سماجی دوری اور خود ساختہ تنہائی سے کورونا وائرس کا خاتمہ ممکن ہے !

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 30 مارچ 2020
شہریوں سے اپیل ہے کہ خدارا گھروں میں رہیں اور تمام احتیاطی تدابیر اختیار کریں: شرکاء کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال۔ فوٹو: ایکسپریس

شہریوں سے اپیل ہے کہ خدارا گھروں میں رہیں اور تمام احتیاطی تدابیر اختیار کریں: شرکاء کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال۔ فوٹو: ایکسپریس

دنیا کو اس وقت کورونا وائرس کی صورت میں ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے جس سے اب تک6لاکھ افراد متاثر ہوچکے ہیں جبکہ 30 ہزار کے قریب اموات ہوئی ہیں۔پاکستان کی بات کریں تو یہاں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

کورونا وائرس پر قابو پانے کے حوالے سے حکومتی اقدامات کا جائزہ لینے کیلئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومتی ترجمان، دینی سکالر اور ڈاکٹرز نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

مسرت جمشید چیمہ (ترجمان پنجاب حکومت و چیئرپرسن سٹینڈنگ کمیٹی برائے داخلہ پنجاب اسمبلی)

کورونا وائرس سے جنگ ایسی ہے جو صرف احتیاط سے ہی جیتی جاسکتی ہے۔ چین نے جس طرح اس پر قابو پایا اس کی دنیا میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے فوری نئے ہسپتال بنائے، علاج کیلئے ہنگامی اقدامات کیے مگر ان کی عوام نے بھی حکومت کا بھرپور ساتھ دیا۔ حکومت پاکستان کورونا وائرس کے چیلنج سے نمٹنے کیلئے محنت سے اپنا کام کررہی ہے لہٰذا عوام کو بھی اپنے حصے کا کام کرنا چاہیے۔ سب احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ایک دوسرے سے مناسب فاصلہ رکھ کر ہی اس وائرس کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔پنجاب کی 11 کروڑ آبادی ہے اور سب کو علاج کی سہولیات دینا ممکن نہیں ہے۔ اگر احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کریں گے تو یہ وائرس پوری آبادی میں منتقل ہوسکتا ہے۔ پوری دنیا میں اس وائرس کے حوالے سے وسیع پیمانے پر آگاہی مہم چلائی جارہی ہے۔ سماجی فاصلہ اختیار کیے بغیر اس پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔ اللہ پر توکل یہ ہے کہ نماز پڑھیں اور توبہ کریں۔ افسوس ہے کہ لوگ اپنا کردار ادا نہیں کر رہے جو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا باعث ہے۔ کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کیلئے پنجاب حکومت نے جزوی لاک ڈاؤن کیا جس میں صرف ہسپتال، میڈیکل سٹور، گروسری سٹورز اور فروٹ منڈیاں کھلی ہیں تاکہ لوگوں کے باہر نکلنے اور وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جاسکے۔