پنجاب میں گھریلو سطح پر مشروم کی کاشت کو فروغ دینے کا فیصلہ

آصف محمود  جمعرات 22 اکتوبر 2020
مشروم کو فاسٹ فوڈ اورادویات میں استعمال کیاجاتا ہے  فوٹو: فائل

مشروم کو فاسٹ فوڈ اورادویات میں استعمال کیاجاتا ہے فوٹو: فائل

 لاہور: محکمہ جنگلات پنجاب کے شعبہ سیری کلچر نے صوبے میں مشروم کی کاشت شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تجرباتی طورپر لاہور، فیصل آباد، چیچہ وطنی اورسرگودھا میں مشروم کاشت کی جائیگی، مشروم کو فاسٹ فوڈ اورادویات میں استعمال کیاجاتا ہے، گھروں میں میں مشروم کاشت کی جاسکے گی۔

محکمہ جنگلات پنجاب نے خیبرپختونخوا کی معاونت سے پنجاب میں مشروم کی کاشت کوفروغ دینے کا فیصلہ کیاہے۔ فاریسٹ کالونی لاہور میں مشروم کی کاشت سے متعلق تجربات کے لئے لیبارٹری قائم کردی گئی ہے۔ محکمہ جنگلات کے شعبہ سیری کلچر کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد فاروق بھٹی نے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں کافی عرصہ سے مشروم کاشت کی جارہی ہے اوریہ ایک منافع بخش کاروبار بھی ہے۔ اسی ماڈل کودیکھتے ہوئے ہم نے پنجاب میں مشروم کی کاشت کو ایک گھریلوصنعت کے طورپر متعارف کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔مشروم ایک انتہائی نفع بخش فصل ہے جیسے سورج کی روشنی کی غیر موجودگی میں مخصوص درجہ حرارت اور نمی کی موجودگی میں تیار کیا جاتاہے۔ یوں تو پاکستان میں مصنوعی طریقہ کاشت کیلئے یورپی مشروم، صدف نما مشروم ،پرائی کی مشروم اور شاہ بلوط کی مشروم اہم ہیں ہیں تاہم ضرورت اس امر کی ہے اپنے ملک میں مشروم کا استعمال پیداوار بڑھانے کے ساتھ ساتھ عالمی منڈی کیلئے مصنوعی طریقہ سے مشروم کی پیداوار میں استعداد بڑھائی جائے تاکہ اس فصل سے زرمبادلہ کا حصول بھی ممکن ہوسکے۔

محمد فاروق بھٹی کے مطابق مشروم کومختلف علاقوں میں مختلف نام دئیے گئے ہیں۔ بلوچستان میں خمیری یا گھبا، بلتستان میں شمو، پنجاب اورسندھ میں کھمبی پشتو میں خریزی ہند کو میں گچھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مشروم ایک پھپھوند ہے جو راتوں رات اُگتی ہے۔ اس کا بیج بالکل باریک ہوتاہے جو پک کر گر جاتاہے۔ اور یوں سازگار موسم اور نمی میں پھوٹتاہے اور یوں کھمبی راتوں رات نکل آتی ہے۔ ہمارے علاقوں میں اس کی جنگلی اقسام خاص کر مارچ، اپریل میں نکلتے ہیں۔ یہ ہزاروں لوگوں کے روزگار اور ملک کیلئے کروڑوں روپے کا زرمبادلہ کمانے کا ذریعہ ہے۔

زرعی ماہرین کے مطابق چینی وہ سب سے پہلے لوگ ہیں جو مشروم کو بطور غذا استعمال کرتے تھے اور اس کو لمبی عمر کا راز کہتے تھے۔ زمانہ قدیم میں ایک اعلی ڈش کے طور پر بادشاہوں اور جرنیلوں کے دربار کی زینت رہی ہے۔ پرانے زمانے میں یونانی اور رومی اس کو اچھی خوراک سمجھتے تھے۔ رومی بادشاہ سیزیر اس کا دل دادہ تھا۔ مشروم دنیا کے کئی ممالک میں بہت بڑا کاروبار اور لاکھوں لوگوں کا روزگار اس صنعت سے وابستہ ہے۔ ہمارے ہاں بھی یہ گھریلو صنعت کے طور پر اُبھررہی ہے۔

