ریاستہائے متحدہ امریکہ انتخابات 2020

کیا سیاست میں درخشاں جمہوری روایات کا سلسلہ اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے ۔  فوٹو : فائل

کیا سیاست میں درخشاں جمہوری روایات کا سلسلہ اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے ۔ فوٹو : فائل

ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے انتخابی عمل اور اس کے نتیجے میں حکومتوں کے قیام کا طریقہ کار اور وہاں کی سیاسی جماعتوں کے طرز عمل اور انتخابات کے دوران اختیار کئے جانے والے رویئے کو دنیا بھر میں مثالی قرار دیا جاتا ہے۔

ہمارے ہاں پاکستان میں انتخابی عمل پر اٹھائے جانے والے سوالات کے حوالے سے اکثر امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ یورپی ممالک کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ لیکن اس مرتبہ 2020ء کے امریکی انتخابات کئی حوالوں سے ماضی کے انتخابات سے مختلف دکھائی دے رہے ہیں۔

امریکہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ ہوا کہ برسراقتدار صدر نے انتخابات سے پہلے ہی اس بات کے اشارے دینا شروع کر دیئے کہ شکست کی صورت میں انتخابی نتائج تسلیم نہیں کئے جائیں گے۔

گزشتہ رات جب یہ تحریر لکھی گئی جو بائیڈن کو ڈونلڈ ٹرمپ پر معمولی برتری حاصل تھی لیکن اس کے باوجود کہ ابھی مکمل نتائج سامنے نہیں آئے تھے، جس طرح ن لیگ کے اُس وقت کے سربراہ میاں نواز شریف نے 2013ء کے عام انتخابات  کے فیصلہ کن نتائج سامنے آنے سے پہلے ہی اپنی فتح کی تقریر کر ڈالی تھی، ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی نتائج آنے سے پہلے ہی خود کوفاتح قرار دے دیا ہے۔

اس مرتبہ امریکی انتخابی مہم کے آغاز کے ساتھ ہی امریکی معاشرے میں غیر یقینی اور عدم تحفظ کے احساس نے بھی سر اُٹھانا شروع کر دیا جو الیکشن کے دن تک مسلسل بڑھتا رہا اور ووٹنگ کے روز بھی انتخابی نتائج کا نقشہ انتہائی سخت مقابلے کا پتہ دے رہا تھا جس کے نتیجے میں کشمکش اور تصادم میں شدت کا اندیشہ نظر آتا ہے۔ یہاں ہم انتخابات 2020ء کے حوالے سے کچھ اہم نکات کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔

امریکی انتخابات میں بطور صدر حصہ لینے کے لئے پہلا مرحلہ تو اپنی پارٹی سے نامزدگی حاصل کرنے کا ہوتاہے۔ یعنی ایک امیدوار سب سے پہلے اپنی پارٹی کو اس بات پر قائل کرتا ہے کہ وہ صدارتی امیدوار کے لئے موزوں ترین شخص ہے۔

حزب اختلاف کی ڈیمو کریٹک پارٹی کے امیدوار جو بائیڈن نے اپنی پارٹی کی قیادت کے سامنے یہ دلیل رکھی تھی کہ ’’اگر ہم مشی گن‘ وسکانسن اور پنسلونیا کی ریاستوں کو دوبارہ جیت لیتے ہیں تو ہم وائٹ ہاؤس بھی جیت لیں گے۔ اور یہ معرکہ سر کرنے کے لئے پوری پارٹی میں مجھ سے بہتر اور کوئی نہیں ہو سکتا۔‘‘

گزشتہ رات تک وسکانسن کی ریاست میں ڈیمو کریٹ جیت چکے تھے لیکن باقی دو ریاستوں میں صورتحال مکمل طور پر ان کے حق میں نہیں تھی کیونکہ مشی گن اور پننسلونیا میں گو کہ حتمی نتائج سامنے نہیں آئے تھے، تاہم ری پبلکن پارٹی کو برتری حاصل تھی ۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ انتخابات میں جو رویہ اختیار کئے رکھا امریکی انتخابی کلچر سے مطابقت نہیں رکھتا۔ وہ ووٹنگ شروع ہونے سے قبل ہی اپنے ٹیوٹر پر یہ کہتے پائے گئے’’ہمیں واضح برتری حاصل ہے لیکن وہ (ڈیموکریٹس ) الیکشن چوری کرنے کے در پے ہیں۔ مگر ہم انہیں ہرگز ایسا نہیں کرنے دیں گے، جب پولنگ بند ہو جائے تو اس کے بعد ووٹ کاسٹ نہیں کیا جا سکتا‘‘۔ دوسر ے لفظوں میں وہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ بذریعہ میل آنے والے ووٹوں کی گنتی درحقیقت انہیں ہرانے کی سازش کا ثبوت ہے۔

