لیبیا میں قیام امن جرمنی اور روس کی مشترکہ کوششیں

لیبیا میں جو قتل وغارت ہو رہی ہے، اس روکنا ان طاقتوں کا اولین فرض ہونا چاہیے


Editorial January 12, 2020
لیبیا میں جو قتل وغارت ہو رہی ہے، اس روکنا ان طاقتوں کا اولین فرض ہونا چاہیے۔ فوٹو: فائل

جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل نے کہا ہے کہ لیبیا کے بارے میں امن مذاکرات برلن میں ہوں گے جب کہ ترکی اور روس نے لیبیا میں مصروفِ جنگ دھڑوں سے اپیل کی ہے کہ وہ فائر بندی کر کے مذاکرات میں شامل ہو جائیں۔ ماسکو میں روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے ہمراہ ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چانسلر انجیلا مرکل نے کہا کہ انھیں امید ہے کہ ترکی اور روس کی طرف سے کی جانے والی مصالحتی کوششیں کامیابی سے ہمکنار ہوں گی۔ انجیلا مرکل نے کہا اس کا مقصد لیبیا کو ایک خود مختار اور پر امن ملک کا تاثر قائم کرنے کا موقع فراہم کرنا ہے۔

روسی صدر پیوٹن نے اس پراسس کے لیے مکمل سپورٹ فراہم کرنے کا اذن دیا اور کہا کہ یہ بہت بروقت خیال ہے اور لییا میں جاری تصادم روکنے کے لیے ضروری ہے۔ اس مہینے کے آغاز میں ترکی اور روس نے لیبیا کے متحارب فریقوں پر زور دیا تھا کہ وہ جنگ بندی کا اعلان کر دیں۔ ترکی نے فیاض السراج کی طرابلس میں قائم قومی حکومت کی حمایت کا اعلان کیا اور کہا کہ اس سے لیبیا میں اندرون ملک جھگڑا ختم ہو جائے گا اور قیام امن کی راہ ہموار ہو گی۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا روس جانتا ہے کہ لیبیا میں روس کے جنگجو گروپس برسر پیکار ہیں، پیوٹن نے کہا اگر وہ روسی شہری ہیں تو اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ روس کے مفادات کی نمایندگی نہیں کر رہے بلکہ خلاف ورزی کر رہے ہیں۔

مزید برآں انھیں روس کی ریاست کی طرف سے کوئی مالی امداد نہیں دی جا رہی۔ چانسلر مرکل کی روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے ساتھ کریملن میں ملاقات ہوئی جس میںمشرقی وسطیٰ کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ مرکل اور پیوٹن نے ملاقات سے قبل مصافحہ کیا اور کہا کہ ان کی بات چیت میں لیبیا کے بحران اور شام کے تنازعے پر غور کیا جائے گا۔ علاوہ ازیں یوکرائن میں روس نواز علیحدگی پسندوں کے ایشو پر بھی بات کی جائے گی۔ مرکل نے کہا کہ بات چیت وسیع البنیاد موضوعات پر ہو گی نیز یہ کہ دوسروں کے ساتھ تبادلہ خیال کر لینا ہمیشہ مفید رہتا ہے۔

دوسروں کے بارے میں خود ہی سوچنا اور خیالی پلاؤ پکانا کبھی فائدہ مند نہیں ہوتا۔ جرمنی اور روس نے باہمی اتفاق سے کہا ہے کہ وہ واشنگٹن اور تہران میں مفاہمت کرانے کی کوشش بھی کریں گے۔ پیوٹن نے چانسلر مرکل کی آمد کا شکریہ بھی ادا کیا اور کہا کہ ان کا فوکس گرما گرم موضوعات پر ہو گا۔ دونوں لیڈروں نے یہ بھی کہا کہ وہ ملاقات میں کیے گئے فیصلوں کے بارے میں بھی ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں اعلان کریں گے تا کہ اس میں کیے جانے والے فیصلوں کی آگاہی دے سکیں۔

انھوں نے کہا ہم نہیں چاہتے کہ لیبیا کا حال بھی شام جیسا ہو۔ روس اور جرمنی یورپ کی طاقتور ریاستیں ہیں۔ لیبیا میں جو قتل وغارت ہو رہی ہے، اس روکنا ان طاقتوں کا اولین فرض ہونا چاہیے کیونکہ لیبیا میں دونوں ملکوں کے بھاری مالی مفادات ہیں۔ ترکی کے لوگوں کی بھی لیبیا میں بھاری سرمایہ کاری ہے۔وقت کا تقاضا یہ ہے کہ لیبیا کو مزید خون ریزی سے بچایا جائے۔لیبیا میں متحارب دھڑوں کے درمیان ایسی مفاہمت کی داغ بیل ڈالی جائے جس میں سب کے مفادات کا تحفظ ہو۔لیبیا کا بحران اگر مزید پھیلا تو اس کے اثرات شمالی افریقہ کے دیگر ممالک پر بھی پڑینگے۔روس اور جرمنی کی قیادت نے درست سمت میں قدم اٹھایا ہے کیونکہ انھیں ترکی کی حمایت بھی حاصل ہے۔

مقبول خبریں