ایسی دوستی

عبداللطیف ابو شامل  اتوار 8 دسمبر 2013
دیرینہ دوست ایک دوسرے پر اپنی جان تک نچھاور کردیتے ہیں۔ فوٹو: فائل

دیرینہ دوست ایک دوسرے پر اپنی جان تک نچھاور کردیتے ہیں۔ فوٹو: فائل

وہ تپتی دوپہر انہیں بھولتی ہی نہیں تھی ، وہ حبس کہ لو کی دعا مانگتے تھے لوگ، ہاں ایسی ہی تھی وہ دوپہر، سانس لینا دوبھر ہوگیا تھا، اور ایسے میں ماں اور صرف ماں ہی نہیں، شفیق ماں ، جو سارے رشتے نبھا رہی تھی کہ رازدار، غم گسار اور ہم درد دوست تھی۔

جیون کا سبق دینے والی استاد اور گھنا چھتنار درخت، کہ جس کی سکون آور چھائوں میں رس تھا جیون کا ، ہاں ایسی ماں بھی ساتھ ہی چھوڑ گئی تھی، کہ لوگ اچھے ہیں بہت ، دل میں اتر جاتے ہیں ، اک برائی ہے اور وہ یہ کہ مرجاتے ہیں۔ بس وہ مر گئی تھی، اور پھر جب وہ ہی مر گئی، تو باقی رہا کیا تھا، پھر بوجھ تھا، جو اٹھانا تھا اور وہ بھی تنہا، کہ جب تک سانس چلتی ہے کوئی کاندھا نہیں دیتا۔

وہ کہتے تھے کہ ماں اس لیے مر گئی کہ علاج کے پیسے ہی نہیں تھے۔ لیکن علاج کیا تو تھا، کہ جس نے جو جڑی بوٹی، ٹونا ٹوٹکا بتایا تھا، کیا تو تھا۔ بس وہ علاج کہ جس میں پیسے نہیں لگتے، اس لیے کہ وہ تو تھے ہی نہیں، اور تھے بھی تو اتنے کہ بس رو دھو کے اناج کھا جاسکیں، پیٹ کا دوزخ بھر سکیں، بس اتنے۔ یہ تو اچھا ہوا کہ وہ اکیلے تھے، کوئی بہن بھائی نہیں تھا، باپ تو بچپن میں مر گیا تھا۔ کیسے۔۔؟ وہ یہ نہیں جانتے تھے، اور وہ جان بھی لیتے تو اس سے کیا ہوتا ہے، کیا حالات بدل جاتے ہیں۔

گائوں میں چھوٹا سا چھپر، جو مکان کی تہمت لیے ہوئے تھا۔ بارش ہوتی تو ڈر ہی لگا رہتا کہ گر ہی نہ جائے، باہر برسات کم اور اندر زیادہ ہوتی تھی، مکان کیا تھا، یوں سمجھو کہ بس اندھیری قبر تھی، ایسی قبر جس میں دو افراد جی رہ رہے تھے یا بس سانسیں پوری کر رہے تھے، کھانے کو ملا ملا، نہیں ملا تو نہیں ملا، جیون کیا تھا وہ تو ہر پل موت تھی۔ گائوں والے، بس رہنے دو، گائوں کیا اور شہر کیا۔ ہر جگہ پیسے کا پجاری ہے انسان۔ رہے عزیز رشتے دار تو وہ بس نام کے ہوتے ہیں، کہ رشتہ تو بس درد کا ہوتا ہے۔ پھر میں کیا کرتا اس گائوں میں رہ کر۔۔۔۔؟ اس تپتی دوپہر میں جب میں نے چندے کے پیسوں سے ماں کو زمین کے منہ میں ڈالا کہ اس کا ہی رزق تو تھی ماں، ماں رزق خاک بن گئی، تو چند ایک عورتیں اور مرد بیٹھے تھے، جو ایک ایک کر کے چلے گئے، تو میں نے بھی وہ گائوں چھوڑ دیا۔ بس میں نے گائوں چھوڑ دیا، اب وہاں رکھا ہی کیا تھا میرے لیے۔ تنہائی کیا ہوتی ہے یہ تو مجھے معلوم ہی تھا کہ بچپن میں ماں اکیلا چھوڑ کر گائوں کے ملک صاحب کے گھر کام کرنے جاتی تھی۔ تنہائی نے تو میرے ساتھ ہی جنم لیا تھا۔