اس مرتبہ کورونا کی وباء کے باعث 10 کروڑ سے زائد امریکی ووٹر بذریعہ میل اپنا ووٹ کاسٹ کر رہے ہیں اس تبدیلی کے نتیجے میں گزشتہ انتخابات کے برعکس اس مرتبہ ووٹوں کی گنتی کی رفتار بھی بہت سست رہے گی۔ موجودہ صدر کی جانب سے ان اندیشوں کے مقابل جو بائیڈن بظاہر زیادہ پُراعتماد نظر آتے ہیں اور انہوںنے ا پنے ٹیوٹ میںکہا ’’ہم انتخابی پیش رفت پر مطمئن ہیں‘ ہمیں یقین ہے کہ ہم انتخابات جیتنے کے راستے پر گامزن ہیں۔

……

دنیا کی اہم سپر پاور ‘ امریکا میں انسٹھویں صدارتی الیکشن کے لئے تقریباً سولہ کروڑ امریکی ووٹروں نے ری پبلکن پارٹی کے امیدوار‘ ڈونالڈ ٹرمپ اور ڈیمو کریٹک پارٹی ،جو بائیڈن میں سے کسی ایک کے انتخاب کے لئے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ہے۔ امریکی تاریخ میں یہ پہلے الیکشن ہیں جن میں دونوں امیدواروں کی عمریں 70 سال سے زائد ہیں۔پاکستان کے لیے یہ امریکی الیکشن خاصے اہم ہیں۔

وجہ یہ کہ ٹرمپ منتخب ہو یا جوبائیڈن‘ نیا امریکی صدر پاکستان‘ بھارت‘ افغانستان ‘ چین اور ایران کے سلسلے میں مختلف پالیسیاں تشکیل دے سکے گا۔ فرض کریں جو بائیڈن صدر بن کر افغانستان  سے امریکی فوج کی واپسی مؤخر کر دیں تو اس سے علاقائی صورتحال یکسر بدل جائے گی۔ اگر جو بائیڈن نے چین سے تجارتی جنگ ختم کر دی‘ تو یہ فیصلہ بھی نئی عالمی تبدیلیوں کو جنم دے گا۔

دلچسپ اور حیرت انگیز بات یہ کہ امریکا کو جمہوریت اور انسانی حقوق کا چمپئن سمجھا جاتا ہے مگر حقیقت یہ نہیں‘ وہاں بھی اصل طاقت سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں‘ بیورو کریسی‘ فوج اور عدلیہ کے ہاتھوں میں ہے ۔اسی طبقے کو اشرافیہ یا ایلیٹ کہا جاتا ہے۔ امریکی عوام کا بس کام یہ ہے کہ الیکشنوں میں صدر‘ نائب صدر‘ ریاستی گورنروں ‘ سینیٹروں اور ایوان نمائندگان (امریکی قومی اسمبلی) کے ارکان کا انتخاب کر لیں۔ بظاہر سب سے طاقتور جمہوری ملک کی اسٹیبلشمنٹ نے جمہوریت کے نام پر اپنے عوام کو دھوکہ دے رکھا ہے۔

اشرافیہ کی برتری قائم رکھنے کے لئے پیچیدہ انتخابی طریقہ کار

1787ء میں جب امریکا کے بانی آئین بنا رہے تھے‘ تو طے پایا کہ کانگریس (پارلیمنٹ) صدر منتخب کرے گی۔ مگر اس طرح کانگریس زیادہ طاقتور ہو جاتی  اور امریکی لیڈر اسے ڈکٹیر بنانے کو تیار نہ تھے۔ لہٰذا طے پایا کہ امریکی عوام ووٹ دے کر صدر منتخب کریں گے۔

اس طریق کار پر اعتراض یہ آیا کہ امریکا کی مغربی اور بالائی مشرقی ریاستوں میں زیادہ آبادی ہے جبکہ جنوبی ریاستوں میں کم افراد بستے ہیں… چنانچہ ہر بار زیادہ آبادی والی ریاستوں کا کوئی لیڈر ہی صدر بن جائے گا۔ یہ اعتراض دور کرنے کی خاطر ہی بانیان امریکا نے صدر و نائب صدر کے الیکشن میں ’’الیکٹرول کالج‘‘ (Electoral College)کا ادارہ متعارف کرا دیا۔ گویا امریکا کا صدارتی الیکشن  دو بنیادی حصے رکھتا ہے:ایک تو عوامی یا پاپولر ووٹنگ اور دوسرا الیکٹرول کالج۔

الیکٹرول کالج دراصل امریکی اشرافیہ کے نمائندوں پر مشتمل ہے۔ اوائل میں ریاستی حکومتیں اپنے نمائندے منتخب کرتی تھیں۔ جب سیاسی جماعتیں طاقتور ہو گئیں‘ تو وہ الیکٹرول کالج میں اپنے نمائندے بجھوانے لگیں۔ ہر ریاست کے نمائندوں کی تعداد اس کے  ارکان ِسینٹ اور آبادی کے تناسب کے مطابق ہوتی  ہے۔ یہ ادارہ اسی لیے قائم کیا گیا تاکہ چھوٹی ریاستوں کو بھی صدر کے الیکشن میں حصہ لینے کا موقع مل سکے۔