پنجاب کو مختلف زون میں تقسیم کرنے کا کام شروع کردیا گیا ہے جس کے مطابق جس علاقے سے کورونا وائرس کے زیادہ کیسز سامنے آئیں گے، اس علاقے کو ایک زون ڈکلیئر کرکے مکمل طور پر سیل کردیا جائے گا۔ اس زون کے رہائشی کسی دوسرے زون میں نہیں جاسکیں گے اور انہیں اشیائے ضرورت کی خریداری بھی اپنی زون کے اندر موجوددوکانوں پر ہی کرنا ہوگا۔ یہ ہفتہ انتہائی نازک ہے۔ پنجاب حکومت اس میں کورونا وائرس کے مقامی پھیلاؤ کو روکنے پر مکمل فوکس کرے گی اور اس حوالے سے سخت اقدامات کرنے جارہے ہیں۔ کورونا وائرس تافتان اور بیرون ملک سے آنے والے پاکستانیوں کی وجہ سے ملک میں آیا ہے، اب کراچی میں ا س کے مقامی کیس بھی سامنے آئے ہیں لہٰذا جس کو شبہ ہو وہ خود کو سب سے الگ کرلے۔ پنجاب نے عالمی ادارہ صحت کے معیار کے مطابق اقدامات کیے ہیں۔ ہم نے ساڑھے 6 ہزار سے زائد قرنطینہ سینٹرز بنا ئے ہیں، ملتان لیبر کالونی میں 3 ہزار سینٹرز کی جگہ ہے جبکہ لاہور، بہاولپور، ڈی جی خان اور راولپنڈی میں بھی سینٹرز بنائے جارہے ہیں۔ ہمارے 41 ہائی ڈیپنڈنسی یونٹس ہیں، جنوبی پنجاب، لاہور اور راولپنڈی میں کورونا کیلئے ہسپتال بھی مخصوص کردیے گئے ہیں۔ نجی ہسپتالوں اور ہوٹلز کو بھی آن بورڈ لیا گیا ہے جہاں 880 کمروں پر مشتمل نجی قرنطینہ سینٹرز قائم کیے جائیں گے اورجو سرکاری ہسپتال میں علاج نہیں کروانا چاہتے، وہ یہاں اپنے خرچ پر علاج کروائیں گے۔ ہم ریٹائرڈ سٹاف جن میں ڈاکٹرز، نرسز و دیگر شامل ہیں، کو اچھی تنخواہ پر دوبارہ بھرتی کریں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ میڈیکل کے فائنل ایئر سٹوڈنٹس کی خدمات بھی لی جائیں گی۔ دیہاڑی داڑ طبقے کی تنخواہ بند نہیں کی جائے گی، اس کے علاوہ راشن پیکیج اور بجلی و گیس کے بلوں میں رعایت بھی دی جائے گی کہ صارفین بعد میں چھوٹی اقساط میں بل ادا کردیں گے۔ پنجاب حکومت بلوچستان کو فنڈز اور سروسز فراہم کرے گی اور وہاں قرنطینہ سینٹرز قائم کیے جائیں گے۔ بیرون ملک موجود 10 ہزار لوگوں نے پاکستان آنا ہے، ان کے حوالے سے اقدامات کیے جارہے ہیں،ان کو ایئر لفٹ کے ذریعے قرنطینہ سینٹرز تک پہنچانے کی تجویز زیر غور ہے۔ انہیں گوادر بھی منتقل کیا جاسکتا ہے۔ حکومت پنجاب نے کورونا کیلئے مختص فنڈ 5 ارب سے بڑھا کر 8 ارب کردیا ہے، اس کے علاوہ IMF سے بھی رجوع کیا جارہا ہے، ورلڈ بینک نے بھی وفاق کو امداد دے دی ہے، ہم ہنگامی بنیادوں پر کورونا سے نمٹنے کیلئے اقدامات کر رہے ہیں۔ کورونا کے مریضوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹرز اور سٹاف کو سہولیات دی گئی ہیں، اس موقع پر ذاتی مفادات کے بجائے ملکی مفاد کو سامنے رکھنا چاہیے۔

پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم (وائس چانسلر یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز)

