سارے رنگ

رضوان طاہر مبین  اتوار 1 نومبر 2020
’’افف، اتنا سارا لکھنا۔۔۔!‘‘ فوٹو: فائل

’’افف، اتنا سارا لکھنا۔۔۔!‘‘ فوٹو: فائل

’ان کا لیکچر سب کو گویا ’ہیپناٹائز‘ کر دیتا تھا۔۔۔‘

خانہ پُری
ر۔ ط۔ م

ٹوکلاس میں اُس روز یوں ہوا کہ اسکول کی انتظامیہ نے اپنے چند روپے بچانے کی خاطر یہ فیصلہ کیا کہ بچوں کو امتحانات کے لیے ’سلیبس‘ فوٹو کاپی کرا کے دینے کے بہ جائے انھیں لکھوایا جائے گا۔۔۔ سو نجم دہلی بوائز پرائمری اسکول میں ہماری ’کلاس ٹیچر‘ ہونے کے ناتے مس شہلا قیصر نے بورڈ پر یہ ’سلیبس‘ لکھوانا شروع کر دیا۔۔۔ اور جیسا کہ طریقہ ہوتا ہے کہ عام طور پر ’بلیک بورڈ‘ کے درمیان میں ایک لکیر کھینچ کر پہلے ایک جانب لکھا جاتا ہے اور پھر دوسری جانب۔ لیجیے جناب، بورڈ ایک جانب سے بھر گیا اور پھر دوسری جانب سے بھی ’بلیک بورڈ‘ میں جگہ خالی نہ بچی۔۔۔ اب کچھ توقف کے بعد بلیک بورڈ کا پہلا حصہ صاف کر دیا گیا اور پھر اسے لکھنے کے بعد دوسرے حصے کو بھی بھرا جا رہا ہے۔۔۔ لیکن اب بچے ہانپ گئے ہیں اور لگے ہائے ہائے، ہوئی ہوئی کرنے۔۔۔

’’افف، اتنا سارا لکھنا۔۔۔!‘‘

واقعی یہ ہمارے لیے خاصا غیرمعمولی کام تھا۔۔۔ لیکن مجھے لگتا تھا کہ چلو ہو ہی جائے گا، اتنا سارا تو لکھ ہی لیا ناں اور تھوڑا ہی تو باقی رہ گیا ہوگا۔۔۔ لیکن دیگر بچے لکھتے جاتے اور کراہتے جاتے۔۔۔ مس شہلا کی کلا س کا کڑا نظم وضبط بھی ان کی ’آہوں‘ کو بلند ہونے سے نہ روک پا رہا تھا۔۔۔ اسی اثنا میں مس شہلا کچھ دیر کے لیے کلاس سے چلی گئیں، اسٹاف روم قریب میں تھا، اس لیے شاید ان کی عدم موجودگی کے باوجود کلاس زیادہ ’بے نظم‘ بھی نہ ہوئی، اور پھر مس شہلا کی کلاس ہے، بچوں کے شور نہ کرنے میں کچھ رعب ان کا بھی کام آیا ہوگا۔۔۔ ہمیں معلوم ہی نہیں تھا کہ ماجرا کیا ہے۔

ویسے بھی مس شہلا کافی سنجیدہ طبیعت کی تھیں، اس لیے عام طور پر اندازہ لگانا مشکل ہوتا تھا کہ وہ غصے میں ہیں، موڈ اچھا ہے، فکر مند ہیں یا پریشان؟ لیکن جناب، تھوڑی دیر میں ہم کیا دیکھتے ہیں کہ ہمارا ’سلیبس‘ فوٹو اسٹیٹ ہو کے آچکا ہے اور مس شہلا اسے کلاس میں بانٹ رہی ہیں۔۔۔! انہوں نے بتایا کہ یہ فوٹو اسٹیٹ انہوں نے اپنے پَلّے سے کرائی ہے۔۔۔! وجہ یقیناً یہ رہی ہوگی کہ ان سے بچوں کی یہ دشواری دیکھی نہ گئی ہوگی۔۔۔ یہ سنجیدگی کا پیکر رہنے والی مس شہلا کی شخصیت کا ایک احساس کرنے والا پہلو سامنے آیا تھا، جو واقعی ان کے خلوص کا پتا دیتا ہے۔