مگر الیکٹرول کالج بنیادی طور پر جمہوریت اور عوام کا مخالف ادارہ ہے۔ وجہ یہ کہ امریکا میں اگر کوئی صدارتی امیدوار زیادہ ووٹ حاصل کر لے‘ تو ممکن ہے وہ الیکٹرول کالج کی وجہ سے صدر نہ بن سکے۔ یہ بندوست دنیا کے دیگر جمہوری ممالک سے بالکل مختلف ہے جہاں وہی امیدوار صدر یا وزیراعظم منتخب ہوتا ہے جسے عوام کے زیادہ ووٹ مل جائیں۔

پچھلے امریکی صدارتی الیکشن میں ہیلری کلنٹن نے ٹرمپ سے 28 لاکھ 68 ہزار چھ سو چھیاسی ووٹ زیادہ لیے تھے۔ یہ کوئی معمولی برتری نہیں مگر الیکٹرول کالج کے غیر جمہوری ادارے کی وجہ سے وہ صدر نہ بن سکیں۔الیکٹرول کالج کے کل 538 ووٹ ہیں۔ یعنی اس میں ریاستوں کے کل  538 نمائندے ہیں ۔جو امیدوار  270 ووٹ پا لے یا ریاستی نمائندوں کی حمایت حاصل کر لے وہی صدر بنتا ہے۔ ٹرمپ یہ جادوئی ہندسہ پانے میں کامیاب رہے لہٰذا صدر بن گئے۔

انوکھے اعداد وشمار

امریکا کی سب سے بڑی ریاست بہ لحاظ آبادی کیلی فورنیا ہے لہٰذا اس کے الیکٹرول ووٹ ’’55‘‘سب سے زیادہ ہیں۔ پھر دیگر ریاستوں مثلاً ٹیکساس (الیکٹرول ووٹ 38)، فلوریڈا (29)، نیویارک (29)، الینائے (20)، پنسلوانیا (20)، اوہایو (18) وغیرہ کا نمبر آتا ہے۔

قانونی طور پر ہر ریاست میں سیاسی جماعتوں کے نمائندے (ارکان الیکٹرول کالج) من پسند صدارتی امیدوار کو ووٹ دے سکتے ہیں مگر یہ روایت بن گئی ہے کہ جس ریاست میں جو امیدوار زیادہ عوامی ووٹ حاصل کرے، تمام نمائندے اسی کو ووٹ دیتے ہیں۔ جو امیدوار شکست خوردہ امیدوار کو ووٹ دے تو اسے اچھا نہیں سمجھا جاتا اور عموماً اس کا ووٹ مسترد ہو جاتا ہے۔

پچھلے ایک سو سال میں بیشتر ریاستیں ’’نیلی‘‘ یا ’’سرخ‘‘ ہو چکیں۔ نیلی ریاستیں صدراتی الیکشن میں عام طور پر ڈیموکریٹک پارٹی کو ووٹ دیتی ہیں۔ سرخ ریاستوں کے باسی ریپبلکن پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں۔ کچھ ریاستوں کے مکین کبھی ’’سرخے‘‘ ہو جاتے ہیں تو بھی ’’نیلے‘‘ یعنی وہ کبھی ری پبلکن پارٹی کا انتخاب کرتے ہیں تو کبھی ڈیموکریٹک امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں۔ ایسی ریاستیں ’’سوئنگ‘‘ (Swing) یا ’’بیٹل گراؤنڈ‘‘  کہلاتی ہیں۔

امریکا کی ’’ 25 ریاستیں ‘‘سرخ ہیں۔ نمایاں سرخ ریاستوں میں ٹیکساس، اوہایو، جارجیا، شمالی کیرولینا اور اریزونا شامل ہیں۔ یہ سرخ ریاستیں 224 الیکٹرول ووٹ رکھتی ہیں۔ نیلی ریاستوں کی تعداد’’ 21 ‘‘ہے۔ نمایاں نیلی ریاستوں میں کیلی فورنیا، نیویارک، الینائے، نیوجرسی، ورجینیا، واشنگٹن اور میساچوسٹ شامل ہیں۔ یہ نیلی ریاستیں 233 الیکٹرول ووٹ رکھتی ہیں۔

سوئنگ ریاستوں کی تعداد ہر امریکی صدارتی الیکشن میں کم یا زیادہ ہوتی رہتی ہے۔ الیکشن 2020ء میں سوئنگ ریاستوں کی تعداد 5 ہے۔ ان میں فلوریڈا (الیکٹرول ووٹ 29)،پنسلوانیا (20)، مشی گن (16)، ویسکونسن (10) اور آئیوا (6) شامل ہیں۔ یہ پانچوں ریاستیں کل 81 الیکٹرول ووٹ رکھتی ہیں۔ ٹرمپ اور جوبائیڈن کے مابین اصل مقابلہ انہی ریاستوں میں منعقد ہو گا۔