گائوں سے شہر جانے والی اکلوتی دھول اڑاتی سڑک یوں لگتی تھی جیسے اپنے سر میں خاک ڈال کر بین کرتی ہو۔ بس میں چلا جا رہا تھا، کہاں؟ یہ میں نہیں جانتا تھا۔ ہاں بابا کرم دین مجھے راستے میں ملا تھا تو اس نے مجھ سے پوچھا، کہاں جا رہا ہے تو، اور پھر خود ہی کہنے لگا، مرنے والی مرگئی اور مرنے والوں کے ساتھ کوئی مرتا نہیں ہے، سب کو مرنا ہے کہ یہی ہے اصل اور سچ، سب کا مالک اوپر والا ہے، خود کو سنبھال۔ بس وہ یہ کہہ کر چلا گیا تھا، چلتے چلتے مغرب ہوگئی تھی، اور میں نہ جانے کہاں تھا۔ اتنے میں پیچھے سے ایک لاری آئی، تو میں اس میں سوار ہوگیا۔ نہ جانے کیوں کسی نے مجھ سے بھاڑا نہیں مانگا۔ تھوڑی دیر میں شہر آگیا۔ شہر میرے لیے نیا نہیں تھا۔ ماں سودا لینے آتی تو میں بھی اس کے ساتھ ہوتا۔ لاری اڈے پر اتر کے میں ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ آدمی تو بہت تھے، آشنا کوئی نہ تھا۔ رات سر پر تھی اور وہ رات کوئی عام رات نہیں تھی۔ کالی تھی اور بہت کریہہ۔ کسی کو دے نہیں سکتے تو مت دو اس سے چھینو تو نہیں، یہ کہا کرتی تھی ماں ، مجھ سے تو سب کچھ چھن چکا تھا۔

میں اک کونے میں دبک کے بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کیسے کٹے گا جیون۔ میں بھی ماں کے سنگ مر جاتا تو کیا تھا، لیکن میں مر تو گیا تھا، بس زندہ نظر آرہا تھا، لیکن حقیقت تو یہی تھی کہ میں زندہ تھا، سانس لے رہا تھا، دل کے اندر رسنے والے زخم کس نے دیکھے ہیں، اگر میں کسی سے کہتا کہ میں مرگیا ہوں، تو لوگ تو ہنستے۔ لو گوں کا تو کام ہی دوسرے کے دکھ پر ہنسنا ہے، کم بہت ہی کم، ایسے ہیں جو دوسرے کے دکھ کو اپنا سمجھیں۔ رات بھر میں سوچتا رہا اور پھر فجر کی اذان بلند ہوئی اور میں لاری اڈے پر بنی چھوٹی سی مسجد میں چلا گیا۔ تھکن سے سارا بدن ٹوٹ رہا تھا۔ اس سے پہلے میں کبھی مسجد گیا نہیں تھا، نہ جانے میں کیوں آگیا تھا مسجد میں۔ وضو کرکے میں بیٹھ گیا۔ اس وقت مسجد میں کوئی آیا نہیں تھا۔ تھوڑی دیر بعد لوگ آنا شروع ہوئے پھر امام صاحب بھی آگئے اور جماعت کھڑی ہوگئی۔ جیسے تیسے نماز ادا کی، نمازی جانے لگے لیکن ایک شخص قرآن کی تلاوت کرنے بیٹھ گیا، میں اسے دیکھ رہا تھا جب اس نے تلاوت کرلی اور جانے لگا پھر اس کی نظر مجھ پر پڑی، کہاں سے آئے ہو۔۔۔؟ اس نے پوچھا تو میں نے اپنی رام کہانی سنائی، وہ سر جھکائے سن رہا تھا۔

