پلاٹ کیس،میر شکیل کے جسمانی ریمانڈ میں 13 روز توسیع

نمائندہ ایکسپریس  جمعرات 26 مارچ 2020
ملزم نے نواز شریف کی ملی بھگت سے 2 گلیاں بھی الاٹ شدہ پلاٹوں میں شامل کر لیں،نیب وکیل۔ فوٹو: فائل

ملزم نے نواز شریف کی ملی بھگت سے 2 گلیاں بھی الاٹ شدہ پلاٹوں میں شامل کر لیں،نیب وکیل۔ فوٹو: فائل

لاہور: احتساب عدالت نے غیر قانونی پلاٹ الاٹمنٹ کیس میں گرفتار جنگ جیو کے مالک میر شکیل الرحمن کے جسمانی ریمانڈ میں 13 روز کی توسیع کردی جبکہ کورونا وائرس سے بچاؤ کی تدابیر اختیار نہ کرنے پر جنگ جیو کے ملازمین پر اظہار ناراضی کرتے ہوئے روسٹرم سے دور ہونے کا حکم دیا۔

جنگ جیو کے مالک میر شکیل الرحمن کو 12 روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر احتساب عدالت کے جج جواد الحسن کے روبرو پیش کیا گیا، نیب کی جانب سے ملزم سے مزید تفتیش کیلیے 15 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی۔ میر شکیل الرحمن کی جانب سے اعتزاز احسن کی بجائے مسلم لیگ ن کے کیسز لڑنے والے وکیل امجد پرویز نے وکالت نامہ جمع کرایا جبکہ نیب کی طرف سے سپیشل پراسکیوٹر حافظ اسد اللہ اعوان اور عاصم ممتاز پیش ہوئے۔

نیب پراسکیوٹر نے بتایا کہ 1986 میں حاکم علی وغیرہ سے مختار عام حاصل کیا. عدالتی استفسار پر کہ کیا میر شکیل الرحمن کو پلاٹ ایگزمپٹ کرانے کا اختیار تھا، نیب پراسکیوٹر نے بتایا کہ پلاٹ ایگزمپٹ کرانے کا اختیار نہیں تھا، ملزم میر شکیل نے اس وقت کے وزیراعلی نواز شریف کی ملی بھگت سے ایک ایک کنال کے 54 پلاٹ ایگزمپشن پر حاصل کئے،ملزم کا ایگزمپشن پر ایک ہی علاقے میں پلاٹ حاصل کرنا ایگزمپشن پالیسی 1986 کی خلاف ورزی ہے، ملزم میر شکیل نے نواز شریف کی ملی بھگت سے 2 گلیاں بھی الاٹ شدہ پلاٹوں میں شامل کر لیں اور اپنا جرم چھپانے کیلئے پلاٹ اپنی اہلیہ اور کمسن بچوں کے نام پر منتقل کرا لئے،ایل ڈی اے نے نواز شریف کے کہنے پر 54 کنال اراضی کو یکمشت بلاک بنانے کی سمری بنائی، ایگزمپشن سے پہلے اور بعد کا لے آؤٹ پلان منگوایا، ایگزمپشن رولز کے تحت وزیراعلی اور ڈی جی ایل ڈی اے کو اختیار نہیں تھا، کسی بھی مالک کی جتنی بھی زمین ہو، 15 کنال سے زیادہ ایگزمپشن پر پلاٹ نہیں دیئے جاسکتے۔

تفتیشی افسر نے بتایا کہ1981 میں زمین ایکوائر ہوئی، اس وقت سیکرٹری جاوید بخاری نے بیان دیا کہ نواز شریف نے خصوصی کیس کے طور ٹریٹ کرنے کا کہا، اس وقت کے ڈی جی ایل ڈی اے نے سمری اور ریکارڈ لیکر تفصیلی بیان دینے کا کہا ہے،اس وقت کے ڈی جی ایل ڈی اے سے پوچھنا ہے کہ میر شکیل کو پالیسی کیخلاف پلاٹ کیوں الاٹ کئے گئے، ملزم کو مختار عام پر 54 پلاٹ ایگزمپشن پر لینے کا اختیار نہیں تھا، عدالتی استفسار پر ایکوزیشن کب ہوئی، پٹواری کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے؟