پارٹیوں کے نظریات

امور خارجہ کے ضمن میں ری پبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی میں زیادہ فرق نہیں کیونکہ خارجہ پالیسیاں بنانے میں فوج کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ نیز امریکی ایلیٹ کے مفادات کو تحفظ دینے کا معاملہ آئے تو یہ دونوں پارٹیاں ایک ہو جاتی ہیں۔

ان کے مابین فرق بس یہ ہے کہ ری پبلکن قدامت پسند، زیادہ مذہبی اور کچھ کٹر ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی ترقی پسند، کم مذہبی اور نسبتاً اعتدال پسند سمجھی جاتی ہے۔

امریکی عوامی جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ اگر بائیڈن پنسلوانیا اور ویسکونسن سے جیت گئے تو ان کے پاس 263 الیکٹرول ووٹ ہوں گے۔ گویا ان کے لیے مشی گن جیتنا بہت ضرور ہے۔ تبھی وہ صدر بن سکیں گے۔ آئیوا میں جیت ان کے کام نہیں آئے گی۔

اگر صدر ٹرمپ فلوریڈا سے جیت گئے تو ان کے الیکٹرول ووٹوں کی تعداد 253 ہو جائے گی۔ تب انہیں مشی گن اور ویسکونسن یا پھر آئیوا  میں جیت کا ہما اپنے سر بٹھانا ہو گا۔ تبھی وہ 270 الیکٹرول ووٹ پا کر صدر بن سکیں گے لیکن چار سال پہلے کی نسبت اس بار ٹرمپ کو زیادہ سخت مقابلہ درپیش ہے۔

وجہ یہی کہ ٹرمپ خصوصاً کوویڈ 19 وبا کا مقابلہ کرتے ہوئے بہتر کارکردگی نہیں دکھا پائے۔ شروع میں وہ وبا کی موجودگی ہی سے انکاری رہے حتی کی خود اس میں مبتلا ہو گئے۔ اس رویّے کے باعث امریکی حکومت وبا سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات نہیں کر سکی۔مذید براں سیاہ فام باشندوں اور مسلم مہاجرین کے خلاف تعصب  رکھنا بھی ٹرمپ حکومت کے منفی پہلو ہیں۔

ادارہ ختم کرو

امریکا میں اب الیکٹرول کالج ختم کرنے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ وجہ یہی کہ ادارہ بنیادی طور پر غیرجمہوری اور عوام الناس پر ایلیٹ طبقے کے غلبے اور حاکمیت کا عکاس ہے۔ امریکا حقیقی معنوں میں جمہوری مملکت اسی وقت بنے گا جب صدر، نائب صدر اور دیگر تمام عوامی نمائندے عوام کے ووٹوں سے براہ راست منتخب ہوں گے۔

گو اب بھی امریکی عوام ہی صدر کا انتخاب کرتے ہیں مگر الیکٹرول کالج کی پخ کے باعث کبھی کبھی ان کے ووٹ رائیگاں جاتے ہیں ۔جیسے 2016ء میں امریکیوں کی اکثریت نے ہلیری کلنٹن کو ووٹ دیا تھا مگر وہ صدر نہ بن سکیں کیونکہ الیکٹرول نمائندوں کی اکثریت ٹرمپ کے ساتھ تھی۔ یہ نمائندے بھی عوام کے  ووٹوں سے نہیں چنے گئے تھے بلکہ ریاستی جماعتوں کے کارکن یا رہنما تھے۔

اس بار بھی جو بائیڈن نے عوام ووٹ تو زیادہ لیے مگر الیکٹرول ووٹ ٹرمپ پانے میں کامیاب رہے تو نیا تنازع اٹھ کھڑا ہو گا۔ عام امریکیوں میں الیکٹرول کالج کے خلاف نفرت بڑھے گی اور اسے ختم کرنے کا مطالبہ زور پکڑ جائے گا۔

امریکا کی آبادی 33 کروڑ دس لاکھ ہے۔ اس میں سے 66 فیصد آبادی پندرہ ریاستوں میں رہتی ہے۔ ان پندرہ ریاستوں میں سے سات نیلی، پانچ سرخ اور تین سوئنگ ریاستیں ہیں۔ گویا الیکٹرول کالج ختم کیا گیا تو ڈیموکریٹک پارٹی کو ووٹروں کی کثرت کے لحاظ سے برتری حاصل ہو جائے گی۔ شاید اسی لیے امریکا کی اسٹیبلشمنٹ نہیں چاہتی کہ الیکٹرول کالج کا ادارہ ختم کر دیا جائے۔

اس ادارے نے دونوں مرکزی جماعتوں کے مابین مقابلہ برابر اور سخت رکھا ہوا ہے۔ اگر یہ ادارہ نہ رہا تو ڈیموکریٹک پارٹی کے صدر ہی عددی برتری کے باعث منتخب ہوتے چلے جائیں گے۔ اگرچہ کسی صدر کی خراب کارکردگی امریکی عوام کو اکسا سکتی ہے کہ وہ ریپبلکن امیدوار کا انتخاب کر لیں۔

