ذائقے گلگت بلتستان کے

ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بخاری  اتوار 18 اکتوبر 2020
ذکر خوب صورت وادیوں کے مزے دار روایتی کھانوں کا ۔  فوٹو : فائل

ذکر خوب صورت وادیوں کے مزے دار روایتی کھانوں کا ۔ فوٹو : فائل

پاکستان اتنا وسیع ہے کہ اس کے مختلف حصوں میں ثقافت کے رنگ تو بدلتے ہی بدلتے ہیں ساتھ میں کھانوں کی خوشبو اور ذائقے بھی بدل جاتے ہیں۔ یہاں ہر خطے کا دسترخوان مختلف اور منفرد ہے۔

یہاں ہم بات کریں گے پاکستان کے سر کے تاج گلگت بلتستان کے مشہور کھابوں کی۔ نمکین چائے؛ہنزہ کے باسیوں کا کہنا ہے کہ ہم ہُنزہ والے میٹھی چائے نہیں پیتے۔ جی ہاں! یہاں کی چائے نمکین ہوتی ہے اور وہ اسے ہی پسند کرتے ہیں۔ یہ رواج پورے گلگت بلتستان میں ہے۔

گُورے گیالنگ؛گینانی کے تہوار پر بنائی جانے والی یہ مشہور ڈش جو سے بنائی جاتی ہے۔ جو کو بھون کر اس میں پانی ڈالا جاتا ہے۔ پھر آٹے کی طرح ہو جانے پر گوندھ لیتے ہیں اور اس کی روٹی بنائی جاتی ہے جس پر گیری کا تیل لگایا جاتا ہے۔ اسے عموماً ناشتے میں نمکین چائے کے ساتھ کھایا جاتا ہے لیکن آپ اسے چائے کے بغیر بھی کھا سکتے ہیں۔ اصل میں یہ ایک تہوار کی ڈش ہے۔

ممتُو؛ممتو، پاکستان کے انتہائی شمال میں واقع اسکردو اور ہنزہ -نگر کی ایک مزے دار ڈش ہے اسے آپ گلگت بلتستان کا سموسہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ گھی یا تیل میں نہیں تلا جاتا بلکہ بھاپ پر پکایا جاتا ہے۔ ”شمال کا ڈمپلنگ” کہلائی جانے والی یہ ڈش چین سے تعلق رکھتی ہے جسے بعد میں یہاں کے لوگوں نے اپنایا اور آج یہ گلگت بلتستان کا مشہور ”کھابا” ہے۔

بھاپ پر پکائی جانے والی اس ڈش میں گائے یا بھیڑ کا قیمہ، پیاز، لہسن اور ہری مرچ سے بنایا گیا مسالا، آٹے اور میدے کے ورق میں بھرا جاتا ہے اور تیار ہو جانے کے بعد اسے مختلف چٹنیوں اور سِرکے کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ اپنی انتہائی زیادہ طلب ہونے کے بعد ممتو، لاہور اور پنڈی میں بھی ملتا ہے۔

چاپشورو/ شارپشورو؛چاپشورو یا شارپشورو کو ہُنزہ کا پیزا کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہو گا۔ پیزا نما یہ ڈش روٹی سے ملتی جلتی ہے جس کے اندر لذیذ مسالا بھرا جاتا ہے۔

پہلے گندم کے آٹے سے روٹی بنائی جاتی ہے جس پر مسالا رکھا جاتا ہے۔ یہ فِلنگ گائے یا یاک کے گوشت میں مختلف اجزاء جیسے ٹماٹر، پیاز، ہری مرچ اور مسالے شامل کر کے بنائی جاتی ہے۔ اس کے بعد اس پر ایک اور روٹی رکھ کر اس کے کناروں کو خوب صورت طریقے سے موڑ دیا جاتا ہے۔ ایک بڑے توے پر ر کھ کر دس سے پندرہ منٹ تک پکایا جاتا ہے اور سُنہرا ہونے پر اتار لیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ اسے پیزا کی طرح ٹکڑے کر کے کھاتے ہیں جب کہ کچھ بیچ میں سے روٹی کی پرت اُٹھا کر مزے سے کھاتے ہیں۔