اور ہماری کلاس میں عموماً کل بچوں کی تعداد 55 اور 60 کے اریب قریب ہی رہی ہے، گویا 55 فوٹو کاپیاں تو ضرور بالضرور کرائی ہی ہوں گی۔۔۔ ہمیں اپنی کلاس کے 55 بچوں کی تعداد بھی اس لیے یاد رہ گئی کہ مس شہلا نے ایک مرتبہ اپنی سب سے قریبی سہیلی مس افشاں سے کسی بات پر خفگی کا اظہار کرتے ہوئے یہ ذکر کیا تھا کہ مجھے روزانہ اپنی کلاس کے 55 بچوں کی کاپیوں اور ’لیسن ڈائری‘ پر سائن کرنا ہوتے ہیں، یعنی 110 دستخط۔۔۔!

جی بالکل، یہ ناقابل یقین سی بات لگتی ہے، کہ آدھے پون گھنٹے میں اتنے سارے بچوں کی حاضری بھی لینا ہے، کام بھی کرانا ہے اور پھر چیک بھی کرنا ہے، روزانہ کا کام کرانا اور لیسن ڈائری پر یہ ’ہوم ورک‘ لکھوانا: ’’ہوم رک: لرن کلاس ورک‘‘! ہم سوچتے کہیں اس کا مطلب کلاس ورک یاد کرنا ہی نہ لے لیا جائے۔

اسی ڈر سے ہم اپنے ’ٹیوشن‘ میں یہ ڈائری نہیں دکھاتے تھے کہ اب یہ بھی بھلا کوئی طریقہ ہے کہ روزانہ ہی کلاس میں کرایا گیا کام ہم گھر میں بھی یاد کریں۔۔۔! خیر، کلاس ورک اور ڈائری لکھوانے کے بعد وہ باری باری ہر بچے کی ’بینچ‘ پر جا کر کاپی اور ڈائری چیک کرتی تھیں۔۔۔ اب کسی کے بال بڑھے ہوئے ہیں یا ناخن نہیں ترشے ہوئے، یونیفارم میلا یا ادھورا ہے، تو اسے تاکید بھی کرتی جاتیں۔ یہ مشقت ان کی سچی لگن کی عکاس تھی۔۔۔ پھر جب کتاب سے نئے سبق کی ’مشق‘ سوال وجواب اور ’فِل اِن دی بلینکس‘ وغیرہ کرانے سے پہلے متعلقہ سبق کی ’ریڈنگ‘ ہوتی تھی اور پھر وہ جو سمجھانا شروع کرتی تھیں۔

تو ایک سے ایک شرارتی لڑکوں والی پوری کلاس اس میں محو ہو کے رہ جاتی تھی۔۔۔ جیسے انھوں نے سب کو ’ہیپناٹائز‘ کر دیا ہو۔۔۔ ان کا ’لیکچر‘ پوری کلاس میں ایک سماں باندھ دیتا تھا۔۔۔ بات سے بات نکلتی، واقعات، نصیحتیں اور تعریف و تنقید، سماج کی اچھائیاں اور برائیاں۔۔۔ کیا کچھ اس میں سمٹتا چلا جاتا تھا اور کبھی تو اس کا انت ہی نہ ہوتا تھا اور اچانک کلاس ختم ہونے کا نقّارہ ’ٹَن ٹَن‘ کر کے بج اٹھتا تھا۔۔۔ اور یوں لگتا کہ ہم مس شہلا کی باتوں کے سہارے کسی اور ہی دنیا میں چلے گئے تھے اور اب واپس کلاس میں لوٹے ہیں۔۔۔

