دم مارنے کی مجال نہیں

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 23 نومبر 2013

راولپنڈی کے سانحے پر طرح طرح  کے تجزیے دیے جارہے ہیں درحقیقت جو کچھ گزشتہ 66 سال کے اندر اس ملک میں ہوتا رہا ہے ۔ یہ اس کے رد عمل کی ایک معمولی سی جھلک ہے اوراس کے نتائج اس سے بھی زیادہ خوفناک ہوسکتے ہیں۔ یہ نفرتیں صرف مسلکوں اور فرقوں کے درمیا ن ہی نہیں ہیں بلکہ یہ نفرتیں مختلف مذاہب ، مختلف قوموں کے درمیان بھی موجود ہیں۔ 66 سال کے دوران مختلف مفاد پرست غیر جمہوری قوتوں نے ان نفرتوں کو فروغ دیا ہے۔ اور جب آج اس کے نتائج کی ذراسی جھلک ہمارے سامنے آتی ہے تو ہم بھڑک اٹھتے ہیں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم سب مل کر اس کا حل تلاش کرتے لیکن ہم ایسا کرنے کے بجائے نفرتوں کو اور بڑھانے میں اپنا اپنا حصہ ڈالتے چلے گئے۔

اپنی غلطیوں پر پشیمان ہونے کے بجائے ہم اسے اپنی غلطی ہی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پوری دنیامیں کوئی ایک ملک بتاد یجیے جہاں سو فیصد ایک مذہب یا فرقے ، زبان ، مسلک یا رنگ و نسل کے لوگ رہتے ہیں دنیا بھر کے لوگوں نے اختلاف، مختلف نقطہ نظر، مختلف عقیدے رکھنے کے باوجود امن و محبت کے ساتھ ایک ساتھ رہنا اور جینا سیکھ لیا ہے کوئی بھی انسان معاشر ہ اختلافات سے مبرا  ہوہی نہیں سکتایہ اختلافات سیاسی بھی ہوسکتے ہیں اور مذہبی بھی۔ انسانی معاشروں میں اختلافات کا پایا جانا بالکل فطری ہے دنیا کے دیگر دوسرے تمام مذاہب کے ماننے والوں کی طرح مسلمانوں میں بھی مسلکی اختلافات موجود ہیں اوریہ آج اچانک رونما نہیں ہوئے ہیں بلکہ صدیوں سے موجود ہیں ۔ خلافت راشدہ کے بعد دنیائے اسلام میں موروثی خلافت رائج ہوگئی جو ملوکیت یاآمریت ہی کی ایک شکل تھی اور پھر آہستہ آہستہ ملوکیت اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ دنیا اسلام میں قائم ہوگئی ۔ اور وہ تمام برائیاں جوآمریت یاشخصی حکومت میں ہوتی ہیں مسلم معاشروں میں داخل ہوگئیں۔

آمریت یا شخصی حکومت میں اصول پرستی کے بجائے شخصیت پرستی، حق گوئی کے بجائے خوشامد ، راست گوئی کے بجائے منافقت کو فروغ ملتاہے عدل و مساوات کی اعلیٰ روایات کے بجائے سازشیں اور بغاوتیں نشو ونما پاتی ہیں تاریخ شاہد ہے کہ یہ برائیاں خلافت راشدہ کے بعد مسلم معاشرے میں بھی تقریباً ہر دور میں کم و بیش موجود رہی ہیں۔ یہ فرقہ پرستی، سازشوں اور رشیہ دانیوں ہی کا نتیجہ ہے جس کے نتیجے میں ہمیں ہر دور میں غلامی کی زنجیریں ملیں، اسلامی تاریخ باہمی نفاق کے عبرتناک واقعات سے بھر ی پڑی ہے۔

مسلمانوں کی تمام مرکزی حکومتیں باہمی نفاق کی وجہ ہی سے ختم ہوئیں مغلوں کے حملوں نے ایران بلکہ اسلام کو سخت نقصان پہنچایا ان حملوں کے عوامل میں باہمی نفاق اور اپنوں کی سازش بھی شامل تھی اس دور کی تاریخ میں ہے کہ فرقہ پرستی اس قدر عام تھی کہ ایک فرقے کے لوگ مخالف فرقے کے لوگوں کو قتل کیا کرتے تھے ان کے مدارس اور محلوں کو لوٹتے تھے، آگ لگاتے تھے اور ثواب کماتے تھے اور پھر چنگیز خان ایک عذاب الہی بن کر دنیا اسلام پر نازل ہوا۔

