاید مل بھی جاتیں اگر قیام ِپاکستان سے قبل1947کے ابتدائی دنو ں میں سندھ اسمبلی سے پاس کردہ قانونSindh Land Alienation Act پراُس وقت کے گورنردستخط کردیتے ،جو کہ قیام پاکستان کے نذر ہوگیا ۔ پھراگربطور گورنرجنرل قائد اعظم اپنے ٹیبل پر آئے اس قانون کے بل پر دستخط کردیتے تو بھی سندھ کے مسلمانوں کو اپنی زمینیں واپس مل جاتیں لیکن تب تک ملکی نظام پر ایک خاص گروہ اور اس کی شاطر بیوروکریسی کا قبضہ ہوچکا تھا ، اس لیے وہ نہ ہوسکا اور بڑی صفائی سے اس بل اور اس کو پاس کرنیوالی سندھ اسمبلی کو ہی دربدر کردیا گیا ۔یہ وہ پہلی آن دی ریکارڈ بدمزگی تھی جو سندھ میں بسنے والی نئی اور پرانی آبادی کے درمیان پیدا کی گئی۔

تب سے آج تک اس صوبے میں یہ دو طرفہ عناد جاری ہے ۔ جسے ختم کرنے کے لیے سندھ کے خیرخواہوں نے بڑی کوشش کی اور ایک لمبے عرصے تک کوئی بڑا تنازعہ پیدا ہونے نہیں دیا ۔لیکن خاص قوتوں کی سندھ کے وسائل پر نظر تھی اور اُن کی لوٹ مار کے لیے لازم تھا کہ یہاں بدامنی اور یہاں کی مستقل آبادیوں کے درمیان بدمزگی برقرار رہے ۔ ان کی سازشیں پہلی مرتبہ 1970-71میں زبان کے مسئلے کی وجہ سے کامیاب ہوئیں اورصوبہ میں خونی فسادات شروع ہوگئے ۔اس آگ پر بڑی مشکل سے دونوں آبادیوں کے باشعور افراد نے مل کر قابو پایا ۔ ضیائی آمریت کے دوران جمہوریت کی بحالی کی تحریک کے دوران یہ دونوں آبادیاں بہت قریب آئیں ۔

اس وقت کراچی کی سڑکوں پر فیض اور شیخ ایاز کے انقلابی گیت ایک ساتھ گونجتے تھے ۔شاہ عبداللطیف بھٹائی اور سچل کے پیام کی پرچار اردو بولنے والے کرتے نظر آتے تو غالب ، جوش و جالب کی نظمیں سندھی لہجے میں پڑھتے سندھی کامریڈوں کی آوازیں کانوں میں رس گھولتی جاتی تھیں ۔ اردو بولنے والے لاڑکانہ ، شکار پور ، کھپرو ، گمبٹ ونواب شاہ میں آباد تھے تو سندھی بولنے والے لیاقت آباد ، گولیمار ، صدر میں بڑی تعداد میں رہتے تھے ۔

آپس میں شادیاں کی جاتی تھیں اور پڑوسی ہونے کے ناطے ایک دوسرے کو سالن و چاول بھیجے جاتے تھے ۔ لیکن پھر خاص قوتوں نے اپنی تاش کا ایک ترمپ کا پتہ کھیلا اور  80کے عشرے میں نسل پرست و متعصبانہ تنظیمیں بنوائی گئیں ۔ تب سے صوبہ بالخصوص کراچی ایک تندور کی مانند دہکتا ہی رہتا ہے ۔ اُن میں ایم کیو ایم سب سے بڑی جماعت تھی ۔ 35سالہ سفر کے بعد گزشتہ چار پانچ سال سے کراچی میں جو ہم آہنگی اور امن و بھائی چارے کی فضا پروان چڑھی ہے اُسے  سازشوں نے پھر نفرت کے نشانے پر رکھ دیا ہے ۔

حالانکہ موجودہ صورتحال میں متحدہ اب اردو بولنے والوں کی نمایندہ جماعت بھی نہیں رہی ہے اور اپنا ووٹ بینک بھی گنوا چکی ہے ۔ اس لیے وہ اپنا کھوئے ہوئے ووٹ بینک کو ایسے نئے اور مہاجر صوبوں کے شوشوں کے ذریعے واپس بحال کرنا چاہتی ہے ۔ جب کہ پی ٹی آئی جیسی وقت کی ناتجربہ کار حکومت ہے ۔ آج اگر دیکھا جائے تو سندھ کے اردو بولنے والے نہ صرف صوبہ کے برابر شہری ہیں بلکہ سندھ میں انھیں تمام بنیادی ،شہری و آئینی حقوق حاصل ہیں اور سہولیات کا تو یہ عالم ہے کہ انھیں وہ سہولیات بھی میسر ہیں جو سندھ کے سندھی بولنے والوں کو بھی حاصل نہیں ۔

