قوم ملک سلطنت۔۔۔

یہ ہمارے قومی ترانے کا ایک دعائیہ مصرعہ ہے‘ حفیظ جالندھری نے اس مصرعے میں قوم ملک اور سلطنت کے...


Zaheer Akhter Bedari December 23, 2013
[email protected]

COLOMBO: یہ ہمارے قومی ترانے کا ایک دعائیہ مصرعہ ہے' حفیظ جالندھری نے اس مصرعے میں قوم ملک اور سلطنت کے پایندہ اور تابندہ ہونے کی دعا کی ہے اس ملک کا ہر شخص اپنے ملک کو پایندہ اور تابندہ دیکھنا چاہتا ہے لیکن 66 سال گزر جانے کے بعد بھی یہ ملک تابندہ نہ بن سکا اور اس کی پایندگی تک خطرے میں پڑ گئی ہے۔ یہ ملک دو قومی نظریے کے تحت وجود میں آیا تھا دو قوموں سے مراد ہندو اور مسلمان تھی۔ ایک قوم تو ہندوستان میں رہ گئی اور دوسری قوم یعنی مسلمان نئے ملک کا حصہ بن گئے۔

قوم کی تعریف ویسے تو ملک کے حوالے سے کی جاتی ہے مثلاً انگریزی قوم امریکی قوم فرانسیسی قوم جرمن قوم وغیرہ وغیرہ حالانکہ ان مغربی ملکوں میں عقیدے کے اعتبار سے عیسائی ہی بستے ہیں لیکن مختلف ملکوں میں بسنے والے ان عیسائیوں کی شناخت مذہب کے حوالے سے نہیں بلکہ ملک کے حوالے سے متعین ہوتی ہے ۔ لیکن دنیا میں صرف دو ملک پاکستان اور اسرائیل ایسے ہیں جو مذہبی شناخت کے حوالے سے وجود میں آئے ہیں۔ جب یہ ملک وجود میں آیا تو ہم سب مسلمان تھے لیکن آہستہ آہستہ ہم پنجابی، سندھی، مہاجر، پٹھان، بلوچ کی صوبائی یا لسانی شناخت میں بدل گئے اور مذہبی شناخت شیعہ سنی دیوبندی بریلوی تک وسیع ہوگئی۔ ہمارا ایک حصہ جو 1947 میں اور اس سے قبل اپنی مذہبی شناخت رکھتا تھا اور اسی حوالے سے پاکستان کا حصہ بنا تھا بنگالی بن گیا۔۔۔۔! ایسا کیوں ہوا۔۔۔۔؟

یہ ایک آسان سوال ہونے کے باوجود مشکل سوال اس لیے بن گیا ہے کہ ہم ابھی تک اقتصادی مفادات کی اہمیت ماننے سے انکاری ہیں اور مذہبی شناخت کو اقتصادی مفادات سے الگ کرکے دیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بلوچستان 1970 تک پہنچ گیا ہے اور دوسرے دو چھوٹے صوبے بھی اپنی دو قومی شناخت کی حدود سے نکل کر اپنی لسانی شناخت پر اصرار کر رہے ہیں۔ یہ سب غالباً اسی لیے ہوا ہے اور ہو رہا ہے کہ آج کی دنیا میں اقتصادی مفادات سب سے زیادہ اہم بن گئے ہیں جہاں اقتصادی ناانصافی ہوگی وہاں مذہبی شناخت پس منظر میں چلی جائے گی اور لسانی اور قومیتی شناخت پیش منظر میں آجائے گی۔

