- ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کراچی پہنچ گئے
- مثبت معاشی اشاریوں کے باوجود اسٹاک مارکیٹ میں مندی کا رجحان
- اسلام آبادہائیکورٹ کے فل کورٹ اجلاس میں خط لکھنے والے 6 ججوں کی بھی شرکت
- اقوام متحدہ کے ادارے پر حماس کی مدد کا اسرائیلی الزام جھوٹا نکلا
- نشے میں دھت مسافر نے ایئرہوسٹس پر مکے برسا دیئے؛ ویڈیو وائرل
- سعودیہ سے دیر لوئر آئی خاتون 22 سالہ نوجوان کے ساتھ لاپتا، تلاش شروع
- بیوی کی ناک اور کان کاٹنے والا سفاک ملزم ساتھی سمیت گرفتار
- پنجاب میں پہلے سے بیلٹ باکس بھرے ہوئے تھے، چیئرمین پی ٹی آئی
- ٹریفک وارڈنز لاہور نے ایمانداری کی ایک اور مثال قائم کر دی
- مسجد اقصی میں دنبے کی قربانی کی کوشش پر 13 یہودی گرفتار
- پنجاب کے ضمنی انتخابات میں پولیس نے مداخلت کی، عمران خان
- 190 ملین پاؤنڈز کیس؛ وکلا کی جرح مکمل، مزید 6 گواہوں کے بیان قلمبند
- حکومت تمام اخراجات ادھار لے کر پورا کررہی ہے، احسن اقبال
- لاپتا افراد کا معاملہ بہت پرانا ہے یہ عدالتی حکم پر راتوں رات حل نہیں ہوسکتا، وزرا
- ملائیشیا میں فوجی ہیلی کاپٹرز آپس میں ٹکرا گئے؛ 10 اہلکار ہلاک
- عالمی اور مقامی مارکیٹ میں سونے کی قیمت میں آج بھی بڑی کمی
- قومی ٹیم میں بیٹرز کی پوزیشن معمہ بن گئی
- نیشنل ایکشن پلان 2014 پر عملدرآمد کیلیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر
- پختونخوا کابینہ میں بجٹ منظوری کیخلاف درخواست پر ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس
- وزیراعظم کا ٹیکس کیسز میں دانستہ التوا کا نوٹس؛ چیف کمشنر ان لینڈ ریونیو اسلام آباد معطل
پھلوں کے کچرے سے قدرتی پولیمر کی تیاری میں کامیابی
سنگا پور: سمندری صدفوں، کیکڑوں اور دیگر جانداروں کے اوپر سخت خول کائٹن پایا جاتا ہے جو انسانوں کے لیے بہت مفید ہے۔ لیکن اب اسے تیار کرنے کا ایک بالکل نیا طریقہ سنگاپور کے سائنسدانوں نے پیش کیا ہے۔
کائٹن یا کائٹوسان کے بہت سے طبی اور کیمیائی فوائد سامنے آئے ہیں۔ ان سے زخم بھرنے والی پٹیاں، ازخود ختم ہونے والے پلاسٹک اور گاڑیوں کے ایسے پینٹ بنائے جاسکتے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ اپنی مرمت خود کرسکیں گے۔ لیکن کائٹن کے لیے سمندری جانوروں کے خول کو تیزابی عمل سے گزارا جاتا ہے جو ایک مہنگا، مشکل اور ماحول دشمن عمل ہے۔
لیکن اب سنگاپور کی نینیانگ یونیورسٹی نے جھینگوں کے خول، کئی اقسام کے بیکٹیریا اور گلے سڑے پھلوں سے کائٹن تیار کیا ہے۔ اس عمل میں قدرتی طور پر پھلوں کے کچرے کا گلوکوز عملِ تخمیر کو بڑھاتا ہے جس سے جھینگوں کو خول سادہ اجزا میں ٹوٹتا ہے اور اس طرح کائٹن کو نکال کرنا آسان ہوجاتا ہے۔
اس عمل میں جو پھل بہت مفید ثابت ہوئے ان میں انگور، سیب کے چھلکے، آم، انناس اور کیلے کے چھلکے زیادہ مفید و مؤثر ثابت ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ حاصل شدہ کائٹن کو ’کرسٹلائنٹی انڈیکس‘ کے تحت ناپا جاتا ہے۔ اس عمل سے جو کائٹن ملا وہ 98.16 فیصد خالص تھا جبکہ روایتی طور پر جو طریقے استعمال ہورہے ہیں وہ صرف 87 فیصد تک ہی خالص کائٹن فراہم کرتے ہیں۔
ان حوصلہ افزا تجربات کے بعد ماہرین کے مزید تجربات جاری ہیں جس سے نہ صرف پھلوں کا کوڑا کام آئے گا بلکہ انتہائی مفید مادے کائٹن کی وسیع مقدار بھی حاصل ہوسکے گی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