بتایا گیا کہ ایوارڈ زمین کے اصل مالک محمد علی کے نام پر ہوا، نیب پراسکیوٹر سے استفسار کیا گیا کہ ایل ڈی اے کو کب قبضہ ملا، ایل ڈی اے مالک بنے گا تو ایگزمپشن ہو گی، میر شکیل الرحمن کے وکیل امجد پرویز نے بتایا کہ ملزم کیخلاف 28 فروری سے 5 مارچ تک کوئی انکوائری منظور نہیں کی گئی تھی، ملزم نے رضاکارانہ طور پر خود کو نیب میں پیش کیا، اسلام آباد ہائیکورٹ کے 2 رکنی بنچ کے فیصلے کی روشنی میں دیکھنا ہے کہ گرفتاری قانون کے مطابق ہوئی یا نہیں، میر شکیل سے ایسے واقعے کے بارے میں پوچھا گیا جو 34 سال پرانا ہے، یہ پہلا کیس ہے جس میں چیئرمین نیب کو جلدی تھی اور ایک ہی دن میں وارنٹ گرفتاری جاری کئے، اس وقت کا ڈی جی ایل ڈی اے ہمایوں فیض رسول نیب میں پیش ہو چکا ہے، ملزم کا جسمانی ریمانڈ لینے کیلئے بے بنیاد طور پر 26 مارچ کو اسے دوبارہ طلب کیا گیا۔

امجد پرویز نے ملزم میر شکیل الرحمن کے مزید جسمانی ریمانڈ کی مخالفت کی اور کہا کہ یہ کونسا قتل کا کیس ہے جس میں ملزم سے آلہ قتل برآمد کروانا ہے، ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجا جائے،.عدالت نے امجد پرویز ایڈووکیٹ سے استفسار کیا کہ جب ایگزمپشن پالیسی کی بات آتی ہے تو یہ بات بھی ذہن میں آتی ہے کہ کس نے اسکو پلاٹ الاٹ کئے، کیا پالیسی کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں،کوئی پرائیویٹ ادارہ بھی پالیسی کے بغیر نہیں چلتا، میر شکیل الرحمن کے وکیل نے بتایا کہ پالیسی پالیسی ہوتی ہے، قانون نہیں ہوتا، عدالت نے ریمارکس دیئے کہ پالیسی پر بے شمار عدالتی فیصلے موجود ہیں، کیا ایسی مثال موجود ہے کہ کسی کو ایل ڈی اے نے ایگزمپشن دی ہو؟

نیب پراسکیوٹر عاصم ممتاز نے بتایا کہ ایسی کوئی مثال موجود نہیں ہے، نیب قانون کے مطابق معاملے کی تحقیقات کر رہا ہے، عدالتی استفسار پر کہ زمین کب ایکوائر کی گئی، ایوارڈ کب جاری کیا گیا، نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ 6 نومبر 1980 کو دفعہ 4 کے تحت زمین ایکوائر کی گئی، جون 1981 کو ایل ڈی اے کو قبضہ ملا، محمد علی کے نام پر زمین ایکوائر کرنے کا ایوارڈ جاری کیا گیا، محمد علی کے نام پر جاری ایوارڈ میں ترمیم کی گئی اور اس کے قانونی وارثان کو شامل کیاگیا، ترمیمی ایوارڈ 12 فروری 1986 جبکہ ایگزمپشن کا لیٹر 22 جولائی 1986 کو دیا گیا۔

امجد پرویز نے بتایا کہ سابق ایم پی اے چودھری حاکم علی میر شکیل کا گزشتہ 15 سال سے کلائنٹ ہے، وکلا کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا جو دو گھنٹے بعد سنایا گیا، عدالت نے میر شکیل الرحمن کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کرتے ہوئے دوبارہ 7 اپریل کو پیش کرنے کا حکم دیا۔ پیشی کے موقع پر میر شکیل کے اہلخانہ اور جنگ جیو کے ملازمین نے حفاظتی اقدامات کی دھجیاں بکھیر دیں ، ملزم کے بیٹے اور جنگ جیو کے ملازمین گھیرا ڈال کر ملزم کے گرد کھڑے رہے جس پر عدالت نے نوٹس لیا اور حکم دیا کہ تمام افراد کرسیوں پر بیٹھ جائیں،کمرہ عدالت میں ایک میٹر کے فاصلے پر کھڑے ہوں، کمرہ عدالت میں جنگ جیو کے ملازمین روسٹرم کے بالکل قریب کھڑے تھے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