کرکٹ بورڈ کا نان کرکٹنگ گورننگ بورڈ

سلیم خالق  جمعرات 12 نومبر 2020
اعلیٰ حکومتی شخصیات کی جانب سے تقرری کے سبب پی سی بی حکام اپنے آپ کو کسی کے سامنے جواب دہ نہیں سمجھتے۔
 فوٹو: فائل

اعلیٰ حکومتی شخصیات کی جانب سے تقرری کے سبب پی سی بی حکام اپنے آپ کو کسی کے سامنے جواب دہ نہیں سمجھتے۔ فوٹو: فائل

’’گورننگ بورڈکی پریس ریلیز میں تو دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں، پورا بورڈ ہی پریس ریلیز پر چل رہا ہے‘‘ یہ کوئی میری ذاتی رائے نہیں بلکہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان راشد لطیف کی ٹویٹ ہے، وہ گنتی کے ان چند کرکٹرز میں شامل ہیں جنھیں ملازمت کی لالچ سچ بولنے سے نہ روک پائی،واقعی اگر پہلی نظر میں آپ پریس ریلیز دیکھیں تو ایسا محسوس ہوگا جیسے پی سی بی دنیا کا سب سے اچھا ادارہ ہے، ملکی کرکٹ میں دولت کی ریل پیل ہے۔

دنیا کے بہترین لوگوں کا تقرر کیا گیا ہے، مگر کیا یہ سچ ہے؟ اگر آپ کھیل کو ذرا سا بھی سمجھتے ہوں تو یقیناً جواب ناں میں آئے گا، سب سے پہلے ہم گورننگ بورڈ کی ہی بات کر لیتے ہیں، کسی بھی ادارے کی ترقی میں ’’چیک اینڈ بیلنس‘‘ کے نظام کی بڑی اہمیت ہوتی ہے،آپ جو بھی قدم اٹھائیں اوپر کوئی اس پر نظر رکھنے والا ہو جو غلطیوں پر ٹوکے، مگر بدقسمتی سے پی سی بی میں کبھی ایسا نہیں ہوا، کہنے کو اس میں سیاسی مداخلت موجود نہیں مگر چیئرمین کا تقرر پہلے صدر مملکت کرتے تھے اب وزیر اعظم نام پیش کرتے ہیں۔

یقینی طور پر ان اعلیٰ شخصیات کے قریبی لوگ ہی عہدوں پر براجمان ہوتے ہیں ورنہ حکومت تبدیل ہونے پر بورڈ میں تبدیلیاں بھی نہیں آتیں،اعلیٰ حکومتی شخصیات کی جانب سے تقرری کے سبب پی سی بی حکام اپنے آپ کو کسی کے سامنے جواب دہ نہیں سمجھتے،اس کا ثبوت مختلف قائمہ کمیٹیز کی میٹنگز ہیں جہاں اول تو جاتے ہی نہیں اور جائیں توآسانی سے سوال کا جواب دینا پسند نہیں کرتے، ایسے میں گورننگ بورڈ کو مضبوط ہونا چاہیے جو ہر کام کی اعلیٰ حکام سے بھی وضاحت طلب کر سکے، ماضی میں اسے ’’ربڑ اسٹیمپ‘‘ کی طرح استعمال کیا جاتا رہا جہاں بڑے فیصلوں کی توثیق کیلیے رسمی کارروائی پوری کی گئی۔

مجھے نہیں یاد پڑتا کہ گورننگ بورڈ نے کبھی بورڈ کے کسی فیصلے کی نفی کر دی ہو، سوائے اس بغاوت کے جسے ’’بھرپور‘‘ انداز میں کچلا گیا جس میں وسیم خان کی تقرری سمیت بعض فیصلوں پر میٹنگ کا بائیکاٹ کر دیا گیا تھا، اب نئے گورننگ بورڈ کے 4نئے ’’آزاد ڈائریکٹرز‘‘ کا اعلان ہوا، ان میں عالیہ ظفر، جاوید قریشی، عارف سعید اور عاصم واجد شامل ہیں،یہ کون لوگ ہیں؟ کیسے تقرر ہوا؟ بورڈ نے تفصیل سے وضاحت نہیں کی، دیگر3ممبرز کی شمولیت ایسوسی ایشنز کا انتخابی عمل مکمل ہونے پرکرنے کا کہا گیا ہے جس کا وقت نجانے کب آئے گا، دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سے قبل 2 سال سے نیا نظام آنے کے باوجود سابقہ ڈپارٹمنٹس کے نمائندے گورننگ بورڈ میں ملکی کرکٹ کے فیصلے کر رہے تھے۔

اگر یہ کسی کارپوریٹ ادارے کا گورننگ بورڈ ہو تو شاید اچھا لگے لیکن یہ ملکی کرکٹ کا ہے اور اس میں کوئی ایک کرکٹر بھی موجود نہیں، کھیل سے کوئی تعلق نہ رکھنے والے لوگ اب اس کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے، کیا ہی اچھا ہوتا اگر گورننگ بورڈ میں سابق کرکٹ اسٹارز کو بھی نمائندگی ملتی تاکہ وہ نان ٹیکنیکل افراد کی رہنمائی بھی کرتے رہتے مگر پی سی بی سے کون ایسا کہہ سکتا ہے، اگر آپ سوشل میڈیا اور پریس ریلیز سے متاثر ہو جاتے ہیں تو ہو جائیں مگر حقیقت یہ نہیں ہے، اگر کسی بینک کے گورننگ بورڈ میں تین کرکٹرزاور2 ہاکی کے پلیئرز شامل کر دیے جائیں توکیا وہ بہت کامیاب ہو جائے گا؟ آپ کو ایک ملا جلا گورننگ بورڈ بنانا چاہیے۔