۔۔۔

’’اور کتاب مرگئی!‘‘
محمد علیم
پبلشر نے مصنف سے کتاب لکھوائی، معاوضہ دیا۔
کاغذ والے سے کاغذ خریدا، معاوضہ دیا۔
’کمپوزر‘ سے کمپوز کروائی، معاوضہ دیا۔
پروف ریڈر سے پروف ریڈنگ کروائی، معاوضہ دیا۔
ڈیزائنر سے ڈیزائننگ کروائی، معاوضہ دیا۔
پرنٹر سے پرنٹ کروائی، معاوضہ دیا۔
بائنڈر سے بائنڈنگ کروائی، معاوضہ دیا۔
ڈسٹری بیوٹر سے تقسیم کروائی، تگڑا کمیشن دیا۔
خریدار نے خریدی، اچھی لگی۔
اسکین کی، پی ڈی ایف بنائی اور…
’سوشل میڈیا‘ پر ہزاروں لوگوں کو مفت میں بانٹ دی۔
پڑھنے والے نے مزے سے ڈاؤن لوڈ کرلی۔
ہزار روپے کا پیزا اور پانچ سو روپے کا برگر کھاتے ہوئے مفت میں پڑھ لی۔
مصنف اور پبلشر نے احتجاج کیا تو ان پر ’’علم دشمن‘‘ کا لیبل لگایا۔
خوب صلواتیں سنائیں، برا بھلا کہا، طعنے دیے اور طنز کیا۔
پبلشر کو نقصان ہوا، اس نے مصنف کو معاوضہ دینا بند کر دیا۔
مصنف کو معاوضہ ملنا بند ہوا تو اس نے بھی لکھنا چھوڑ دیا…
اور کتاب مرگئی!

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے
حلیم انصاری
ممکن ہے کبھی کسی دور میں روزافزوں تبدیلیوں پر حیرتوں کے ایسے پہاڑ ٹوٹا کرتے ہوں کہ علامہ اقبال جیسے زیرک، دوربیں ، اور زمانہ ساز شاعر بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے وہ لب پہ آسکتا نہیں۔ نسیم انجم کی اس کتاب کے عنوان کومیں اس پہلو سے تو قطعاً نہیں دیکھتا کہ ان کی آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے وہ لب پر نہیں لاسکتیں۔ وہ جو دیکھتی ہیں، مشاہدہ کرتی ہیں اسے لب پر لانے کی جرأت بھی رکھتی ہیں اور پھر اسے ضبط تحریر میں لانے کی قدرت بھی۔ وہ اپنی اس صلاحیت کا اپنے کالموں کے ذریعے ہی نہیں اپنے ناولوں کے ذریعے بھی مظاہرہ کر چکی ہیں۔

نسیم انجم ہر موضوع پر لکھنے کا ملکہ رکھتی ہیں ، اور اس طرح سے اپنے قلم کا جادو جگاتی ہیں کہ وہ سیاست ہو یا صحافت، معیشت ہو یا معاشرت، ادبی اصناف ہوں یا صنفی ادب وہ جس موضوع پر قلم اٹھاتی ہیں، پڑھنے والا محسوس کرتا ہے کہ یہ تو میرے دل میں تھا۔ اپنی اس کتاب کو، جو دراصل ان کے تحریر کردہ کالموں سے انتخاب ہے، جسے وہ عرصۂ دراز اور بڑی باقاعدگی سے روزنامہ ’ایکسپریس‘ کے لیے تحریر کر رہی ہیں۔ اس کتاب کو انھوں نے سیاسی، ادبی، انٹرویوز، اور سماجی، یعنی چار حصوں میں تقسیم کیا ہے۔

سیاست کے بارے میں ان کی فہم و فراست کا اندازہ لگانے کے لئے ایک عام قاری کی طرح اگر میں اس فہرست میں شامل مضامین کی ترتیب پر نظر ڈالوں، تو ان کا ذہن کھل کر سامنے آجاتا ہے۔ اگر ایک لمحے کے لیے یہ بحث نہ بھی کریں کہ کتاب کے موضوعات کو کس سلیقے اور قرینے سے نسیم انجم ضبط تحریر میں لائی ہیں، تو بھی کیا آپ محض ان موضوعات کے تنوع سے ان کے سیاسی مشاہدے میں کسی کمی کی گنجائش نہیں ڈھونڈ سکتے۔