پھر اس نے میرا ہاتھ تھاما اور اپنے گھر لے گیا۔ بہت افسردہ تھا وہ۔۔۔ اس نے بیٹھک میں مجھے بٹھایا اور ناشتا لے آیا اور پھر کہنے لگا،’’اﷲ پر بھروسا رکھو وہ ہے سب کا کارساز۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ ہم نے ناشتا کیا اور پھر وہ یہ کہتے ہوئے چلا گیا کہ تم آرام کرو میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔ جب انسان کا پیٹ بھرا ہوا ہو تو اسے نیند بھی بہت آتی ہے اور میں تو پھر رات بھر کا جاگا ہوا بھی تھا تو نیند آگئی ۔ اس نے مجھے آکر جگایا مجھے حیرت ہوئی کہ ظہر کی اذان ہوچکی ہے میں اتنی دیر تک سویا رہا ۔۔۔ ہم نے مسجد جا کر نماز ادا کی گھر آکر کھانا کھایا اور پھر اس نے مجھے ایک بیگ لاکر دیا اور کہنے لگا،’’دیکھو حرکت میں برکت ہے اس بیگ میں دو جوڑے کپڑے ہیں یہاں تو اتنا کام ہے نہیں، تم کراچی چلے جائو وہاں میرا ایک دوست علی گل ہے، اس کے نام میں نے خط لکھ دیا ہے۔ چلو اب تم تیار ہوجائو۔ شام کو پانچ بجے کراچی کی ریل آتی ہے۔ بس تم تیار ہوجائو۔‘‘

پانچ بجنے میں ابھی خاصی دیر تھی کہ ہم دونوں اسٹیشن پہنچ گئے اس نے مجھے ٹکٹ خرید کر دیا اور پچاس روپے بھی، اس زمانے میں پچاس روپے بہت بڑی رقم تھی۔ اس نے مجھے بہت سی نصیحتیں کیں، بہت سمجھایا اور پھر میں روانہ ہوگیا۔ کہانی بہت طویل ہے۔ میں کراچی پہنچ گیا۔

سٹی اسٹیشن پر پہنچ کر میں نے سائٹ کا راستہ پوچھا اور پھر اس کے دوست علی گل کے پاس پہنچ گیا۔ وہ چترال کا رہنے والا بہت ہنس مکھ جوان تھا۔ میں نے اسے اس کا دیا ہوا خط دیا۔ اس نے پڑھ کر مجھے گلے لگایا اور کہنے لگا تم میرے بھائی ہو بس اب تم پریشان نہیں ہونا۔ وہ ایک سگریٹ ساز کمپنی میں کام کرتا تھا اور ایک کمرے میں رہتا تھا۔ اب ہم دو ہوگئے تھے ، دوسرے دن وہ مجھے اپنے ساتھ اپنی کمپنی لے گیا اور اسی دن میں وہاں لوڈر بھرتی ہوگیا ۔ میں بہت زیادہ خوش تھا۔ تن خواہ بہت اچھی تھی کھانے پینے کی بہت اچھی کینٹین تھی۔ بس یوں سمجھو کہ میری تو لاٹری نکل آئی تھی۔ ہم دونوں بھائیوں کی طرح رہتے تھے۔ وہ میرا بہت خیال رکھتا تھا، بہت زیادہ ۔۔۔مجھے پہلی تن خواہ ملی تو عجیب سی خوشی ہوئی جسے بیان نہیں کیا جاسکتا۔ میں نے وہ سارے پیسے علی گل کو دیے تو وہ بہت حیران ہوا اور رونے لگا۔ میں حیران تھا۔ پھر وہ کہنے لگا،’’میرا کوئی بھائی نہیں تھا، اﷲ نے تمہیں میرا بھائی بنا کر بھیج دیا۔ میں تمہارے پیسے بینک میں جمع کرادیا کروں گا۔ یہ تمہاری امانت ہے۔ میں نے کہا اس میں سے کچھ پیسے اپنے دوست کو منی آرڈر کردو اس نے میری بہت مدد کی ہے اور باقی کے مجھے ضرورت نہیں ہیں میرا کون ہے جسے میں دوں گا، بس یہ تمہارے ہیں جو چاہے کرنا۔‘‘ میں اور علی گل بھائیوں کی طرح رہتے تھے۔

