مہذب معاشرہ

ڈاکٹر عامر لیاقت حسین  پير 16 مارچ 2020

معاشرہ ’’معاش‘‘ سے نکلے افراد کے اْس معلوم اجتماع کا نام ہے جو مل جل کر رہنے پر یقین رکھتے ہیں اورپھر متفقہ معاشرتی ضابطوں، اقدار اور فکر کو فروغ دینے کے لیے ایک دوسرے کا سہارا بنتے ہیں، نظریاتی طور پر ہم آہنگی ہو یہ ضروری نہیں لیکن بنیادی تصورات میں تضاد ’’معاشرے‘‘ کی تشکیل کے عمل کو قبول نہیں کرتا اور آہستگی کے ساتھ معاشرہ منقسم ہوجاتا ہے تاہم چونکہ ذریعہ معاش بدعنوانی کے عنوان سے جانا پہچانا نہیں جاتا اس لیے معاشرہ منقسم ہونے کے باوجود مباحثوں اور مکالموں میں تہذیب و شائستگی کے ابواب رقم کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے ، اور ان ہی تین بنیادوں پر ، اول ستھرا ذریعہ معاش، دوئم قوت برداشت اور سوئم اختلاف میں شائستگی ایک مہذب معاشرے کی تعریف ہوتی ہے۔

مجھے اختلاف ہے ہر اْس فرد سے جو پاکستانی معاشرے کو ایک مہذب معاشرہ قرار دیتا ہے ، یہی وطن سے غفلت کے وہ اندھے چراغ ہیں جنھیں حقیقت پسندی کے ایندھن سے نہیں بلکہ کالے دھن سے روشن کیا گیا ہے اور اسی لیے ہم میں تحمل ہے نا بْردباری، میانہ روی توخیرسرشت ہی میں نہیں اور احترام باہمی کسے کہتے ہیں اس سے ہم قطعاً نا آشنا ہیں۔

ہم ایک مہذب معاشرہ نہیں بلکہ ’’بدمعاشرے‘‘ کے وہ چھٹے ہوئے بدمعاش ہیں جو اپنے گھر میں ماؤں بہنوں کے باوجود مخالف فرد کے گھر کی خواتین کوعزت و احترام کے الفاظ سے پکارنے کے روا دار نہیں، ہمارا ذریعہ معاش نامعلوم ، ہمارا کردار نامعلوم، ہماری تاریخ معلوم ہونے کے باوجود نامعلوم ، ہم نام لیتے ہیں دین کا اور دین ہی سے نا بلد ، لبوں پر درود پاک کے تحفے اور پھر اْن ہی لبوں سے اپنے ہی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوسرے امتی پر بدکلامی کے وار ، سنی سنائی باتوں کو آگے بڑھانا ، اخلاق کی پستیوں میں گرنے سے بے فکر اورکوئی ابھر جائے تواْس ابھرتے فردکوگھسیٹ کر پستیوں میں کھینچنے کے لیے ہشیار، ’’بیک ورڈ‘‘ ہونے کے باوجود ہر شے ‘‘فارورڈ’’ کرنے کا شوق، پولیو کے قطروں کوخطرہ سمجھنا، سماجی رابطوں کے اکاؤنٹ پر نت نئی گالیوں کی ایجادات ، نمازیں پڑھنے کے باوجود نمازوں سے غفلت ، یتیم کو جھڑکنا ، بیواؤں کا مال ہڑپ کر لینا ، زمینوں پر قبضے، اتہام کی فراوانی، دروغ گوئی پر اکڑ، اللہ سے معافی کے طلب گار مگر بندے کو معاف نہ کرنے کے طرفدار۔

کون ہیں ہم لوگ ؟ کیا تعریف ہے ہماری؟ کیا کر دکھایا ہے ہم نے؟ جن کارناموں پر ہمیں ناز ہے وہ اب تک ماضی کے ان مٹ نقوش ہیں ورنہ سوائے حسد کے اور کوئی کارہائے نمایاں ہماری کتاب حال میں قلم بند ہی نہیں۔ ہم مہذب معاشرے کی آواز نہیں، ہم میں تہذیب و تمدن سے آگاہی کا وہ قلب ہی نہیں جہاں سے دھڑکن سنائی دے ، حرام کھانے والوں سے حلال کاموں کی توقع ختمی مرتبت کے اقوالضو فشاں سے روگردانی ہے، مگر ابھی روشنی باقی ہے اگر ہم اعتراف جرم کر لیں، ابھی سفر تمام نہیںہوا اگر ہم کسی سنگ میل پہ رک کر اپنا احتساب کرلیں، ابھی فیصلہ لکھا نہیں گیا اگر ہم اپنے لکھے اورکہے سے دستبردار ہوجائیں۔

یہ معاشرہ مہذب تب کہلائے گا کہ جب زمین ہمیں تنگ لگے اور ہم آسمان کی جانب نَم آنکھوں سے مسکرا کر صرف اتنا کہہ دیں ’’ اچھا تْو ایسے راضی تو میں بھی ایسے راضی‘‘…یاد رکھیے کوئی یوں ہی خاموش نہیں ہوجاتا، پلٹ کر جواب دینا بْری بات ہے مگر صرف سْنتے رہو تو لوگ بولنے کی حدیں بھول جاتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی فراموش کردیتے ہیں کہ جس کو سنا رہے ہیں وہ بولنا بھی جانتا ہے البتہ اگر خاموش ہے تو پھر وہ تمہیں شکست دے رہا ہے کیونکہ بولنا تمہیں نہیں اْسے آتا ہے تم توصرف کاپی پیسٹ کردار ہو جسے یا تو لکھا ہوا فراہم کر دیا گیا ہے یا مفادات کے سوداگروں نے بولنے والے کو ’’کنٹرول‘‘ کرنے کے لیے تمہیں  بَک بَک کے لیے محدود کرایہ دیا ہے تا کہ ان کے لیے ’’وہ بولنے والا‘‘ یہ جان لے کہ اسے کنٹرول کیا جاسکتا ہے اور یہی تمہاری اور مفادات کے سوداگروں کی موت ہے کہ وہ تم سب کوجان چکا ہے ،کاش کہ سب اپنی اپنی گذار دیتے تو زندگی اتنی دشوار بھی نہ تھی۔

رب نے یہ فرما کر بڑی تسلی دے دی کہ ’’ وہ لوگ اس قابل ہی نہیں تھے جنھیں تم سے دْور کردیا گیا‘‘ یہ میںنہیں کہتا میرے آقا فرماتے ہیں کہ ’’ اپنے کھانے کو پاکیزہ بناؤ تمہاری دْعا قبول ہوگی‘‘  تو پھر پہلے پاکیزہ کھاؤپھر پاکیزہ بولوتا کہ پاکیزگی کے حسن سے آشنا ہوجاؤ ، کورونا ، ڈینگی، برڈ فلو یا کوئی بھی وبائی مرض ایسا نہیںجو پاکیزہ کردار والوں کو پراگندہ کر سکے، کبھی یہ آفت ہوتی ہے تو کبھی آزمائش مگر عذاب نہیں… گلوچ والو! دلوں کو سمندر بنانا پڑتا ہے تب کہیں جاکر انسانیت سے محبت کے دریا اْس میں اْترتے ہیں۔

صحیح وقت پر کروا دیں گے حَدوں کا احساس

کچھ تالاب خود کو سمندر سمجھ بیٹھے ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