11 دسمبر2019ء کوچین کے شہرووہان میں ’’لی‘‘نامی شخص میں کورونا وائرس کا پہلا کیس سامنے آیا۔ چونکہ یہ وائرس 2019ء میں منظر عام پر آیا اس لیے اسے-19 COVID کہا جاتا ہے۔ 10 دن کے اندر اندر یہ وائرس چین کے 32 صوبوں میں پھیل گیا اور اس وقت یہ وائرس 178 ممالک میں موجود ہے۔ اس سے متاثرہ افراد کی تعداد 6لاکھ ہے جبکہ 27 ہزار سے زائد اموات ہوئی ہیں۔پاکستان میں ابھی اتنی خطرناک صورتحال نہیں ہے تاہم بہت زیادہ خطرہ موجود ہے۔ ہمیں اس سے ڈرنا نہیں چاہیے بلکہ اس سے نمٹنے کیلئے ہروقت تیار رہنا چاہیے۔ بطور مسلمان میں یہ سمجھتا ہوں کہ کورونا وائرس اللہ کی مرضی سے آیا اور اللہ کی مرضی سے ہی جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے جتنے سانس لکھے ہیں اتنے ہی ملیں گے۔ اگر کوئی بیمار ہوتا ہے تو ڈاکٹر، حکومت صرف اس کی صحت کا ایک ذریعہ ہی بن سکتے ہیں لہٰذا 5 وقت نماز ادا کریں، اجتماعی دعائیں کریں تاکہ اللہ یہ مشکل ختم کردے۔اس سارے مسئلے میں کمی دعا کی ہے۔ لوگ اللہ سے دعا کرنے کے بجائے سوشل میڈیا پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ نماز کے وقت میں بھی ٹی وی لگاتے ہیں کہ ملک میں کیا ہورہا ہے۔ میرے نزدیک ہمیں میڈیا کے ذریعے اجتماعی دعا کو فروغ دینا چاہیے۔ کورونا وائرس کو ہم 95برس سے جانتے ہیں۔ کبھی یہ وائرس سارس کی صورت میں آتا ہے تو کبھی برڈ فلو، سوائن فلو کی صورت میں۔ یہ نیاوائرس نہیں ہے۔-19 COVID دو کورونا وائرس سے مل کر بنا ہے اور یہ جانوروں سے شروع ہوا۔ ووہان میں مسلمان کم ہیں، وہاں حرام گوشت کھایا جاتا ہے۔ بطور مسلمان ہمیں فخر ہے کہ ہم حلال چیزیں کھاتے ہیں اور ایسے وائرس کبھی بھی کسی مسلمان ملک سے پیدا نہیں ہوئے۔ اسلامی ممالک میں صفائی ستھرائی کا خیال رکھا جاتا ہے۔ جب سنت رسولﷺ زندگی میں آجائے تو صفائی خود ہی آجاتی ہے۔ چین نے جس بہترین انداز میں اس وائرس کا خاتمہ کیا ہے اس پر انہیں خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔ انہوں نے بلاتفریق سب جگہ لاک ڈاؤن کردیا، کرفیو نافذ کیا اور 15 دن میں 950 بیڈز پر مشتمل 70 منزلہ ہسپتال بنایا اور ایک نہیں بلکہ تین ہسپتال بنائے جن کی بعد میں تعداد 5ہوگئی۔ انہوں نے ہنگامی اقدامات سے اس وائرس پر قابو پایا۔ چین کے بعد ایران اور اٹلی میں کورونا وائرس کے حوالے سے تشویشناک صورتحال پیدا ہوئی۔ اٹلی میں شرح اموات چین سے بھی زیادہ ہوگئی ہے۔ ابتداء میں کورونا وائرس سے شرح اموات 5.5 فیصد تھی مگر اب 3 فیصد ہے جبکہ 97 فیصد مریض خودبخود صحت یاب ہو جاتے ہیں۔اس میں تشویشناک بات یہ ہے کہ یہ وائرس ہوا، ہاتھ، چہرے وغیرہ پر زندہ رہتا ہے۔ اس کی علامات 7 سے 14 دن کے درمیان واضح ہوتی ہے اور اس دوران معلوم ہی نہیں ہوتا کہ یہ وائرس کہاں کہاں منتقل ہوا۔ ہماری آبادی زیادہ اور گنجان ہے۔ ہم سماجی دوری کی بات تو کر رہے ہیں مگر ایک گھر میں 10 افراد رہتے ہیں، وہ خود کو کس طرح ایک دوسرے سے دور کریں۔ ہمارے مسائل مختلف اور زیادہ ہیں۔اس مرض سے نمٹنے کیلئے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کو بھی مسائل ہیں جبکہ ہم تو صحت پر جی ڈی پی کا صرف 1 فیصد خرچ کرنے والا ملک ہیں۔ یہ خیال کرنا کہ ہماری حکومت امریکا اور اٹلی سے بہتر سہولیات دے سکے گی تو یہ ممکن نہیں لہٰذا ہمیں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔چین سے زیادہ بہتر جنوبی کوریا نے اقدامات کیے۔ انہوں نے وسیع پیمانے پر ٹیسٹنگ کی اور مرض کو پھیلنے سے روکا۔ اٹلی و دیگر ممالک میں کرونا وائرس کی وجہ سے بہت ساری باتیں واضح ہوئی ہیں۔ اٹلی میں کورونا وائرس کے 40 فیصد مریضوں کو بخار ہی نہیں ہوا۔ یہ خیال تھا کہ کورونا وائرس صرف سانس سے ٹرانسمٹ ہوتا ہے مگر یہ پیشاب و پاخانے میں بھی جارہاہے۔ میڈیکل کی دنیا کیلئے کورونا وائرس بہت بڑا اور نیا چیلنج ہے۔ کورونا وائرس کی فی الحال دنیا میں کوئی دوا نہیں ہے، اس کی ویکسین تیار کرنے میں ڈیڑھ سے 2برس لگیں گے۔امریکی صدر نے FDA کو کورونا کی ادویات منظور کرنے کا کہا۔ FDA کی جانب سے پروٹوکول فالو نہیں کیا جارہا اور صرف ایمرجنسی کیلئے یہ دوا منظور کی جارہی ہے۔ ٹرمپ اپنی سیاست کیلئے یہ کرر ہے ہیں۔ امریکا نے کورونا وائرس کی دوا ایجاد کردی ہے۔ اس کا ابھی کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ہماری یونیورسٹی میں بھی کورونا وائرس کی دوا کا ٹرائل ہورہا ہے۔ اس مرض میں سب سے اہم احتیاط ہے، جتنا ممکن ہو ’’مناسب فاصلہ‘‘ اختیار کریں اور بلاوجہ گھر سے باہر نہ نکلیں۔ صابن اور پانی کا استعمال، سینی ٹائزر سے بہتر ہے۔سینی ٹائزر کی قیمت بڑھ گئی جو افسوسناک ہے۔ ہم نے اپنی یونیورسٹی میں اس کی پروڈکشن شروع کر دی ہے۔ ڈاکٹر شگفتہ نے خود سینی ٹائزر تیار کیا ہے جبکہ ڈاکٹر سدرہ نے ماسک تیار کیے ہیں۔حکومت نے ہمیں بہت سپورٹ کی ہے۔ ہم نے ٹیلی میڈیسن کا پورٹل بنایا جس کا افتتاح گورنر پنجاب نے کیا۔ اس کو وزیراعظم نے بھی سراہا اور دیگر تعلیمی اداروں کو بھی یہ کام کرنے کی ہدایت کی۔ ہمارے پاس ہزار وں رضاکار ڈاکٹرزموجود ہیں جو خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں۔ ہم اپنے ہاسٹلز کو عارضی ہسپتال بنا رہے ہیں۔ اگر ضرورت پڑی تو وہ بطور ہسپتال حکومت کو دیے جائیں گے، دیگر اداروں کوبھی آگے بڑھ کر پیشگی کام کرنا چاہیے۔ کورونا سے بچاؤ کیلئے سگریٹ نوشی ترک کر دیں۔ تازہ پھل و سبزیاں کھائیں اور وٹامن ’سی‘ کا لیول بہتر بنائیں۔ ادویات کے استعمال کیلئے اپنے معالج سے فون پر رابطہ کریں۔ موٹاپا کم کریں اورشوگر کنٹرول کریں۔ کورونا وائرس کے حوالے سے عالمی ادارہ صحت اور یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کی ویب سائٹ دیکھیں اور بلاوجہ ٹوٹکے استعمال نہ کریں۔ ہم نے اپنی ویب سائٹ پر ایک موبائل ایپ لانچ کی ہے جس میں ڈاکٹر سے بات کی جاسکتی ہے۔ ہم نے 24 گھنٹے میں ساڑھے 9 ہزار کالز کی ہیں۔ ان میں سے صرف تین مریضوں کو ہسپتال منتقل کروایا اور ایک مریض پازیٹیو نکلا۔ ہسپتال نہ جائیں، گھر سے ہی معالج کو کال یا ویڈیو کال کر لیں۔ ہم پاکستان کا ڈیٹااکٹھا کر رہے ہیں جس میں یہ دیکھا جا رہا ہے کہ کتنے مریض باہر سے آئے اور کتنے پاکستانیوں نے آپس میں ایک دوسرے کو وائرس منتقل کیا۔ہم سگریٹ نوشی کرنے والوں و مختلف بیماریوں کے حامل کورونا کے مریضوں کا ڈیٹا بھی اکٹھا کررہے ہیں تاکہ معلوم ہوسکے کہ یہ بیماری کس کو زیادہ متاثر کرتی ہے۔ یہ ملک دین کے نام پر بنا ہے، دعا ہے کہ اللہ اس ملک کو اپنے حفظ و امان میں رکھے کیونکہ اس سے بہتر حفاظت کوئی نہیں کرسکتا۔ کورونا کے مریض کو دفنانے کا بھی ایک خاص طریقہ ہے، اس حوالے سے عالمی ادارہ صحت کی ہدایات موجود ہیں جس کے بارے میں حکومت کو قبرستانوں کی انتظامیہ و لوگوں کو آگاہی دینا ہوگی۔ ہماری افواج ہر کام میں پیش پیش ہیں، ان حالات میں بھی ان کی خدمات قابل تعریف ہیں، پاکستان نیوی کے بحری جہازوں کو قرنطینہ سینٹرز بنادیا جائے، اس سے حالات کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ ہم ڈاکٹرز نے مریضوں کے علاج کیلئے حلف اٹھایا ہے، میں خود کو رضاکارانہ طور پر کورونا کے مریضوں کے علاج کیلئے پیش کرتا ہوں۔