دن گزرتے رہے اور بہت اچھے دن۔ ایک دن علی گل نے مجھے کہا میں اپنے گائوں جانا چاہتا ہوں ایک مہینے کی چھٹی لے لوں گا تم اپنا بہت خیال رکھنا، سچی بات ہے میں بہت افسردہ ہوگیا تھا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کیا بات ہے میں نے کہا، میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا، تو کیا ہوا تم میرے ساتھ چلو، علی گل نے تو مسئلہ ہی حل کردیا تھا، میری خوشی کا تو کوئی ٹھکانا ہی نہیں تھا۔ ہم دونوں نے چترال جانے کی تیاری شروع کردی، کمپنی سے ہمیں ایک ماہ کی چھٹی بھی مل گئی تھی ۔ آخر وہ دن آگیا کہ میں وہ چترال جانے کے لیے روانہ ہوئے ، وہ میری زندگی کا بہت خوب صورت ترین دن تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ ماں کی موت کے بعد میں سمجھا تھا کہ میرے لیے دنیا میں اب کچھ نہیں رہا لیکن ایسا تھا نہیں، میں بہت خوش تھا۔

آخر ہم دونوں گائوں پہنچ گئے، علی گل نے میرا تعارف کرایا اور یہ دیکھ کر میں حیران رہ گیا کہ علی گل کی ماں نے مجھے ویسا ہی پیار کیا جیسے علی گل کو کیا تھا۔ میں رونے لگا تو ماں پریشان ہوگئیں اور پوچھنے لگیں کہ کیا ہوا ہے علی گل نے میری رام کہانی انہیں سنائی تو وہ بھی آب دیدہ ہو گئیں اور کہنے لگیں مائیں کبھی نہیں مرتیں، بس روپ بدل لیتی ہیں۔ آج سے میں تمہاری ماں ہوں اور بعد میں یہ ثابت بھی ہوگیا کہ وہ واقعی میری ماں تھیں۔ علی گل کی دو بہنیں تھیں، بہت نیک اور سگھڑ وہ بھی میرا بہت خیال رکھتی تھیں۔ ایک ماہ کیسے گزر گیا ہمیں پتا ہی نہیں چلا۔ آخر ایک دن ہم کراچی کے لیے واپس نکل گئے۔ رخصتی کے وقت عجیب عالم تھا ہم سب رو رہے تھے، لیکن پیٹ کا دوزخ تو بھرنا ہوتا ہے اور اس لیے کام بھی کرنا ہوتا ہے۔

ہم کراچی پہنچ گئے اور زندگی پھر سے رواں دواں ہوگئی۔ گھر سے خط کے ذریعے رابطہ رہتا تھا۔ ایک دن ہم گھر پہنچے تو ایک خط آیا ہوا تھا اور وہ خط میرے لیے زندگی کی خوشیوں کی نوید لے کر آیا۔ ماں نے علی گل کو لکھا تھا کہ تمہاری بہن شادی کے قابل ہوگئی ہے اور میں چاہتی ہوں کہ اس فرض کو ادا کردوں میں نے بہت سوچا ہے اور میں چاہتی ہوں کہ اس کی شادی تمہارے دوست سے کردوں۔ تم اس کے بارے میں کیا کہتے ہو، مجھے بتا دو۔ علی گل بہت دیر تک خاموش رہا اور کہنے لگا، تم نے ماں کی خواہش سن لی ہے مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ میں خوش ہوں، تم اچھی طرح سوچ لو اور مجھے بتا دو ۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا لیکن جواب تو دینا تھا سو میں نے کہا، اگر ایسا ہو جائے تو یہ میری خوش بختی ہوگی، میں تیار ہوں باقی میں سب کچھ تم پر چھوڑتا ہوں، لیکن میری بھی ایک خواہش ہے اور وہ یہ کہ ہم دونوں کی شادی ایک ساتھ ہو۔ تم ماں سے بات کرو کہ وہ تمہارے لیے بھی لڑکی تلاش کریں۔ وہ بہت زور سے ہنسا اور دوسرے دن ہم نے ماں کو خط لکھ دیا۔ ایک دن ہمیں ماں کا خط ملا کہ انہیں بہت خوشی ہوئی اور انہوں نے علی گل کے لیے پہلے سے ہی ایک لڑکی دیکھی ہوئی تھی۔ اس کے گھر والے بھی راضی ہیں، تم لوگ جب مناسب سمجھو اس کام کے لیے آجانا۔

