آئی سی سی میں مفادات کی آگ سے شعلے بھڑکنے لگے

بڑے بورڈز کی طاقت و دولت کی بڑھتی ہوئی ہوس عالمی کرکٹ کیلیے ہی خطرہ بن گئی،مانی کی تجویز پربھارت برہم


Sports Desk September 08, 2020
بگ تھری کوچیئرمین شپ نہ دی توکوئی اور’آپشن‘ دیکھیں گے،ہمارے لیے آئی پی ایل اورباہمی سیریز ہی کافی ہیں فوٹو:فائل

آئی سی سی میں مفادات کی آگ سے شعلے بھڑکنے لگے جب کہ بڑے بورڈز کی طاقت و دولت کی بڑھتی ہوئی ہوس عالمی کرکٹ کیلیے ہی خطرہ بن گئی۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین احسان مانی نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا تھا کہ آئی سی سی کا نیا چیئرمین بگ تھری ممالک سے نہیں ہونا چاہیے، ان کا اشارہ بھارت، انگلینڈ اور آسٹریلیا کی جانب تھا، ان کا یہ کہنا خود کو کرکٹ کا ٹھیکیدار سمجھنے والے بھارتی کرکٹ بورڈ کو انتہائی ناگوار گزرا،اس کی جانب سے خبردار کیاگیاکہ اگر موجودہ غیریقینی صورتحال جاری رہی تو عالمی کرکٹ ایڈمنسٹریشن تقسیم بھی ہوسکتی ہے۔

واضح رہے کہ ششانک منوہر کے ذمہ داری سے الگ ہوجانے کے بعد سے اب تک 2 ماہ گزرچکے مگر ابھی تک کونسل کی جانب سے نئے چیئرمین کے انتخاب کا طریقہ کار ہی وضع نہیں کیا گیا، اس کی خواہش متفقہ امیدوار کی ہے جبکہ ایک مسئلہ نئے چیئرمین کیلیے دو تہائی اور سادہ اکثریت کا بھی ہے۔ بھارت سمیت بڑے بورڈز چاہتے ہیں کہ سادہ اکثریت پر چیئرمین بنادیا جائے مگر پاکستان و کچھ دیگر ممالک دو تہائی اکثریت کے حق میں ہیں۔

ایک بھارتی اخبار کے مطابق بی سی سی آئی آفیشلز کا کہنا ہے کہ عالمی کرکٹ ایڈمنسٹریشن کو تاوان کیلیے یرغمال بنایا جا رہا ہے۔ بھارتی بورڈ ایک بات واضح کرنا چاہتا ہے کہ ہم خود کفیل اور ہماری آمدنی آئی پی ایل و باہمی سیریز سے ہوجاتی ہے لیکن جن کا انحصار آئی سی سی پر ہے وہ کیا کریں گے، اگر کسی ایک امیدوار کے حق میں 17 میں سے 6 ووٹ پڑے اور باقی امیدوار ان سے کم ووٹ لیں تو پھر انھیں چیئرمین بنا دینا چاہیے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق انگلش بورڈ نے بھی موجودہ صورتحال کو کرکٹ کی صحت کیلیے انتہائی نقصان دہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت ایک ایسے چیئرمین کی ضرورت ہے جو کھیل کی عالمی اکانومی کو آگے کی جانب لے جا سکے۔

بی سی سی آئی نے یہ بھی دعویٰ کیاکہ اس وقت آئی سی سی میں آدھے درجن سے بھی کم ممبر بحران کے ذمہ دار ہیں، آفیشل نے کونسل کے عبوری چیئرمین عمران خواجہ کے بارے میں کہا کہ موجودہ سربراہ کا تعلق ایسے ملک (سنگاپور) سے ہے جو ٹاپ گریڈ کرکٹ ہی نہیں کھیلتا، انھوں نے مثال دی کہ کیا کبھی جنوبی ایشیا سے کسی کو فیفا یا انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کا چیئرمین بنایا جاسکتا ہے، کیا ایسی کوئی چیز مغربی ممالک قبول کریں گے۔

مقبول خبریں