مولانا طاہر محمود اشرفی (مرکزی چیئرمین پاکستان علماء کونسل)

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ بڑی امن اطمینان والی بستی تھی، پھر اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے ان پر بھوک کا اور خوف کا عذاب مسلط کردیا۔ قرآن پاک کی ایک اور آیت ہے کہ ہم تمہیں آزمائیں گے بھوک سے بھی اور خوف سے بھی، مال کے نقصان سے بھی۔ان آیات کی روشنی میں دیکھیں تو کورونا وائرس ایک آزمائش ہے اور عذاب بھی۔ اس سے سب کو یہ پیغام مل گیا ہے کہ دنیا کی ساری طاقتیں مل کر بھی اس وائرس کا علاج نہیں کرسکیں لہٰذا ہمیں سب سے پہلے اپنے خالق و مالک کو راضی کرنا ہے اور اللہ سے اپنا تعلق ٹھیک کرنا ہے۔ دین اسلام نے نہیں ہمیں اس کا علاج 1400 برس پہلے بتا دیا۔ 5 وقت وضو کریں اور صفائی ستھرائی کا خیال رکھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے وضو کے فوائد و برکات بتائیں کہ اس سے اللہ رزق میں بھی اضافہ کردیتا ہے۔ ڈاکٹر جاوید اکرم نے بتایا کہ پانی اور صابن سینی ٹائزر سے بہتر ہے لہٰذا لوگ سینی ٹائزر کے پیچھے بھاگنے کے بجائے وضو کریں۔ قرآن کریم نے بتایا ہے کہ اللہ کے گھر میں امن و اطمینان ہے۔ ان حالات میں بھی یہ امن اور اطمینان ہمیں مل سکتا ہے لیکن احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔ حکومت کی جانب سے تمام علماء کرام کی مشاورت کے بعدجمعہ اور نماز کے اجتماعات کو محدود کرنے کے اقدامات بہتر ہیں، اس سے کورونا وائرس پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ جس شخص کو بھی کورونا ہو اس کا عوام میں جانا ناجائز ہے کیونکہ مومن کو ایزا دینا حرام ہے لہٰذا قرآن و حدیث سے ہمیں یہی درس ملتا ہے کہ خود کو بھی اور دوسروں کو بھی ایزا سے بچائیں۔جو لوگ بیرون ملک سے آئے ہیں، ان کو چاہیے کہ وہ بھی باہر جانے اور دوسروں سے ملنے سے پرہیز کریں۔ تمام لوگوں کو یہی پیغام ہے کہ خود بھی محفوظ رہیں اور دوسروں کوکبھی محفوظ رکھیں۔عوام کو چاہیے کہ اپنی ذمہ داری اور حالات کی سنگینی کو سنجیدگی سے لیں۔ اگر خدانخواستہ کورونا وائرس کا پھیلاؤ بڑھ گیا تو ہمارے پاس اس اتنی صلاحیت نہیں ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی اس سے لڑنے میں مشکلات سے دوچار ہیں، وہاں بھی ماسک و دیگر سہولیات کی کمی ہوگئی ہے۔ ذخیرہ اندوزی نہ کریں۔ روزمرہ زندگی کا سامان تو ضرور خریدیں لیکن خدا کے لیے ذخیرہ اندوزی نہ کریں۔ اس حوالے سے حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ جو ذخیرہ اندوزی کرے گا وہ طاعون و وبائی امراض کا شکار ہوجائے گا۔ نبیﷺنے ذخیرہ اندوزی کے حوالے سے سخت تنبیہ کی ہے۔ سینی ٹائزر، ماسک و دیگر اشیاء کی ذخیرہ اندوزی و قیمتوں میں اضافے کی صورتحال ہمارے سامنے ہے جو افسوسنا ک ہے۔ لوگوں کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔ توکل اور احتیاطی تدایبر دو اہم چیزیں ہیں۔ احتیاط، توکل کے خلاف نہیں ہے۔ میرے پیٹ میں درد ہو تو میں ڈاکٹر کے پاس جاتا ہوں، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میرا اللہ پر توکل نہیں ہے بلکہ اللہ نے ہی یہ علم ڈاکٹر کو عطاء کیا ہے۔ خالق کائنات نے علم روک لیا ہے تو پوری دنیا مل کر بھی کورونا وائرس کا علاج نہیں کر پا رہی۔ اللہ جب عطاء کرے گا تو اس کا علاج سامنے آجائے گا۔ میرے نزدیک جتنا زور ہمارا احتیاط پر ہے، اس سے زیادہ زور ہمیں اللہ کو منانے پر لگانا چاہیے۔ اجتماعی توبہ اور استغفار کرنی چاہیے۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میری زندگی میں یہ دن آئے گا کہ جب بیت اللہ کے دروازے لوگوں کے لیے بند ہوجائیں گے۔ یہ مجبوری ہے اور اس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ 40 فیصد سے زائد اسلامی ممالک میں جماز جمعہ نہیں ہوئی۔ہمیں چاہیے کہ اپنے رب کو راضی کریں اور ایک دوسرے کی مدد کریں۔ جن لوگوں پر زکوٰۃ فرض ہے، چاہے ان کا سال مکمل ہوا ہے یا نہیں، انہیں چاہیے کہ زکوٰۃ دیں، دیہاڑی دار طبقے و غرباء کا خیال کریں۔ حدیث پاک ہے کہ تم زمین والوں پر رحم کروتاکہ آسمان والا تم پر رحم کرے۔ہمیں اپنے رویے بدلنا ہونگے۔ آفات اس لیے نہیں آتی کہ لوگ نماز نہیں پڑھتے بلکہ جب ظلم، فحاشی، عریانی بڑھتی ہے، معاشرہ تباہی کی طرف جاتا ہے تو پھر اللہ کی پکڑ آتی ہے۔ ہمیں اللہ کے ساتھ تعلق بڑھانا ہوگا۔ اللہ 70 ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے۔ اس نے تو خودکہا ہے کہ مجھ سے سے مانگوں میں قبول کروں گا لہٰذا اللہ ہمیں کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹائے گا صرف اس سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر سدرہ سلیم (سربراہ شعبہ مائیکرو بائیولوجی یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز)