ہمیں کراچی آئے ہوئے تین ماہ ہی ہوئے تھے اور شادی کی تیاری بھی کرنی تھی ہم شادی کی تیاریوں میں لگ گئے۔ فارغ وقت اور چھٹی کے دن ہم سامان خریدنے لگے، وہ میرے لیے اور میں علی گل کے لیے۔ اس دوران ہمارا گھر والوں سے رابطہ رہتا تھا ہم بہت خوش تھے اور میں تو بہت زیادہ۔

ایک سال بعد ہم نے کمپنی سے ایک ماہ کی رخصت لی اور گائوں پہنچ گئے۔ قصہ مختصر ہماری شادی ہوگئی اور پھر تو بہار ہی بہار تھی۔ ایسی بہار جس پر کبھی خزاں نہیں آئی۔

محمد بخش اپنی بپتا سناتے ہوئے رونے لگتے تھے اور جب میں پوچھتا کہ اب کیوں رو رہے ہیں تو وہ کہتے خوشی میں بھی تو انسان رونے لگتا ہے ناں

میں نے محمد بخش اور گل خان کو یک جا ہی دیکھا، بلکہ یک جان۔ انہوں نے تین منزلہ مکان بنالیا تھا اور کمپنی سے ریٹائرمنٹ کے بعد سبزی منڈی میں آڑھت کا کام شروع کردیا تھا۔ اﷲ نے انہیں وافر رزق فراہم کیا تھا اور اب وہ کاروبار علی گل اور محمد بخش کے بیٹے سنبھال رہے تھے اور ان میں بھی مثالی اتحاد تھا۔ سچ کہتے ہیں ایک اکیلا اور دو گیارہ ہوتے ہیں۔ اتفاق اور اتحاد ہی میں برکت ہے۔

ایک دن علی گل کی طبیعت خراب ہوگئی اسے دل کا دورہ پڑگیا تھا۔ ڈاکٹر تک پہنچنے سے پہلے ہی وہ دنیا سے رخصت ہوگیا تھا۔ محمد بخش کی حالت ہم سب نے دیکھی تھی، وہ سنبھل ہی نہیں رہے تھے، ان پر بار بار دورے پڑ رہے تھے۔ علی گل کے میت قبرستان پہنچ گئی تھی اور اسے سپرد خاک کرنے کی تیاری ہو رہی تھی کہ محمد بخش کو دل کا دورہ پڑگیا اور وہ وہیں اپنے دوست علی گل کے پاس چلے گئے۔

میں اکثر ان سے ملتا تھا تو پوچھتا کہ آپ اور علی گل ماما کی دوستی بہت مثالی ہے اور وہ کہتے میں اپنے بھائی علی گل کے بغیر سانس بھی نہیں لے سکتا۔

ہاں ایسا ہی تھا انہوں نے یہ سچ کہا تھا۔ وہ واقعی علی گل ماما کے بنا سانس بھی نہیں لے سکتے تھے۔

ہاں وہ تپتی دوپہر انہیں بھولتی ہی نہیں تھی کہ لوگ لو کی دعا مانگتے تھے، وہ بھی ایک ایسی ہی تپتی حبس زدہ دوپہر ہی تھی جب وہ اس جہاں سے رخصت ہوگئے، ہاں محمد بخش اور علی گل ماما آج بھی ساتھ ساتھ ہی رہتے ہیں۔ میوہ شاہ کے شہر خموشاں میں ۔۔۔۔ ہاں اب بھی ساتھ ساتھ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