مشروم کو جنتی سبزی یا جنتی غذا بھی کہا جاتاہے کیونکہ من و سلویٰ نامی غذا جو ر ب کریم کی طرف سے بنی اسرائیل کیلئے اتاری گئی تھی۔ اس میں مشروم کی شمولیت مشکواۃ شریف سے واضح ہے اس لحاظ سے ایک منفرد غذا ہے۔ جو جدید تحقیقی حقائق ثابت کرتے ہیں وہ انمول مشروم جو من و سلویٰ کا ایک جزو تھی آج بھی کسی نہ کسی شکل میں اس دنیا میں قدرتی طور پر اگتی ہے۔

ہمارے ہاں پہاڑی علاقوں میں برف پگھلنے کے بعد اور مون سون کی بارشوں اور جنگلوں، چراگاہوں اور جڑی بوٹیوں میں قدرتی طور پر اگتی ہیں۔ یہ ہمارے ہاں پہاڑی علاقوں میں 1000 سے 2000 میٹر کی بلندی پر مخصوص قسم کی سخت لکڑی والے درختوں، کانیفرز کے جنگلات میں اگتی ہیں اور آزاد کشمیر میں بھی اس کی کافی اقسام پائی جاتی ہیں۔

مشروم انتہائی غذائی اہمیت کی حامل فصل ہے اس میں 30 سے 35 فیصد پروٹین کے علاوہ وٹامن بی دو تھائیامیں، نائیسن، رائیبو فلوین، وٹامن جی اور وٹامن ای پائی جاتی ہے۔ یہ وٹامن پکانے، جمانے یا کین کرنے سے ضائع ہوجاتی ہے۔ کیلشیم، فافسفورس اور دیگر نمکیات کی موجودگی کی وجہ سے یہ جسمانی ساخت کیلئے مفید ہے۔ اس میں نشاستہ اور روغنیات بہت کم مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ جس بنا پر شوگر اور دل کے امراض اور غریب لوگوں کیئے مثالی غذا ہے اور وہ خواتین جو اپنے آپ کو سمارٹ رکھنا چاہتی ہیں بغیر ڈائٹنگ کئے مشروم استعمال کرکے مطلوبہ نتائج حاصل کرسکتی ہیں۔ ان گوناگوں خاصیتوں کے علاوہ یہ ذائقہ اور خوشبو کی بنا پر شمار کی جاتی ہے

ہمارے ہاں پروٹین کی کمی ہے اور ان حالات میں کھمبی پر ہی ہماری نظر جاتی ہیں اور اگر کھمبی کی کاشت ہماری خواتین گھروں میں کریں تو نہ صرف وہ تازہ کھمبی حاصل کرسکتی ہیں اس کے ساتھ ساتھ ان کو سکھا کر فروخت بھی کرسکتی ہیں یوں اپنے بچت کرسکتی ہیں۔ اس کیلئے بہت بڑ جگہ کی ضرورت بھی نہیں اس ضمن میں زرعی ریسرچ ڈھوڈیال نے خواتین کو تربیت بھی دی ہے اور بیج بھی فراہم کیا اور اس طرح خواتین مشروم کی کاشت گھریلو پیمانے پر رواج دے رہی ہیں۔

زرعی ماہرین کا کہنا ہے مشروم ایک قیمتی فصل ہے، ایک مربع میٹر کی جگہ سے تقریباً آٹھ کلو تازہ مشروم میسر آتی ہے اور اگر نئی ٹیکنالوجی استعمال کی جائے تو سال میں اس کی پانچ فصلیں میسر آتی ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس کی کاشت میں کچرے کا استعمال ہوتاہے اور یوں ماحولیاتی آلودگی پر بھی اس کا اثر پڑتاہے۔ مشروم کو چاول کی پرالی ، گندم کے بھوسہ،لکڑی کے برادہ، روئی کاکھیت، روئی کا کچرا، مکئی کے تکو پر کاشت کیا جاسکتا ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