کورونا وائرس کی کٹس کے حوالے سے ریسرچ ہورہی ہے تاہم اس میں ابھی وقت لگے گا۔ جو کٹس مارکیٹ میں موجود ہیں، وہ FDA سے منظور شدہ ہیں یا کسی سٹینڈرڈ پروٹوکول کے تحت آئی ہیں۔ملک میں مختلف اداروں میں کٹس پر کام جاری ہے تاہم ابھی مقامی سطح پر کٹ تیار نہیں ہوئی۔ ریسرچ کے بعد پریکٹیکل مراحل میں آنے میں وقت لگتا ہے لہٰذا کسی بھی چیز کو فوری مارکیٹ میں نہیں لایا جاسکتا بلکہ پہلے کئی مرتبہ ٹیسٹ کیا جاتا ہے کہ یہ کتنا مستند ہے۔ اس وقت اہم یہ ہے کہ ہم لوگوں کو ایجوکیٹ کریں۔ کورونا وائرس کا ٹیسٹ مہنگا ہے۔ ہمارے پاس ابھی سے ہی کٹس کی کمی ہونا شروع ہوگئی ہے لہٰذا خدانخواستہ اگر وائرس پھیلتا ہے تو کیا ہمارے پاس اتنی کپیسٹی ہے کہ ہم وسیع پیمانے پر ٹیسٹ کرسکیں۔ کورونا وائرس سے بچنے کا واحد حل احتیاط ہے لہٰذا احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں، آپس میں مناسب فاصلہ رکھا جائے اور صفائی ستھرائی کا خیال رکھا جائے۔یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز نے ٹیلی میڈیسن کا پورٹل بنایا ہے، ہزاروں ڈاکٹرز رضاکارانہ طور پر ہمارے ساتھ کام کرنے کو تیار ہیں۔ ہم ڈاکٹرز کیلئے بھی مزید بہتری لارہے ہیں تاکہ وہ گھر بیٹھ کر بھی یہ کام سرانجام دے سکیں۔اس سے ہسپتالوں پر بوجھ کم ہوجائے گا۔