۔۔۔

ایک ٹرمپ۔۔۔ڈھائی صدی کی جمہوریت پر بھاری
امریکی صدر کے معاشرے پر اثرات نے بتا دیا کہ تبدیلی کا سفر اوپر سے نیچے کی طرف ہوتا ہے

محمد عثمان جامعی

پاکستان میں جب حکم رانوں کی بدعنوانی، ناقص کارکردگی، اقربا پروری، بے ڈھنگے پن اور غیراخلاقی رویوں کا تذکرہ ہوتا ہے تو ایک فکری حلقہ اس کی ذمہ داری عوام پر ڈالنے کی کوشش کرتا ہے کہ عوام ہی ایسے لوگوں کو پسند کرتے ہیں اور یہ پھر ملک پر مسلط ہو جاتے ہیں۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ برسراقتدار افراد اور سیاسی قیادت عوام کے رجحانات، مزاج اور رویوں پر کس طرح اثرانداز ہوتے ہیں۔

اس کی واضح ترین مثال آج ہمارے سامنے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صورت میں ہے۔ آج ایک ٹرمپ تقریباً ڈھائی صدیوں پر پھیلی امریکی جمہوریت پر بھاری پڑگیا ہے اور اس ’’حادثے‘‘ نے ثابت کردیا ہے کہ تبدیلی کا سفر نیچے سے اوپر نہیں اوپر سے نیچے کی طرف ہوتا ہے اور سیاسی قیادت اور حکم رانوں کی شخصیت، کردار، افعال واعمال قوم کی شخصیت اور نفسیات تک بدل ڈالتے ہیں۔

امریکی سرحدوں سے باہر امریکیوں کی سازشوں، خوں ریزیوں اور ظلم واستحصال کی داستان اپنی جگہ، لیکن ان سرحدوں کے اندر امریکی معاشرہ رواداری، برداشت اور باہمی احترام کی مثال رہا ہے۔ انتخابات کا موسم کسی بھی قوم اور اس کی قیادت کے اصل مزاج سے آشنائی کا بہترین دور ہوتا ہے۔

انتخابات کے دنوں میں مقابل فریق اور ان کے حامیوں کے ایک دوسرے کے خلاف جذبات عروج پر ہوتے ہیں، جیتنے کی لگن اور سبقت لے جانے کی کوشش فریقین کو جذباتی کیے رکھتی ہے اور یہ خوف کہ مخالف جماعت کی کام یابی اپنے جُلو میں ان حکمت عملیوں کا نفاذ بھی لائے گی جو بعض طبقات کے لیے ضرر رساں سمجھی جاتی ہیں، اس جماعت کی شکست کی آرزو کو مہمیز کیے جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر ممالک، خاص طور پر ایشیا اور افریقہ کے اکثر جمہوری ملکوں میں چناؤ کا عمل آگ اور خون کا کھیل بن کے رہ جاتا ہے، جس کے اثرات انتخابات کے بہت بعد تک جاری رہتے ہیں۔

لیکن ماضی قریب میں امریکا میں انتخابی عمل شروع سے آخر تک شائستگی اور جمہوری رویوں کا عکاس رہا کرتا تھا۔ صدارت کے امیدوار باہم مباحثے کرتے ہوئے بد زبانی اور ذاتی حملوں سے گریز کرتے، ان مباحثوں کا انحصار ٹھوس دلائل، اعداد و شمار اور فریق مخالف کے تضادات نمایاں کرنے پر ہوتا تھا اور ان کا محور حکمت عملیاں، اقدامات اور تصورات ہوتے تھے۔

یہ مباحثے تو امریکی سیاسی کلچر کی ایک جھلک ہیں۔ اس سیاسی کلچر میں مخالفین ذاتی دشمن قرار پاتے تھے نہ انھیں غدار اور ملک دشمن جیسے خطابات سے نوازا جاتا تھا۔ اختلاف رائے ہر ایک کا حق تھا، جس کی بنا پر ٹکراؤ اور تشدد کا تصور بھی ناپید تھا اور پھر امریکا کے سیاسی افق پر ڈونلڈ ٹرمپ نمودار ہوا۔

ٹرمپ کی مضحکہ خیز حرکتیں، نازیبا گفتار اور سخت گیر موقف کے پیش نظر لگتا تھا کہ امریکا میں صدارتی امیدوار بننے کے پیچیدہ اور طویل  عمل کے دوران وہ کسی بھی مرحلے میں ناکامی کا منہ دیکھ کر اس دوڑ سے باہر ہو جائیں گے، لیکن ایک کے بعد ایک زینے چڑھتے ہوئے وہ صدارتی امیدوار بن گئے اور پھر دنیا نے یہ حیرت انگیز منظر دیکھا کہ اپنی حریف ہیلری کلنٹن کو ہراکر وہ صدارت کے منصب پر فائز ہوچکے ہیں۔

