خشک آنکھ کو نم رکھنے والا کانٹیکٹ لینس تیار

ویب ڈیسک  پير 27 جنوری 2020
جاپانی ماہر نے ازخود نمی خارج کرنے والا کانٹیکٹ لینس تیارکیاہے۔ فوٹو: فائل

جاپانی ماہر نے ازخود نمی خارج کرنے والا کانٹیکٹ لینس تیارکیاہے۔ فوٹو: فائل

ٹوکیو: دنیا میں ہزاروں لاکھوں افراد آنکھ کے ایک عارضے میں مبتلا ہیں جس میں آنکھوں سے نمی کی مقدار کم بنتی ہےاور خشک آنکھوں کی وجہ سے بار بار آنکھوں میں قطرے ٹپکانا پڑتے ہیں۔

لیکن اب آنکھوں کو مسلسل نم رکھنے والے جدید کانٹیکٹ لینس بنائے گئے ہیں جو مسلسل نمی خارج کرکے آنکھوں کی خشکی سے بچاتے ہیں اور بار بار آنکھوں میں قطرے ٹپکانے کی ضرورت نہیں رہتی ۔

روایتی کانٹیکٹ لینس پہننے سے آنکھ کی پتلی کو پلاسٹک کا ٹکڑا مکمل طور پر ڈھانپ لیتا ہے۔ ہم آنکھ جھپکانے کے ہرعمل سے آنکھوں میں نمی پھیرتے ہیں لیکن لینس کی وجہ سے آنکھ کی گول پتلی نمی سے محروم رہ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کانٹیکٹ لینس پہننے والے خواتین وحضرات کچھ دیر بعد ہی خارش، جلن اور بےچینی کی شکایت کرتے ہیں۔ تاہم مختلف افراد میں یہ اس کا دورانیہ مختلف ہوسکتا ہے۔

جاپان کی ٹوہوکو یونیورسٹی کے پروفیسر مٹشیکو نیزی شاوا نے اس مسئلے کے حل کے لیے جدید کانٹیکٹ لینس بنایا ہے جو وقفے وقفے سے لینس اور اپ کی آنکھ کے درمیان ہلکی نمی خارج کرتا رہتا ہے۔ یہ نمی ایک طبعیاتی مظہر الیکٹرواوسموٹک فلو (ای او ایف) کے تحت بنتی ہے۔ ای او ایف میں جب کسی چارج شدہ سطح پر بجلی گزاری جاتی ہے تو مائع کا ہلکا بہاؤ شروع ہوجاتا ہے۔

لینس کے اوپر ہائیڈروجل لگایا گیا ہےجو کرنٹ دینے پر آنکھ کو قدرتی طور پر نم رکھنے والے مائع غدود سے نمی کا بہاؤ ممکن بناتا ہے۔ یہ غدود آنکھ کے اوپری پپوٹے کے اندر کونے میں موجود ہوتے ہیں۔ اس لینس کے اندر ہلکی بجلی بنانے والی بایو بیٹری لگائی گئی ہے جو میگنیشیئم اوراینزائم والے فرکٹوز آکسیجن سے بنائی گئی ہے۔ یہ اتنی چھوٹی ہے کہ اسے آنکھ کے اندر ہی لگایا جاسکتا ہے۔

فی الحال سے دستی طور پرآن یا آف کیا جاتا ہے لیکن وہ دن دور نہیں جب لینس میں مائع کے بہاؤ کا آپشن وائرلیس کے ذریعے کنٹرول کیا جاسکے گا۔ دوسری جانب لینس کو مزید پائیدار اور کم وولٹیج پرکارآمد بنانے پر بھی کام کیا جائے گا۔

اس ایجاد کے بعد لینس کے مزید استعمال یہی پر ختم نہیں ہوجاتے بلکہ اگلے مرحلے میں کانٹیکٹ لینس کے ذریعے آنکھوں کے مرہم یا دوا کو ازخود خارج کرنے کے طریقوں پر بھی غور کیا جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