یہ تھوڑی سی وضاحت ہم نے اس لیے کی ہے کہ اقتصادی مفادات کی طاقت کا اندازہ ہوسکے جو مذہبی شناخت کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔ بنگلہ دیش میں جو لوگ رہتے ہیں وہ اپنی شناخت بنگالی کے حوالے سے کراتے ہیں حتیٰ کہ ہندوستان میں رہنے والے مسلمان بھی اپنی شناخت ہندوستانی کی حیثیت سے کراتے ہیں اور ان کی مذہبی شناخت سیکنڈری ہوکر رہ گئی ہے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ دنیا میں مذہبی شناخت ختم ہوگئی ہے لیکن ہر جگہ مذہبی شناخت انسان کی ذات تک محدود ہے اسے سرکاری نہیں بنایا گیا۔ مذہبی شناخت کا تصور اس وقت یا وہاں ابھرتا ہے جہاں دوسرے مذہب کی بالادستی کا خطرہ پیدا ہوتا ہے متحدہ ہندوستان میں جب ہندو مذہب کی بالادستی کا خطرہ پیدا ہوا تو ایک ہزار سال سے ہندوستانی شناخت کے تحت مل جل کر رہنے والے مسلمانوں کو اپنی شناخت مسلمان کی حیثیت سے کرانے کا خیال آیا اور یہ خیال 1947 میں پاکستان بن گیا۔

14 اگست 1947 کو جب پاکستان کے عوام کو ہندو اکثریت کے خوف سے آزادی حاصل ہوئی تو وہ سارے لسانی اور مذہبی تعصبات جو ہندو اکثریت کے خوف سے دبے ہوئے تھے باہر آنے لگے اس پر ستم یہ کہ سیاستدانوں اور حکمرانوں نے اپنے سیاسی مفادات کی خاطر ان تعصبات کی سرپرستی شروع کردی یوں یہ تعصبات بڑھتے بڑھتے دشمنیوں تک آگئے ۔

حضرت حفیظ جالندھری نے قومی ترانے میں جو دعائیہ مصرعہ شامل کیا ہے یہ دعا بلاشبہ ہر پاکستانی کی دعا ہے لیکن سوال پھر یہی پیدا ہوتا ہے کہ 66 سال گزرنے کے باوجود پاکستان تابندہ یعنی ترقی یافتہ پاکستان کیوں نہیں بن سکا؟ مغرب کے بیشتر ملکوں میں عیسائی مذہب کے ماننے والے رہتے ہیں لیکن کسی ملک نے مذہب کو سرکاری نہیں بنایا بلکہ ہر شخص کے ذاتی عقیدے کا حصہ ہی رہنے دیا مذہب کے غیر سرکاری ہونے سے عیسائیوں کے عقیدے میں کوئی فرق آیا نہ مذہب کو کوئی نقصان پہنچا اگر مغربی ریاستیں مذہبی ہوتیں تو کیا وہ ترقی کی اس منزل پر پہنچ پاتیں جہاں وہ آج کھڑی ہیں؟ سیاسی مفکرین کا خیال ہے کہ اگر مغربی ریاستی مذہبی ریاستیں بن جاتیں تو نہ صرف وہ اس ترقی سے محروم ہوجاتیں جو انھیں حاصل ہوئی ہے بلکہ دنیا مذہبی تصادم کے دلدل میں پھنس جاتی جس طرح ہندوستان اور پاکستان پھنسے ہوئے ہیں۔

اور اپنے وسائل کا ایک بڑا حصہ دفاع اور ہتھیاروں کی دوڑ پر ضایع کر دیتیں۔ فرقوں کی بھرمار اور فرقوں کے درمیان خونریزی نے ہماری ساری توجہ ہماری ساری توانائیاں ترقی کے بجائے فرقہ وارانہ محاذ آرائیوں میں ضایع ہو رہی ہیں۔ قدم قدم پر کیا کام اسلامی ہے کیا غیر اسلامی ہے کا تنازعہ کھڑا ہوجاتا ہے اس کلچر کی وجہ ترقی کے سارے راستے مسدود ہو رہے ہیں۔ اور ہمارا شمار دنیا کے پسماندہ ترین ملکوں میں ہو رہا ہے ۔ دوسری قومیں چاند مریخ تک پہنچ رہی ہیں اور ہم انسان کے چاند پر پہنچنے پر یقین نہیں کرتے اور یقین کرتے ہیں تو اسے خدائی اختیارات میں مداخلت کا نام دیتے ہیں۔ اس ذہنیت کی وجہ ہم سائنس ٹیکنالوجی تحقیق اور ایجادات کے حوالے سے پاتال میں کھڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان کو تابندہ یعنی روشن اور ترقی یافتہ بنانے کے لیے ڈاکٹر، انجینئر، سائنٹسٹ، ماہرین ارض، ماہرین فلکیات، آئی ٹی کے ماہرین، شعبہ طب کے ماہرین سمیت زندگی کے ہر شعبے کے ماہرین کی ضرورت ہے۔