ٹرمپ کی شخصیت، کردار اور اطوار کے اثرات انتخابات کے دوران ہی امریکی سماج میں زہر کی طرح سرایت کرنے لگے تھے۔ ان کی تلخ گفتگو اور انتہا پسندانہ اور متشددانہ طرز فکر ایک طرف ان کے حامیوں کے ذہنوں کو اسی ڈگر پر لارہا تھا، تو دوسری طرف ان کے مخالفین بھی ردعمل کی نفسیات کے تحت ان ہی منفی رویوں کا شکار ہو رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ غالباً امریکا میں پہلی بار ایسا ہوا کہ کسی امیدوار کی جیت کو مسترد کرتے ہوئے اس کے مخالف سڑکوں پر نکل آئے اور امریکی شہروں میں احتجاج اور جلاؤ گھیراؤ شروع ہوگیا۔

صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ اپنے رنگ ڈھنگ بدل لیتے تو شاید امریکی سماج کو اندھیروں کی طرف لے جانے اور امریکی جمہوریت کو خطرات سے دوچار کرنے کے اثرات زائل ہوسکتے تھے، لیکن ان کی تندخوئی، پرتشدد رویوں اور جارحانہ طرزعمل میں اضافہ ہوتا گیا۔

ایک گورے نسل پرست، متعصب مسیحی اور شدت پسند امریکی کی حیثیت سے تو وہ بجا طور پر اپنی پہچان بنا ہی چکے تھے، لیکن ان کے آمرانہ مزاج، عدم برداشت، اور جمہوریت مخالف رجحانات نے ان کی شخصیت کو ان کے مخالفین، خاص طور پر جمہوریت، روشن خیالی اور رواداری و احترام کی اقدار سے محبت کرنے والے امریکیوں کے لیے ان کا وجود اور ان کی صدارت ناقابل برداشت ہوتی چلی گئی۔ امریکا میں اور اس کے زمین وآسمان سے پرے شاید ہی کسی امریکی سربراہ سے اتنی نفرت کی گئی ہو جتنی نفرت ٹرمپ کے حصے میں آئی ہے۔

ٹرمپ کے مخالفین دن گِن گن کر اس گھڑی کا انتظار کر رہے تھے کہ جب وہ اپنے ووٹ کے ذریعے ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس سے باہر بھیج سکیں اور شکستگی کا شکار اپنی جمہوری واخلاقی اقدار کا تحفظ یقینی بنا سکیں۔ دوسری طرف ٹرمپ کے حامی انھیں ایک بار پھر ہر حال میں مسند اقتدار پر دیکھنا چاہتے ہیں، اور جب ٹرمپ قبل ازانتخابات ہی اپنے خلاف دھاندلی کا واویلا شروع کرچکے تھے تو اس صورت حال میں ان کے حامیوں کا مشتعل و مستعد ہونا اور اپنے اندازواطوار سے یہ دکھانا کہ وہ اپنے راہ نما کے خلاف کوئی ’’سازش‘‘ برداشت نہیں کریں گے۔

امریکا کے حوالے سے اجنبی صحیح لیکن سمجھ میں آنے والا رویہ ہے۔ چناں چہ انتخابات کے مرحلے کا آغاز ہوتے ہی امریکی شہروں میں ٹرمپ کے حامیوں اور مخالفین میں جھڑپیں شروع ہوگئیں اور ساری دنیا کو برداشت اور جمہوریت کا سبق پڑھانے والے ملک کے باسی دست و بازو کے ذریعے ایک دوسرے کی آواز بند کرنے پر اُتر آئے۔

’’ہم وہاں بیٹھے ہوئے ایک دوسرے سے پنجابی میں گفتگو کر رہے تھے کہ ایک ٹرک آکر رکا، جس پر امریکی پرچم لگا ہوا تھا۔ ٹرک پر سوار افراد ہمیں گھورنے لگے۔ ہم نے وہاں سے چلے جانے ہی میں عافیت سمجھی۔‘‘ ایک ٹی وی پروگرام میں امریکا میں مقیم پاکستانی صحافی نے جب یہ واقعہ سُنایا تو مجھے لگا جیسے میں چند سال پہلے کے کراچی میں انتخابات کے کسی منظر میں پہنچ گیا ہوں۔

ماضی میں انتخابات امریکیوں کی زندگی میں ہر چار سال بعد ہونے والا ایک ایسا معمول کا عمل تھا جس سے زندگی کسی بھی سطح پر متاثر نہیں ہوتی تھی، لیکن حالیہ انتخابات اپنے ساتھ دہشت کی فضا لائے ہیں۔ خبروں کے مطابق ’’انتخاب کے بعد پیدا ہونے والی ممکنہ ’خراب صورت حال‘ کے پیش نظر بعض مقامات پر حفاظتی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

اس حوالے سے نیویارک میں مین ہیٹن کے ففتھ ایونیو اور ٹائمز اسکوائر پر موجود دکان داروں نے اپنی دکانوں کے شیشوں پر لکڑی کے بنے بورڈ لگا کر انہیں محفوظ کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر صدارتی انتخاب میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہار گئے تو شہر میں توڑ پھوڑ ہو سکتی ہے۔ بنگلادیش سے تعلق رکھنے والے ایک دکان دار کا کہنا ہے کہ ’لوگ بتا رہے ہیں کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ ہار گئے تو کچھ برا ہو سکتا ہے۔‘‘