جہاں آئین میں اتنی تبدیلیاں کیں ایک اور کر دیتے، کرکٹر کے ساتھ دیگر اسٹیک ہولڈرز کو بھی جگہ دیتے، کیسے آپ نان کرکٹنگ لوگوں سے کسی کرکٹنگ فیصلے پر رائے لیں گے؟ ماضی میں اعلیٰ حکومتی شخصیات کے قریبی افراد کو جب چیئرمین بنایا جاتا تو کرکٹ سے تعلق کے استفسار پر کہا جاتا وہ اپنے محلے کی کرکٹ ٹیم کے کپتان رہ چکے یا گھر کی چھت پر کرکٹ کھیل چکے شایداب بھی ایسی باتیں سامنے آئیں۔

آپ پاکستان میں 10 لوگوں کو روک کر پوچھیں ان میں سے 6،7 نے اسکول، کالج، گلی محلے یا کم از کم گھر کی چھت پر تو کرکٹ کھیلی ہو گی، مگر کیا اسے کھیل سے ان کی رغبت کا ثبوت قرار دیا جا سکتا ہے؟ ایک معیار بنائیں جس کے تحت مخصوص تعداد میں ٹیسٹ یا ون ڈے کھیلنے والا ہی بورڈ میں شامل ہو سکے، مگر شاید موجودہ پی سی بی حکام ایسا نہیں چاہتے، ان کی شروع سے ہی کوشش ہے کہ ہر چیز اپنے کنٹرول میں کر لی جائے اور وہ آہستہ آہستہ اس میں کامیاب بھی ہو رہے ہیں۔

مگر وہ ٹیم کی کارکردگی اور کرکٹ کے معیار کو کنٹرول نہیں کرسکتے، زمبابوے کے بچے ہمیں ہمارے ملک میں آ کر ہرا دیتے ہیں اس سے آپ اندازہ لگا لیں کہ کرکٹ کس نہج پر جا رہی ہے،ڈومیسٹک کرکٹ کے نئے سسٹم میں نوجوانوں کے آنے کی بات ہوئی آپ ڈان اخبار میں یعقوب صاحب کی رپورٹ پڑھ لیں کہ اب بھی کتنے عمر رسیدہ کرکٹرز سسٹم میں موجود ہیں اور کوئی تبدیلی نہیں آئی،آپ نے ہزاروں کرکٹرز اور آفیشلزکو بے روزگار کر دیا،کلب کرکٹ تقریباً ختم ہو چکی نیا ٹیلنٹ سامنے آ نہیں رہا، نظام میں پہلے سے موجود کھلاڑی ہی کھیل رہے ہیں۔

ایسا کب تک چلے گا،2 سال ہو گئے بورڈ کا سالانہ اجلاس عام ہی نہیں ہوا حالانکہ آئین کے تحت ایسا ہر برس ہونا چاہیے، پہلے تمام شہروں کی ایسوسی ایشنز والے میٹنگز میں آتے تھے اب تعداد بھی محدودکی جا چکی،البتہ ایک خوش آئند بات مالی سال 2019-20 کیلیے3.8 بلین روپے کا منافع ظاہر ہونا ہے، اب اس میں سے 2 بلین روپے تک تو آئی سی سی سے ہی ملے ہوں گے جو وہ ہر سال اپنے تمام فل ممبرز کو دیتی ہے، سابقہ براڈکاسٹ ڈیل کی بھی رقم آئی ہو گی۔

اب یہ دیکھنا ہوگا کہ بورڈ کی اپنی کاوشوں سے کتنا منافع ہوا، ملک کے اچھے حالات کا بھی اس میں اہم کردار ہے ورنہ بڑی رقم نیوٹرل وینیوز پر ہی خرچ ہو جاتی تھی، البتہ اب اخراجات بھی بے تحاشا بڑھ گئے ہیں، ڈومیسٹک کرکٹ پر ہی اربوں روپے خرچ ہونے لگے، کورونا کے دنوں میں کرکٹ پر بائیو ببل جیسے اقدامات پر بھی پیسہ بہانا پڑ رہا ہے،بورڈ نے صوبائی ٹیموں کیلیے اسپانسر شپ کے دعوے کیے تھے 2 سال میں تو ایسا نہیں ہوا دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے، اگر واقعی کرکٹ میں بہتری آ گئی تو آپ کو ’’پریس ریلیز‘‘ یا دوستوں کے سہارے کی ضرورت نہیں پڑے گی لوگ خود دل سے تعریفیں کریں گے اور راشد لطیف کو بھی یہ نہیں کہنا پڑے گا کہ ’’پورا بورڈ ہی پریس ریلیز پر چل رہا ہے‘‘۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پرمجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