پاکستان 66 سال گزرنے کے باوجود مزید پستیوں کی طرف کیوں جا رہا ہے اس سوال کا جواب جب تک ہم غیر متعصب ہوکر نہیں تلاش کریں گے اور فرقہ وارانہ تعصبات سے سمجھوتے کرتے رہیں گے اس وقت تک نہ ہم یکسوئی سے ملک اور قوم کو ترقی کے راستے پر لے جاسکتے ہیں نہ عوام کو تقسیم کرنے والے تعصبات سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ آج ہمارا ملک جن بدترین خونریز فرقہ وارانہ تعصبات کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے یہ صورت حال محض چند مذہبی انتہا پسند گروہوں کی کارستانی نہیں ہے اگر ہم ان تعصبات کو وقتی اور چند انتہا پسند گروہوں کا کیا دھرا سمجھ کر اسے صرف ریاستی طاقت کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کریں گے تو ہم اسے ختم تو نہیں کریں گے بلکہ اسے فروغ دیتے رہیں گے۔ سب سے پہلے اس طرز فکر کی پرورش کرنے والی طاقتوں کے مفادات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان پر اپنے دو سو سالہ دور حکومت کے دوران انگریزوں نے ''لڑاؤ اور حکومت کرو'' کی جو پالیسی اختیار کی تھی آزادی کے بعد ہمارے حکمران کالے انگریزوں نے وہی پالیسی اختیار کی عوام کو زبان، قومیت، نسل اور فقہوں کے حوالے سے اس طرح تقسیم کردیا کہ یہ تقسیم ہندو مسلمان کی تقسیم سے زیادہ گہری زیادہ خطرناک بن گئی۔ اس تقسیم کی وجہ عوام کی طبقاتی تقسیم پس منظر میں چلی گئی اور طبقاتی استحصال کے خلاف لڑی جانے والی اصل لڑائی اس تقسیم کے نیچے اس طرح دب گئی کہ حکمرانوں کو طبقاتی جنگ کا خوف نہیں رہا۔ قومی سطح پر فرقہ وارانہ تقسیم کا حکمران طبقات کو یہ فائدہ ہوا تو بین المسلمین سطح پر بھی اس فرقہ واریت کا فائدہ ان حکمرانوں کو ہوا جو عربی اور عجمی تقسیم کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرتے آرہے ہیں۔

اس تقسیم کو پاکستان تک نہ صرف پھیلادیا گیا بلکہ اس تقسیم کو گہرا کرنے کے لیے فرقہ وارانہ تنظیموں کو بھاری مالی امداد بھی دی جانے لگی۔ اس تقسیم کو مستحکم کرنے میں سب سے زیادہ اہم کردار مذہب کی سرکاری حیثیت نے ادا کیا۔ کیا خونریز فرقہ وارانہ تقسیم کے ان بنیادی محرکات کو ختم کیے بغیر محض ریاستی اور انتظامی طاقت سے اس تقسیم کو ختم کیا جاسکتا ہے؟ حفیظ جالندھری نے قومی ترانے کے اشعار میں وزن برقرار رکھنے کے لیے ''قوم ملک کے ساتھ سلطنت کی اضافت لگائی لیکن یہ اضافت حقیقت میں ملک کو سلطنت بناگئی۔ اس سلطنت کو جب تک ''نقصان پہنچانے والی اضافتوں'' سے چھٹکارا دلا کر مغربی ملکوں کی طرح اضافتوں سے آزاد ملک نہیں بنایا جاتا اس وقت تک نہ تابندہ بن سکتا ہے نہ پایندہ بن سکتا ہے۔

مقبول خبریں