خبردار کچھ ہونے کو ہے

غریبوں کی بے چینی میں مہنگائی اور بے روزگاری نے شدت پیدا کر دی ہے


رفیق پٹیل December 24, 2019

پاکستان کے سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کے مقدمے میں ایک عدالت سے سزائے موت نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کی سیاسی فضا میں ہلچل پیدا کر دی۔ اس فیصلے کی حمایت اور مخالفت کا سلسلہ تسلسل سے جاری ہے۔ اس فیصلے کی ایک علامتی حیثیت رہے گی ، لیکن ابھی اعلیٰ عدالتوں میں یہ مقدمہ زیر بحث آئے گا۔ اس فیصلے کے فی الحال فوری اثرات میڈیا کی خبروں اور مباحثوں تک محدود ہیں۔ سوشل میڈیا میں بھی حمایت و مخالفت کا سلسلہ جاری ہے۔

بعض دفاعی مبصرین کے مطابق یہ پاکستان کو اندر سے کمزور کرنے کی سازش ہے اور اسے اندر سے نشانہ بنایا جا رہا ہے دفاعی ادارے کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔ بعض مبصرین کا یہ بھی خیال ہے کہ موجودہ نظام انتہائی ناقص ہے عملاً یہ ختم ہوچکا ہے۔ یہ تمام بحث و مباحثہ اپنی جگہ درست ہے اصل خطرہ کچھ اور ہے وہ اس قدر سنگین ہے کہ سب کچھ بہا کر لے جاسکتا ہے۔

یہ وہ خطرہ اور بحران ہے جو دکھائی نہیں دے رہا ہے نہ اس کا ذکر اس کی اصل شدت کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔ نہ ہی اس پر مناسب توجہ دی جاتی ہے یہ مسئلہ معاشی اور معاشرتی ہے اس کی مختلف جہتیں ہیں۔ اسے سیاست سے بھی علیحدہ نہیں کیا جاسکتا ہے اس کا سب سے اہم پہلو بڑھتی ہوئی غربت اور غریبوں میں غصے اور بے چینی کی لہر ہے۔ دنیا بھر میں طبقات ہیں لیکن جس طرح کی بے چینی، نفرت اور غصہ اس وقت امیروں اور پرتعیش زندگی گزارنے والوں کے خلاف نظر آرہے ہیں وہ پہلے دیکھنے میں نہیں آتا تھا۔ پیدل چلنے والوں میں گاڑیوں اور خصوصاً بڑی گاڑیوں میں سفر کرنے والوں کے خلاف بھی غصہ نظر آتا ہے۔

غریبوں کی بے چینی میں مہنگائی اور بے روزگاری نے شدت پیدا کر دی ہے۔ اندر ہی اندر ایک آتش فشاں ہے جو نظر نہیں آتا ہے۔ انقلاب فرانس کے وقت لوگ اناج کے لیے باہر آتے تھے اور انھوں نے محلات پر قبضہ کرلیا تھا۔ ایک اور اہم پہلو بڑھتی ہوئی آبادی کی روک تھام کے لیے بہبود آبادی کے منصوبوں کی ناکامی ہے۔

آبادی میں اضافے کی وجہ سے خوراک ، پانی اور رہائش کے وسائل کم ہو رہے ہیں۔ ٹریفک میں اس قدر اضافہ ہو رہا ہے کہ عام لوگ وقت پر کام انجام نہیں دے سکتے ، ان کی پریشانی اور بے چینی بڑھ رہی ہے۔ ترقیاتی منصوبوں میں کمی آئی ہے جس مدت میں اس کی تکمیل ہوتی ہے اس وقت تک آبادی مزید بڑھ جاتی ہے اور وہ منصوبہ کافی ہوتا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور بد عنوانی سے کچی بستیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ ساتھ ساتھ جرائم میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا۔ پاکستان کے قیام سے اب تک جو اتار چڑھاؤ آیا ہے اس میں ملک سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار رہا۔

اچھی حکمرانی اور پائیدار ترقی سے محرومی کے نتائج سے موجودہ انتشار خطرناک حدوں کو چھو رہا ہے ، بحران اس قدر سنگین ہے کہ کسی ایک ادارے اور سیاسی جماعت کے بس کی بات نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں اور ملکی اداروں کی انفرادی استطاعت اتنی نہیں ہے کہ وہ اس بحران پر قابو پالیں۔ قومی ہم آہنگی اور بھرپور عوامی شمولیت سے کوئی حل نکل سکتا ہے۔ اس طرف کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی۔ قوموں کی ترقی میں اخلاقی اقدار کی انتہائی اہمیت ہے، جو قومیں اخلاقی زوال اور پستی کی جانب چلی جاتی ہیں وہ تباہی سے دوچار ہو جاتی ہیں۔

بدقسمتی سے ہم اخلاقی پستی کا بھی شکار ہیں جھوٹ ، فریب ، دھوکہ دہی ، بے ایمانی ، ناجائز دولت کا حصول اور لوٹ مار عام ہے اچھی حکمرانی ، متوازن معاشی نظام اور اچھی تعلیم و تربیت کے علاوہ پولیس اور عدالت کے منصفانہ نظام سے بہتر اخلاقی اقدار کو فروغ ملتا ہے۔ جسے کبھی ترجیح نہیں دی جاتی ہے۔

