خطے کا امن امریکہ طالبان معاہدے کی کامیابی سے منسلک ہو گیا

ارشاد انصاری  بدھ 4 مارچ 2020
اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے کہ امریکہ کا افغانستان میں پسپائی اختیار کرنا افغانوں اور پاکستان کی ایک بڑی کامیابی ہے۔

اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے کہ امریکہ کا افغانستان میں پسپائی اختیار کرنا افغانوں اور پاکستان کی ایک بڑی کامیابی ہے۔

 اسلام آباد:  پوری دنیا کی نظریں چند روز قبل دوحہ میںطالبان اور امریکہ کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے مستقبل پر لگی ہیں۔

اگرچہ ابھی معاہدہ پر دستخط نہیں ہوئے تھے اسی وقت سے اس معاہدے کے بعد کے اثرات بارے دفاعی و سفارتی و عالمی تجزیہ کاروں نے سوالات اٹھانا شروع کردئے تھے اور اس میں کوئی درائے بھی نہیں ہیں کہ دنیا اور جنوبی ایشیا کے امن کا دارومدار اس معاہدے سے زیادہ اب اس معاہدے کی کامیابی پر ہے اور اگر خدانخواستہ اس معاہدے پر عملدرآمد ناکام ہوتا ہے تو اسکے اثرات اس سے بھی کہیں زیادہ بھیانک اور خطرناک ہوں گے جو گذشتہ اْنیس سال سے افغانستان میں جاری امریکہ اور اسکے اتحادی افواج کی طالبان کے ساتھ جاری لڑائی سے سامنے آئے ہیں اور ایسے میں یہ خدشات مزید اہمیت اختیار کر جاتے ہیں کہ ابھی طالبان اور امریکہ کے درمیان طے پانیوالے معاہدے کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی ہے اور افغانستان میں پرتشدد کاروائیوں کی ایک نئی لہر دیکھنے میں آئی ہے اور پیر کے روز افغان صوبے فریاب، بلخ، ننگر ہاراور زابل سمیت متعدد اضلاع دھماکوں سے لرز اٹھے ہیں۔

افغانستان کے صوبہ خوست کے ضلع نادرشاہ کے فٹبال گراؤنڈ میں دھماکے سے 3 افراد ہلاک جبکہ 11زخمی ہوگئے۔ طالبان نے بھی قیدیوں کی رہائی تک انٹرافغان مذاکرات نہ کرنے دھمکی دیدی جس سے افغانستان کا امن ایک بار پھر خطرے میں پڑگیا کیونکہ امن معاہدے کی سیاہی ابھی سوکھی نہ تھی کہ ضلع نادرشاہ کے فٹبال گراونڈ میں ہونیوالے دھماکے میں تین شہری ہلاک جبکہ گیارہ زخمی ہوگئے ہیں اورطالبان نے ملک میں جنگ بندی کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک بار پھر افغان آپریشن کا اعلان کر دیا ہے۔

اس سے قبل افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے طالبان قیدیوں کی رہائی سے انکارکیا گیا تھا۔افغان طالبان رہنماوں نے بھی پانچ ہزار قیدیوں کے رہا نہ ہونے تک بین الافغان مذاکرات میں شرکت کرنے سے انکار کردیا ہے۔ ادھرامریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو افغان امن معاہدے کی راہ کٹھن اور ناہموار قراردے چکے ہیں۔

امریکی میڈیا کو انٹرویو میں ان کاکہنا تھاکہ کسی کو ان مذاکرات کے آسان ہونے سے متعلق غلط فہمی نہیں ہے۔ یہی نہیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس معاہدے کے بارے میں پہلے سے ہی دھمکی آمیز پیغام دنیا کو دے چکے ہیں جس میں وہ واضح کر چکے ہیں کہ اگر اس معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی تو پہلے سے زیادہ فوجی قوت کے ساتھ افغانستان پر چڑھائی کی جائے گی۔

طالبان اور امریکہ کے درمیان دوحہ میں ہونیوالے معاہدے کے بارے میں جنرل حمید گل کی جانب سے امریکہ کو امریکہ کی مدد سے شکست دینے کے حوالے سے کی جانیوالی ماضی کی پیشن گوئیوںکے سچ ہونے سے تعبیر کیا جا رہا ہے اور سوشل میڈیا پرجہاں جنرل حمید گل کی پیشن گوئیوں پر مبنی ماضی کے ویڈیو کلپ وائرل ہیں وہیں جنرل شاہد عزیز کے ویڈیو کلپ بھی سول میڈیا پر وائرل ہیں اور ان دونوں سابق جرنیلوں کے افغان لڑائی کو لے کر دنیا اور جنوبی ایشیاء کے مستقبل کے حوالے سے کی جانیوالی پیشن گوئیوں اور تجزیوں پر خوب بحث ہو رہی ہے۔

اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے کہ امریکہ کا افغانستان میں پسپائی اختیار کرنا افغانوں اور پاکستان کی ایک بڑی کامیابی ہے اور اس امن معاہدے میں بھی پاکستان کا کلیدی کردار ہے جس کا اعتراف نہ صرف معاہدے کی تقریب کے دوران طالبان اور امریکہ نے کیا ہے بلکہ پوری دنیا اسکی معترف ہے۔

اب امریکہ کی پسپائی بارے تو جنرل حمید گل کی پیشنگوئی درست ثابت ہوگئی ہے لیکن معاہدے کے چند روز بعد ہی افغانستان میں ہونے والے حالیہ دھماکوں اور فریقین کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی سے جنرل شاہد عزیز کے خدشات بھی اہمیت اختیار کرتے جا رہے ہیں کیونکہ جنرل شاہد عزیز نے 2015 میں وفاقی دارلحکومت کے ایک مقامی ہوٹل میں دفاع پاکستان کے عنوان سے منعقد ہونی والے ایک پروگرام میں پاکستان کو لاحق خطرات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا تھا کہ خطرہ تو دور سے دیکھا جاتا ہے اب تو ہم تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔

جنرل شاہد عزیز نے دنیا کو درپیش خطرے کا ذمہ دار امریکہ اور طاغوتی قوتوں کو قرار دیتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ امریکہ اپنے ٹرمپ کارڈ ماضی سے کھیلتا آرہا ہے اور بلوچستان میں بھی گھناونا کھیل امریکہ ہی کھیل رہا ہے جس کے مذموم مقاصد ہیں اور اس سارے کھیل کا بنیادی مقصد جہاں پاکستان کو کنٹرول کرنا ہے بلکہ خطے میں بیٹھ کر روس، چین اور دوسرے حریفوں پر نظر رکھنا ہے اور انہوں نے اس وقت بھی واضح کیا تھا کہ امریکہ کا خطے سے جانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور نہ امریکہ یہاں سے جا سکتا ہے اور امریکہ صرف پینترہ بدل سکتا ہے کیونکہ امریکی معیشت کا دارومدار ہی جنگی سازوسامان کی انڈسٹری پر ہے اور اس مہم جوئی کے ذریعے اپنی ڈوبتی ہوئی معیشت کو سنبھالا دینے کے ساتھ ساتھ دنیا پر اپنا فوجی و سیاسی تسلط بھی قائم رکھا جائے اور وسطی ایشیاء کی شاہراہ کے ساتھ ساتھ افغانستان اور بلوچستان کے معدنی وسائل پر قبضے کیلئے وہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