دیرم فِٹی؛یہ گندم سے بنائی جاتی ہے۔ اس کے لیے گندم کو پہلے کچھ عرصہ نمی والی جگہ پر رکھنا پڑتا ہے جس سے اس میں مِٹھاس آ جاتی ہے۔ بعد میں اس کے آٹے سے روٹی بنا کر پراٹھے کی طرح خوبانی کے تیل میں پکایا جاتا ہے۔ کچھ لوگ بادام کا روغن بھی لگاتے ہیں۔ پھر اسی پراٹھے کو ٹکڑے کر کے یا پیس کہ دیسی گھی میں پکا کر پیش کیا جاتا ہے۔ نشاستے سے بھرپور یہ غذا ہُنزہ میں طاقت ور تصور کی جاتی ہے جسے زیادہ تر کسان کھیتوں میں کام کرنے کے دوران ساتھ لے جاتے ہیں۔

مُولیدا؛یہ دہی سے بنایا جاتا ہے۔ دہی میں گندم کی روٹی کے باریک ٹکڑے ڈال کر پیاز، نمک، دھنیا ڈالا جاتا ہے۔ مِکس کرنے کے بعد اسے گاڑھا کیا جاتا ہے اور پھر گیری کا تیل ڈال کر بنایا جاتا ہے۔

یاک کا گوشت؛پاکستان کے دوسرے علاقوں کے بر خلاف یہاں بھینسیں وغیرہ بہت کم ہیں۔ یاک یہاں کا عام اور مشہور جانور ہے۔ یہاں یاک کا دودھ اور گوشت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ یاک کا دودھ بہت گاڑھا ہوتا ہے جس سے چائے نہیں بنائی جا سکتی، جب کہ اس کا گوشت مارخور کی طرح تاثیر میں گرم اور گہری لال رنگت کا ہوتا ہے۔

کیلاؤ؛اس کو گلگت بلتستان کی دیسی چاکلیٹ بھی کہا جا سکتا ہے جو چترال میں بھی یکساں مقبول ہے۔ کیلاؤ ضلع غذر کی مشہور سوغات ہے جس میں اخروٹ، بادام، گیری اور خشک خوبانیوں کو ہار کی شکل میں دھاگوں میں پرو دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف انگور کے رس کو آگ میں خوب پکایا جاتا ہے اور اچھی طرح گاڑھا ہوجانے کے بعد ان گریوں کے ہار کو اس میں بھگو کردو تین ہفتوں تک اچھی طرح سُکھایا جاتا ہے۔ یہ سوغات زیادہ تر سردیوں میں بنائی جاتی ہے اور طاقت سے بھرپور ہوتی ہے۔ اس کو مکمل دیسی طریقے سے گھروں میں بنایا جاتا ہے۔

بٹرنگ داؤدو؛ہُنزہ کا روایتی سُوپ جو سردیوں میں خوبانی سے بنایا جاتا ہے۔ یہ سردیوں کے موسمی امراض اور قبض میں بھی مفید تصور کیا جاتا ہے۔ یہ خُشک خوبانیوں میں چینی، پانی اور لیموں کا رس ملا کر تیار کیا جاتا ہے۔ یہ سوپ ہُنزہ کے ہر گھر میں بنایا جاتا ہے۔

اب چلتے ہیں گلگت بلتستان کی کچھ خاص سوغاتوں کی طرف جو پاکستان کے اس حِصے کا خاصہ ہیں۔

گلگت بلتستان کے مشہور پھل؛ہُنزہ اور نگر کے پھلوں میں سب سے مشہور چیری ہے جو یہاں وافر مقدار میں اگائی جاتی ہے۔ ہُنزہ کی کالے رنگ کی رس بھری چیری ملک اور بیرونِ ملک تک بھیجی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کی خوبانی بھی اپنی مثال آپ ہے۔ انتہائی میٹھی اور خوش ذائقہ۔ یہاں سیب، اخروٹ، ملبیری، بادام اور شہتوت بھی وافر مِلتے ہیں۔

اشکین؛پیلے رنگ کی لکڑی نُما یہ جڑی بوٹی بہت اوپر پہاڑوں سے حاصل کی جاتی ہے۔ مقامیوں کے مطابق یہ جوڑوں اور ہڈیوں کے درد میں انتہائی مفید ہے۔ گرم تاثیر کی وجہ سے اسے تھوڑی مقدار میں دودھ میں مِلا کر پیا جاتا ہے۔ اشکین کا ایک ٹکڑا سو روپے میں بہ آسانی مل جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