سیاست کے بعد انھوں نے ادبیات کا انتخاب کیا ہے اور کیا خوب کیا ہے۔ ادب کا کون سا گوشہ ہے جہاں ان کی رسائی نہیں۔ غرض اردو ادب کے ستاروں کی ایک کہکشاں ہے اور نسیم انجم اس جھرمٹ کے ایک ایک ستارے پر لکھی گئی ہر تحریر، ہر تجزیہ، ہر تنقید کو اپنے انداز فکر سے تنقید اور توصیف کا ایک نیا جامہ پہناتی چلی جاتی ہیں۔ نسیم انجم نے انٹرویو جیسی صنف میں بھی زور قلم آزمایا ہے۔ میرے نزدیک انٹرویو میں زور قلم کی خوب صورتی اپنی جگہ، لیکن ایک انٹرویو کرنے والے کی ذہنی بالیدگی اور سوچ کا معیار اس سے کہیں زیادہ ہونا ضروری ہے جتنا کہ کسی مقالے، افسانے، کالم ، حتی کہ افسانہ یا ناول نگاری کے لئے ضروری ہوتا ہے۔

بلند پایہ ادبی شخصیت ستیہ پال آنند، اور ممتاز صحافی زیب ازکار حسین سمیت متعدد شخصیات کو اپنے معصومانہ لیکن زیرک سوالات سے نہ صرف حیران کیا بلکہ داد دینے پر بھی مجبور کر دیا اور یوں اپنے قلم کی گرفت کبھی کمزور نہ پڑنے دی۔ انسانی معاشرے کے ڈھانچے، ترقی، اور عمل پذیری کا علم سماجیات کہلاتا ہے۔ نسیم انجم کا قلم سماج سے جڑے ہوئے ہر اس علم کا احاطہ کرتا نظر آتا ہے، جو سماجیات کا حصہ ہے۔

اپنی کتاب کے اس گوشے میں انہوں نے تاریخ، مذہب، خدمت، انسانیت، علم، کائنات، اور وہ تخلیق کائنات کے ایسے ایسے پہلوئوں کو چھوا، ایسے ایسے مسائل پر قلم اٹھایا کہ جن کو چھیڑنا ہر کس و ناکس کے بس میں نہیں ہوتا اور پھر کمال فن یہ کہ نہ صرف ا ن مسائل اور موضوعات پر کھل کر بات کی، بلکہ اپنی بات میں دلائل اور فراست سے ایسا وزن پیدا کیا کہ کسی ناقد کو منہ کھولنے کا حوصلہ بھی نہ ہوا۔ نسیم انجم کا قلم اذیت ناک کچوکے نہیں لگاتا، دھیمے سے، نرم سے لہجے میں، خلوص اور محبتوں کی چاشنی میں ڈوب کر ہمارے شعور اور احساس کو بیدار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اُن کی آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے، اسے بیان کرنے پر بھی قادر ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔

اپنی جنم بھومی کی یادایک فطری امر ہے
مولوی محمد سعید

کراچی کے باشندوں کی غالب اکثریت یوپی، بہار، سی پی، حیدرآباد اور بھوپال اور ہندوستان کے دوسرے علاقوں سے آئی ہوئی تھی۔ ترکِ وطن کے بعد جنم بھومی کا مدت تک یاد آنا فطری امر ہے اور پھر دلّی تو ایسا شہر ہے، جس کی یاد نہ صرف اقبال کو سوادِ رومۃالکبریٰ میں آئی، بلکہ جو ہمارے ذہنوں سے محو نہیں ہوئی۔ اور پھر وہ لوگ کہ جو اسی خاک سے تعمیر ہوئے ہوں، وہ اسے کیسے فراموش کر سکتے ہیں؟ اس نفسیاتی لگاؤ کے باوجود ان لوگوں نے نئے وطن کی تعمیر میں بڑی تندہی سے کام کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے نہ صرف کراچی کے اطراف میں پھیلی ہوئی ویران پہاڑیاں اور وادیاں ہی مکانوں سے ڈھک گئیں، بلکہ جگہ جگہ نئی درس گاہیں، مسجدیں اور بازار کھل گئے۔ گھر گھر علم کا چرچا ہونے لگا اور وہ لوگ جو لٹ لٹا کے یہاں وارد ہوئے تھے، ان کی اگلی نسل چاق و چوبند نوجوانوں پر مشتمل کالجوں اور جامعوں اور بحث و مناظرے کی مجلسوں میں نظر آنے لگی۔

اپنے حقوق کے لیے لڑنا ان کی فطرت بن گیا۔ ایک روز بندر روڈ پر بھری ہوئی بس میں ایک صاحب بپھرے ہوئے داخل ہوئے۔ چاروں طرف نگاہ دوڑائی جب گنجائش کہیں نظر نہ آئی، تو دو آدمیوں کے درمیان کسی طرح گھس کے بیٹھ گئے۔ بس کے ہر ہچکولے کے ساتھ وہ اپنے مقام پر بیٹھتے جائیں تو ایک صاحب نے ذرا ترش روئی کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر عبدالحمید بھی ساتھ بیٹھے تھے، کہنے لگے:

’’درگزر کیجیے! یہ لوگ اگر اس جذبے سے نہ جئے، تو نیا گھر کیسے تعمیر کریں گے؟‘‘

لیکن بدقسمتی سے کچھ لوگ ایسے بھی تھے، جن میں صوبائیت جنم لینے لگی۔ اس مرض کی نشاندہی مجید صاحب نے اپنے ایک اداریے میں یہ کہہ کے کی کہ ’’اپنا صوبہ نہ ہونے کی وجہ سے چند لوگوں کی صوبائیت زیادہ زہرناک ہوگئی ہے۔‘‘ کچھ لوگوں نے صوبائیت اور ترقی پسندی کو اس طرح خلط ملط کردیا کہ پاکستان سے نفرت ترقی پسندی کی دلیل بن گئی اور پھر یہ مرض دانش وَر طبقے میں اتنا عام ہوا کہ بات بات پر بیزاری کا اظہار ہونے لگا اور ہر آدم بیزار، صاحب نظر سمجھا جانے لگا۔ بہرکیف اس طرح کا انداز فکر محدود رہا ایک چھوٹے سے طبقے میں۔

اس سارے جائزے میں البتہ ایک بات سے صرف نظر نہیں کرنا چاہیے کہ سیاسی عدم استحکام نے حساس طبائع میں بڑی مایوسی پیدا کردی تھی۔ وہ لوگ جن کا حکومتوں کے کاروبار میں عمل دخل ہونا چاہیے، ہر سیاسی کھیل جب ان کی نظروں سے پوشیدہ رہ کر کھیلا جائے، تو مزاج میں تلخی اور فکر میں بے اعتنائی کا آنا لازمی امر تھا۔ بستیاں اور منڈیاں، جامعات اور مساجد بلاشبہ تعمیر ہو رہی تھیں، لیکن قوم کے مزاج میں فساد کی ابتدا ہو چکی تھی۔

ایک روز حلقۂ احباب میں انہیں خطوط پر گفتگو ہو رہی تھی۔ ابوالاخبار کہنے لگے:

’’آپ کا تجزیہ سراسر بے انصافی ہے۔ اس ستم ظریفی کو کیا نام دیجیے گا کہ گھر بار، عزیز و اقارب چھوڑ کر یہاں آنے والوں سے کہا جاتا ہے کہ سند پیش کرو کہ تم واقعی یہاں کے باشندے ہو!‘‘

(خود نوشت آہنگ بازگشت، سے لیا گیا)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