ایک امریکی تجزیہ کار نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ڈونلڈٹرمپ اور جوبائیڈن میں سے جو بھی جیتے وہ بھاری اکثریت سے جیتے، تاکہ انتخابی نتیجے پر کوئی سوال نہ اٹھایا جاسکے۔ اس خواہش کا سبب وہ اندیشہ ہے جس کی زد میں آج پورا امریکا ہے، اور یہ ہے انتخابات کے بعد شکست کی صورت میں ٹرمپ کے جانب سے نتائج کو تسلیم نہ کرنے اور اس کے نتیجے میں ملک بھر میں فسادات پھوٹ پڑنے کا خدشہ ہے۔

ایسی صورت میں معاملہ محض سیاسی ہی نہیں رہے گا بلکہ نسلی رنگ بھی اختیار کرسکتا ہے کیوں کہ ایک طرف ٹرمپ کے حامی گورے ہیں جن کے دماغ میں سفید فام برتری کا خناس بھرا ہے، دوسری طرف کچھ عرصہ قبل پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام افراد کی ہلاکت پر پورے ملک میں طوفان اٹھادینے والے افریقی نژاد امریکی۔

ممکن ہے کہ یہ سطور شایع ہونے تک یہ فیصلہ ہوچکا ہو کہ امریکا کا صدر کون ہوگا؟ اور فسادات کا خوف خدانخواستہ حقیقت بن کر سامنے آجائے یا اس اندیشے کو شکست ہو۔۔۔۔اس سب سے قطع نظر امریکا کے منظرنامے میں پاکستان سمیت تمام اقوام کے لیے یہ سبق پوشیدہ ہے کہ کوئی ایک سیاسی راہ نما مختصر سے وقت میں کسی بھی ملک اور معاشرے کی پوری صدی پر محیط روشن اقدار کو جڑوں سے ہلاسکتا ہے یا اپنے کردار وعمل سے مثبت اقدار کا بیج بوکر انھیں پروان چڑھا سکتا ہے۔

تو کیا وقت نہیں آگیا کہ کسی کے سیاست داں بننے کے لیے کچھ شرائط اور قواعدوضوابط طے کیے جائیں، اور اس سے پہلے کہ آمرانہ سوچ کا حامل، نااہل اور منفی شخصیت کا حامل کوئی شخص عوام میں مقبولیت حاصل کرے، اسے سیٹی بجا کر سیاست کے میدان سے باہر بھیج دیا جائے۔

۔۔۔

امریکا کی طرح ہماری اسمبلیاں بھی چار سال کی ہوتیں تو۔۔۔؟
گلی کوچوں سے ’سماجی ذرایع اِبلاغ‘ تک ہونے والے کچھ دل چسپ تبصرے
رضوان طاہر مبین

دیکھتے ہیں کہ ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے تین پیش روئوں بل کلنٹن (ڈیموکریٹک پارٹی)، جارج ڈبلیو بش جونیئر (ریپبلکن پارٹی) اور بارک حسین اوباما (ڈیموکریٹک پارٹی) کے بعد لگاتار دوسری بار منتخب ہونے والے مسلسل چوتھے امریکی صدر کا اعزاز حاصل کر پاتے ہیں یا نہیں۔۔۔

اس کا حتمی فیصلہ ہونے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔۔۔ لیکن عالمی ذرایع اِبلاغ کے ساتھ ہمارے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ سے لے کر گلی کوچوں تک، نئے امریکی فرماں روا کی چرچا اس وقت خوب زوروں پر دکھائی دے رہی ہے، حالاں کہ ہمیں امریکا سے مطلب ہے۔

بھلا اس کے صدر سے کیا لینا دینا۔۔۔! ہمیں تو تابع داری ہی کرنی ہے، چاہے ڈونلڈ ٹرمپ جاری رہیں یا جوبائیڈن کی صورت نمایاں ہو۔۔۔ بہت ہوگا تو یہی انیس، بیس کا ہی فرق ہوگا، اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔البتہ ایک ’تجویز‘ ہمیں کافی ’مفید‘ لگی کہ اپنے ہاں اگر امریکی صدارتی نظام نہ سہی، کم ازکم ان کے چار سال بعد چنائو والی ترکیب پکڑ لی جائے، تو ہماری ’جمہوریت‘ کے بہت سے ’مسئلے‘ حل ہو سکتے ہیں۔

کیوں کہ ہمارے ہاں پانچ سال تو اب تک کسی بھی وزیراعظم کو پورے کرنے ہی نہیں دیے جاتے۔۔۔ پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو اور یوسف رضا گیلانی کے بعد 2017ء میں نوازشریف تک، سب اپنی مدت سے پہلے ہی رخصت کر دیے گئے۔۔۔ اگر چار سال کی مدت ہوتی تو ان میں سے ذوالفقار بھٹو کے سوا باقی تینوں وزرائے اعظم کم ازکم اپنی مدت تو پوری کر چکے ہوتے۔۔۔ خیر، یہ تو ایک جملہ معترضۂ تھا، جو تبصروں کے اس بہائو کے نتیجے میں ہمارے قلم پر چلا آیا۔