ہر وقت فوری مسئلے کو ترجیح ملتی ہے۔ شان و شوکت اور دولت کا حصول مقتدر طبقات کی ترجیحات کا حصہ ہے۔ ایمانداری کو بے وقوفی قرار دیا جاتا ہے۔ معاشی عدم استحکام کے اثرات سے صرف غریب ہی نہیں بلکہ درمیانہ طبقہ بھی بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ مجموعی طور پر عوامی بے چینی ہر سطح پر بڑھتی جا رہی ہے۔

آج کے دور میں دنیا بھر میں معاشی سرگرمیوں میں خواتین اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ زرعی شعبے میں خواتین بھرپور کام کرتی ہیں۔ کھیتوں میں مزدوری کرتی ہیں۔ لیکن ان کی تعلیم اور ترقی کے لیے دیہی علاقوں میں کوئی مناسب انتظام نہیں ہے۔ فرسودہ رسم و رواج کی وجہ سے خواتین کو تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے یا انھیں کم تعلیم دی جاتی ہے ۔ کم عمری میں خواتین کی شادیوں سے قانون کی خلاف ورزی عام ہے شہروں میں خواتین تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد انھیں ملازمتوں میں کم مواقع دیے جاتے ہیں۔

بعض صورتوں میں تعلیم یافتہ خواتین کو خود ان کے اہل خانہ ملازمت سے روک دیتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں بھی اعلیٰ عہدوں تک ان کے لیے بے شمار رکاوٹیں ہیں۔ خواتین کو با اختیار بنا کر ہی ترقی کی منزل کی جانب سفر کیا جاسکتا ہے۔ ملک کی نصف آبادی ملک کی ترقی میں موثر کردار ادا کرنے سے محروم رہے گی تو ملک کسی صورت بھی آگے نہیں جاسکے گا ملک میں بڑھتی ہوئی بے چینی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ملک کی قریباً نصف آبادی کے لیے بے شمار رکاوٹیں ہیں جو غربت میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔

پاکستان جن مسائل کا شکار ہے اس کے حل میں بنیادی کردار سیاسی جماعتوں کو ادا کرنا ہے۔ ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتیں جو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں موثر نمایندگی رکھتی ہیں۔ وہ خود اندرونی انتشار اور تضادات کا شکار نظر آتی ہیں۔ برسر اقتدار تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے قانون سازی کا عمل مشکلات کا شکار ہے حکومت اتحادی جماعتوں کی بے ساکھیوں پر کھڑی ہے۔ سینیٹ میں تحریک انصاف اقلیت میں ہے۔ تحریک انصاف بھی پاکستان کی روایتی سیاسی جماعتوں کی طرح شخصی حکمرانی سے خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتی ہے۔

دوسری بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) قیادت کے بحران کا شکار ہے۔ خاندانی حکمرانی اور عملی طور پر متبادل قیادت کے لیے راستے بند کرنے کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کا اندرونی انتشار بڑھتا جا رہا ہے۔ اندرونی طور پر بغاوت ہوچکی ہے کئی منتخب نمایندوں نے اندرون خانہ برسر اقتدار سیاسی جماعت سے روابط استوار کرلیے ہیں۔ تقریباً یہی حال پاکستان پیپلز پارٹی کا ہے اندرونی انتشار موجود ہے۔ عوام سے دوری بڑھ رہی ہے۔ بلاول بھٹو متبادل قیادت کی صورت میں موجود ہیں۔ اس کی وجہ سے پارٹی کارکنوں میں امید کی کرن موجود ہے۔ دوسری بڑی وجہ اندرون سندھ متبادل سیاسی قوت کی عدم موجودگی بھی ہے۔

پیپلز پارٹی ایک ایسی نظریاتی اور عوامی پارٹی کی پہچان رکھتی ہے اگر اس کے اصل تشخص اور عوامی مقبولیت کو بحال کیا جائے تو وہ موثر کردار ادا کرسکتی ہے۔ پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتیں جدید دور کے تقاضوں سے دور رہیں گی تو مزید کمزور ہوں گی۔ اس طرح ملکی انتشار میں مزید اضافہ ہوگا۔ دیگر اہم سیاسی جماعتوں میں مذہبی جماعتیں ہیں وہ اب تک کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکی ہیں۔

جدید دور کے تقاضے کچھ اور ہیں مذہبی جماعتوں میں نظم و ضبط ہے اس کے باوجود وہ عوامی حمایت سے محروم ہیں۔ پاکستان کے مقتدر طبقات کو اس صورتحال کو سنجیدگی سے دیکھنا چاہیے اس کی سنگینی کا خیال رکھنا چاہیے۔ بحران کا اصل مرکز غربت ، بے روزگاری ، مہنگائی اور بڑھتی ہوئی آبادی ہے سب سے پہلے ان مسائل کے حل سے ابتدا کرنی ہوگی۔

پورے معاشرے میں خلفشار پر قابو پانے کے لیے قومی یکجہتی اور مشترکہ کوششیں ضروری ہیں۔ جو طوفان پیدا ہو رہا ہے وہ امیر اور غریب کی جنگ کی طرف جا رہا ہے۔ پاکستان کے عوام کو خوشحالی کی طرف لے جانے اور انھیں مزید بااختیار بنانے کے لیے فوری انقلابی اقدامات کرنے ہوں گے۔ اگر مزید بے حسی کا مظاہرہ ہوا تو آنے والے وقتوں میں صورتحال بہت زیادہ بگڑ سکتی ہے۔ نتائج کیا ہوں گے کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا ہے۔
string(2) "US" bool(true)

مقبول خبریں