اُنہیں یہ بھی پتا ہے کہ بہترین سڑکیں ، اچھے تعلیمی ادارے ، بہتر اسپتالیں، روزگار کے بے پناہ مواقع اور دیگر آسائشوں کے ساتھ ساتھ حکومت اور حکومتی اداروں تک آسان رسائی و ساحلی شہر کی شاندار محل وقوع جیسی نعمت حاصل ہے جو کہ سندھ کے کسی بھی دوسرے شہر کو میسر نہیں ،اس لیے اردو بولنے والوں کی اکثریت اب اس بٹوارے ، نفرت اور لڑانے والی باتوں کو سمجھتی ہے ۔ اس لیے ایسی باتیں پھیلانے والے عناصر کو بھی وہ رد کرچکی ہے لیکن دونوں جانب اب بھی کچھ لوگ موجودہیں جو دوسروں کی بچھائی گئی بساط پر مہرے بن کر صوبہ میں نفرتوں کو پھر سے بڑھاوا دیتے ہیں ۔

اردو اور سندھی بولنے والے دونوں فریقین کی اکثریت یہ بھی سمجھتی ہے کہ بلدیاتی انتخابات قریب آتے ہی ایک پارٹی کی جانب ایسے شوشوں میں تیزی محض اردو آبادی کے ووٹ بٹورنے کے لیے ہے ، لیکن تجزیہ کاروں کی یہ بھی رائے ہے کہ اب اس میں انھیں کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوگی ۔پھر پی پی پی کی بیڈ گورننس کو سبب بناکر صوبے کی جغرافیائی حدود پر حملہ کرنے والوں سے سندھ کے عوام یہ سوال کرتے ہیںکہ اگر بدانتظامی و کچرہ اور سہولیات کی کمی کی بناء پر یوں جغرافیائی توڑ پھوڑ کی روایت رکھنا درست ہے تو پھر ذرا سوچیے کہ پاکستانی وفاق 72سالوں سے ان چیزوں میںمسلسل اور مکمل ناکام رہا ہے تو کیا اُس کی انتظامی اہلیت اور گورننس میں بہتری لانے کے بجائے اُس کی بھی جغرافیائی تشکیل ِ نو کی جائے ؟

سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ صوبہ کے معدنی وسائل سے لے کر سمندر تک ، شاہراہوں سے دریاؤں تک ہر چیز پر جب وفاق کا قبضہ ہے تو متحدہ اُن سے حق مانگنے کے بجائے پائی پائی کے لیے وفاق کی محتاج سندھ کی صوبائی حکومت سے رسہ کش کیوں ہورہی ہے ؟ جب آج پھر دونوں آبادیوں میں میل جول بڑھ رہا ہے ، فاصلے سکڑ رہے ہیں ، آج آرٹس کونسل کراچی میں شیخ ایاز کی شخصیت پر ہونے والے پروگرام میں ضیا ء محی الدین شیخ ایاز کی ہی اردو شاعری پڑھتے نظر آرہے ہیں ۔

ایسے میں خاص قوتوں کے یہ آلہ کاراپنے گروہی مفادات کے حصول کے لیے پھر ایسے شوشے چھوڑ کرعوام میں جو نفرتوں کو ہوا دے رہے ہیں ، یہ نفرتوں کی آگ ایک دن ان کی دہلیز سمیت اس صوبہ بلکہ ملک بھر کو بھسم کردے گی ، کیونکہ کراچی کو منی پاکستان کہا جاتا ہے ۔ اگر منی پاکستان میں آگ لگے گی تو کیا پورا پاکستان اس کی تپش سے جھلسے گا نہیں ؟

پھر سندھ کے حوالے سے ایک بات یہ بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ سندھی عوام اپنی دھرتی کے معاملے میں بڑے حساس ہیں، وہ اپنی دھرتی کی سالمیت کے لیے ایوبی آمریت سے ضیائی آمریت تک اور یہاں تک کہ پی پی پی کی قیادت سے بھی نتائج کی پرواہ کیے بغیر ٹکراجاتے ہیں ۔ اس لیے ملک کی مخلص جمہوری طاقتوں کو چاہیے کہ سندھ کے عوام کی اپنی دھرتی سے والہانہ و جذباتی وابستگی کا خیال رکھتے ہوئے ملکی آئین کی بالادستی سالمیت کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ ملک کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے میں اپنا کردار ادا کریں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