اس حوالے سے اصل تبصرے تو ’سماجی ذرایع اِبلاغ‘ پر جاری ہیں۔۔۔ اور رخ اس کا کچھ ہمارے انتخابی مطالبات اور الزامات جیسا ہی ہے، اب ہم کتنے جمہوری یا غیرجمہوری سہی، امریکی چنائو پر تو کھل کر بات کر سکتے ہیں ناں۔۔۔! پھر بھلا ہو ڈونلڈ ٹرمپ کے لاابالی پن کا، کہ ان کے دوران پولنگ انتخابات جیتنے کے دعوے اور امریکی عوام کو دھوکا دینے کے الزامات اور عدالت جانے کے اعلان سے ’اپن لوگ‘ کو اس چنائو میں کافی ’اپنائیت‘ سی محسوس ہونے لگی ہے۔۔۔

معروف فلم ڈائریکٹر ابو علیحہ کے بقول ’انھوں نے جس ہوٹل پر چائے پی وہاں پھٹے ہوئے بنیان میں ملبوس دو افراد امریکی انتخابات پر بحث کر رہے ہیں اور جس شخص کے پاس ہوٹل آتے وقت قمیص پہننے کا وقت نہیں تھا، وہ اب ایک گھنٹے سے ڈونلڈ ٹرمپ کی خامیاں گنوا رہا ہے۔‘امریکی چنائو پر یوں بھی لوگ خوب دل چسپ تبصرے کر رہے ہیں۔

کچھ نے کہا ’اگر ٹرمپ انتخابی نتائج کے بعد دھرنا دیں گے، تو انھیں یہاں سے کنٹینر مفت فراہم کر دیے جائیں۔‘ کہیں 2013ء میں عمران خان کے مشہورِ زمانہ چار حلقے کھولنے کے مطالبات کی آواز ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار جوبائیڈن کی ویڈیو میں پرو دی گئی۔۔۔ تو کہیں رقصاں ڈونلڈ ٹرمپ پر ’ووٹ کو عزت دو‘ کے گیت کی ’قلعی‘ کر دی گئی ہے۔

ایک دل چسپ رجحان ٹرمپ کے ٹوئٹر اکائونٹ سے فرضی ٹوئٹ بنانے کا بھی خوب چل رہا ہے، جس میں ٹرمپ کی جانب سے مختلف دل چسپ فقرے بنائے جا رہے ہیں، ایک جگہ لکھا گیا ’عرش والے میری توقیر سلامت رکھنا، ارض کے سارے خدائوں سے الجھ بیٹھا ہوں‘ اور اسی کے نیچے جوبائیڈن عمران خان کا مشہور بیان ’گھبرانا نہیں ہے‘ ٹوئٹ کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں، جب کہ ایک جگہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اپنے پولنگ ایجینٹس کو ’فارم 45‘ نہ دیے جانے کا شکوہ پوسٹ کیا گیا ہے۔

یہی نہیں ’ٹوئٹر‘ اور ’فیس بک‘ پر ٹرمپ اور ان کی اہلیہ میلانیا کی ووٹ ڈالتے ہوئے تصویر تبصروں کا خاص موضوع بنی ہوئی ہے، جس میں ٹرمپ برابر میں اپنی بیوی کو ووٹ ڈالتے ہوئے بغور دیکھ رہے ہیں۔ ایک جگہ کسی نے ٹوئٹ کی کہ ’’کسی کو این آر او نہیں دوں گا، جو بائیڈن‘‘ اور دوسری جگہ رقم کیا گیا کہ ’’جب مہنگائی بڑھے، تو سمجھ لیں آپ کا صدر چور ہے، جو بائیڈن‘‘

انور مقصود کے ایک پیروڈی ٹوئٹر اکائونٹ سے یہ دل چسپ ٹوئٹ کی گئی کہ ’’ڈونلڈ ٹرمپ کا سپریم کورٹ کی دیوار پر پتلونیں لٹکا کر احتجاج کرنے کا فیصلہ‘‘ ایک اور جگہ کانٹے دار مقابلے کی صورت حال پر ایک ٹوئٹ یوں چست کی گئی کہ ’’مشکل کی اس گھڑی میں ٹرمپ اور بائیڈن دونوں کے ساتھ کھڑے ہیں: جماعت اسلامی‘‘ کسی دل جلے نے امریکی بیلٹ پیپر پر ’’ممنوعہ بھائی‘‘ کا نام لکھا دکھا کر شغل کرنے کی کوشش کی۔ الغرض قومی سیاست پر خامہ فرسائی کرنے والے ہم وطنوں کو امریکی چنائو کی صورت میں چٹکلے چھوڑنے کا ایک نیا موضوع ہاتھ آگیا ہے اور مختلف شخصیات سے لے کر عام صارفین تک سب ہی ’سماجی ذرایع اِبلاغ‘ پر اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