مشہور مورخ عطا ملک جو ینی نے اپنی کتاب ’تاریخ جہاں گشای جوینی‘ میں اس عذاب الہی کی تفصیل بیان کی ہے جو کچھ یوں ہے اگلے روز صبح ہوتے ہی چنگیز خان بخارا شہر کے اندر آیا شہر کی جامع مسجد میں سوار ہی داخل ہوا اور پوچھا کہ کیا یہ سرائے سلطان ہے ؟ لوگوں نے کہا نہیں حضور یہ تو خانہ یزدان ہے ۔چنگیز خان گھوڑے سے اترا اور منبر کی تین سیڑھیاں چڑھا اور حکم دیا کہ شہر میں جس قدر غلہ جمع ہے گھوڑوں کے راتب کے لیے لایاجائے حکم کے مطابق وہ صندوق جن میں قرآن پاک محفوظ تھے انہیں خالی کرکے گھوڑوں کے لیے بڑے اورکھرلیاں بنائی گئیں اور قرآن پاک نکال دیے گئے۔ مسجد میں شراب کے جام چل رہے تھے ۔ گانے والیاں اور رقاصائیں اپنے اپنے فن کا مظاہر ہ کررہی تھی۔ تاتاری مستی کے عالم میں ان کے ساتھ گا رہے تھے۔

ادھر ائمہ، سادات، علماء اور مجتہدان عصر سردار ان مغل کے اصطبلوں پر پہرہ دے رہے تھے، کچھ دیر بعد چنگیز خان وہاں سے روانہ ہوا سب لوگ چل پڑے اور قرآن پاک کے اوراق پاؤں تلے روندے جانے لگے یہ حال دیکھ کر ماروء النہر کے سربر آوردہ سید ، زہد و ورع مشہور زمانہ امیر جلال الدین نے وقت کے ایک بہت بڑے عالم اور امام رکن الدین امام زادہ کی جانب رخ کرکے کہا۔ ’’مولانا میں یہ کیا دیکھ رہاہوں یہ عالم خواب ہے یا عالم بیداری‘‘ مولانا امام زادہ نے فرمایا ’’چپ رہو خدواند تعالیٰ کی بے نیازی کی ہوا چل رہی ہے۔

دم مارنے کی گنجائش نہیں۔‘‘ چنگیز خان شہر سے باہر عید گاہ میں آیا ساراشہر وہاں موجود تھا منبر پر کھڑے ہوکر اس نے خطبہ دیا اس نے کہا اے لوگوں جان لو کہ تم نے بہت گناہ کیے ہیں اور یہ گناہ تمہارے سرداروں نے کیے ہیں میں یہ بات اس دلیل پر کہہ رہاہوں کہ میں عذاب الہی ہوں اگر تم بڑے بڑے گناہ نہ کرتے تو خدا مجھ جیسے عذاب کو تمہارے سروں پر نہ بھیجتا ۔ پھر حکم دیا کہ محلات کو آگ لگا دو ۔ شہر جل کر راکھ ہوگیا۔ 30 ہزار سے زیادہ آدمی قتل ہوئے۔ تاریخ شاہد ہے کہ خلافت بغداد بھی فرقہ پرست لوگوں  کی سازش و تجاہل عارفانہ سے ہلاکو خان کے ہاتھوں تباہ و بر باد ہوئی ۔ ایمرسن نے کہا ہے کسی قوم میں باہمی احترام کے اٹھ جانے سے بڑا قحط اور کیا ہوسکتا ہے۔

پاکستان آج جس مقام پر کھڑا ہوا ہے وہ ہم سب کے لیے باعث تشویش ہے پاکستان کی معیشت تمام ترکوششوں کے باوجود سنبھلنے کا نام نہیں لے رہی گزشتہ اور موجودہ حکومتوں کے تمام دعوے غلط ثابت ہورہے ہیں دوسر ی طرف ہم بحیثیت قوم شدید انتشار کا شکار ہیں مختلف فرقے، مختلف مذاہب کے لوگ انجانے خوف میں مبتلا ہیں، یہ سب کے سب یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی بقاء کو خطرہ ہے۔ وہ قوم قابل رحم ہوتی ہے جو بے شما ر فرقوں میں بٹ جائے اور ہر چھوٹے سے چھوٹا فرقہ اپنے آپ کو ایک پوری قوم سمجھنے لگ جائے۔ غلطیاں سب سے ہوتی ہیں، بے وقوف اور عقل مند میں فرق یہ ہے کہ ایک کو آخ رتک احساس نہیں ہوتا اور دوسرے کو فوراً ہوجاتا ہے۔

غلطی کو غلطی جان کر بھی اس کی اصلاح نہ کرنے والا ایک اور غلطی کر رہا ہوتا ہے۔ اگر ہم نے اب بھی احساس نہ کیا تو پھر بہت دیر ہوجائے گی ۔ ہمیں اب ایک دوسرے پر الزام لگانے کا کھیل ختم کر ناہوگا۔ تمام قوموں ، سیاسی قوتو ں ، مختلف فرقوں مختلف مذاہب کے نمائندوں کو مل کر ایک ایسی راہ تعین کرنی ہوگی جس سے ہم آنے والے خطرات سے محفوظ رہ سکیں کیونکہ مسائل اتنے شدید ہیں کہ ملک کی بقا دائو پرلگی ہوئی ہے۔ صرف اتحاد اور ہم آہنگی ہی میں بچنے کی صورت ہے ورنہ ہم کام سے گئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