پروفیسر ڈاکٹر شگفتہ (سربراہ شعبہ ہیومن جنیٹکس اور مالیکولر بائیولوجی یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز)

ہم نے اپنے ادارے مین سینی ٹائزر بنایا ہے۔ عوام کیلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ سینی ٹائزر اس وقت ضروری ہے جب آپ کوہاتھ دھونے کیلئے پانی دستیاب نہ ہو۔ پانی اور صابن سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے۔ہیلتھ کیئر ورکرز، ڈاکٹرز وغیرہ کیلئے سینی ٹائر ضروری ہے کیونکہ ان کے لیے بار بار ہاتھ دھونا ممکن نہیں ہوتا۔ لوگو ں نے بلاوجہ سینی ٹائزر کا استعمال شروع کردیا ہے، اس کے بے جا استعمال سے جلدی مسائل پیدا ہورہے ہیں لہٰذا اعتدال سے کام لیں۔ بدقسمتی سے ہم نے اسلامی طور طریقے چھوڑ دیے ہیں، انہیں دوبارہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ ہم اپنے بچپن میں دن میں کم از کم 3 مرتبہ ہاتھ دھوتے تھے، اب بچے بغیر ہاتھ دھوئے چیس وغیرہ کھالیتے ہیں لہٰذا صفائی ستھرائی کے حوالے سے بچوں کی تربیت کی جائے۔ ماسک کی ہر ایک کو ضرورت نہیں ہے۔ یہ متاثرہ شخص کیلئے لازم ہے۔ ہر وقت ماسک پہننے سے سانس و دیگر بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں۔ ماسک صاف ہونا چاہیے، اگر ماسک دستیاب نہیں تو کپڑے کا استعمال بھی کیا جاسکتا ہے جسے بار بار دھو لیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