گلگت الیکشن: حکومت کی کامیابی اور دھاندلی کا الزام

ارشاد انصاری  بدھ 18 نومبر 2020
آزادامید واروں کا بڑی تعداد میں جیت جانا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی عوام میں مقبولیت کم ہو رہی ہے۔ فوٹو: فائل

آزادامید واروں کا بڑی تعداد میں جیت جانا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی عوام میں مقبولیت کم ہو رہی ہے۔ فوٹو: فائل

 اسلام آباد: پچھلے ایک ہفتے سے پاکستانی سیاست میں گلگت بلتستان کے الیکشن کا شور تھا پاکستان کی تمام بڑی پارٹیوں نے جی بی الیکشن میں بھر پور شمولیت کی، ہر بڑی جماعت نے جلسے کئے اور دعوی کیا کہ جیت ہماری ہو گی لیکن رزلٹ اس کے برعکس ہی سامنے آمنے آ ئے ہیں، ایسا لگ رہا ہے سیاسی پاریٹوں سے عوام کا یقین اٹھ رہا ہے۔

آزادامید واروں کا بڑی تعداد میں جیت جانا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی عوام میں مقبولیت کم ہو رہی ہے۔گلگت بلتستان اسمبلی کے انتخابات میں آزاد امیدوار تقریباً ایک تہائی نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوگئے اور اب اسٹریٹیجک اہمیت کے حامل اس خطے میں حکومت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کریں گے ۔ 23 حلقوں کے غیر سرکاری نتائج جو سامنے آئے ہیں۔

اس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) 10 نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے جس کے بعد 7 آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) 3 نشستوں، پاکستان مسلم لیگ (ن) 2 جبکہ متحدہ وحدت المسلمین جس نے پی ٹی آئی کے ساتھ ایک نشست پر ایڈجسٹمنٹ کی تھی وہ ایک نشست پر کامیاب ہوئی۔ چنانچہ خواتین کے لیے مخصوص 6 نشستوں میں سے پی ٹی آئی کے لیے ممکنہ 4 اور ٹیکنو کریٹس کی 3 میں سے 2 نشستیں ملنے کے بعد پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں کی33 رکنی گلگت بلتستان اسمبلی میں 16 مجموعی نشستیں ہو جائیں گی جو اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ اسے حکومت بنانے کے لیے ایک اور امیدوار کی حمایت کی ضرورت ہوگی۔

اس وقت پی ٹی آئی نے گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ کے لیے کسی امیدوار کو نامزد نہیں کیا جبکہ پی ٹی آئی گلگت بلتستان کے صدر جسٹس (ر) جعفر شاہ انتخابات سے چند ہفتے پہلے ہی کورونا وائرس کے سبب انتقال کر گئے تھے جس کے باعث جی بی ایل اے-3 گلگت-3 کی نشست پر انتخاب بھی ملتوی ہوگیا اور اب اس نشست پر 22 نومبر کو ضمنی انتخاب ہوگا۔

ایک جانب پی ٹی آئی کے کارکنان حامی خطے میں اپنی اولین جیت کا جشن منا رہے ہیں تو دوسری جانب ملک کی 2 بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے انتخابات پر دھاندلی کے الزامات عائد کیے ہیں اور جی بی انتخابات نے اسٹیبلشمنٹ اور پیپلزپارٹی کے درمیان مفاہمت کی تجزیات کو غلط ثابت کردیا ہے جو تجزیہ کار مقتدرحلقوں کی طرف سے جی بی کے انتخابات میں ماضی کی غلطیوں کے ازالہ کی توجیہات پیش کر رہے تھے۔

جی بی کے انتخابات نے انہیں غلط ثابت کردیا ہے اور پھر جی بی انتخابات کے روز اسلام آباد میں تحریک لبیک کے ریلی اور دھرنے پر بھی مختلف حلقوں کی جانب سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ اس دھرنے کی ٹائمنگ ایسی تھی کہ بارش اور سردی کے باوجود کون سی آفتادہ آن پڑی تھی کہ دھرنا اسی روز ہونا تھا اور پھر جس طرح اسکا ڈراپ سین ہوا اس پر بھی انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔

بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ ہماری روایت بن چکی ہے کہ ہر پارٹی اپنی مرضی کے نتایج چاہتی ہے اور مرضی کا نتیجہ نہ ملے تو دھاندلی کا پرانا ڈھول پیٹا جاتا ہے اور اب کی بار بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے کیونکہ اگر مقتدرقوتیں اپنا کھیل کھیلتی ہیں تو تحریک انصاف کم سے کم پندرہ سیٹیں تو حاصل کرتی، ابھی تو پی ٹی آئی آئی کو حکومت بنانے کیلئے آزاد امیدواروں کا سہارا لینا پڑے گا جس سے وفاق کی طرح جی بی میں بھی پی ٹی آئی کی کمزور حکومت ہی بن پائے گی جو آزاد امیدواروں کے سہارے کھڑی ہوگئی۔

اس کے علاوہ ایک یہ بھی ماضی کی روایت ہے کہ  گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کی سیاست ہمیشہ وفاق کے رخ چلتی ہے اور وفاق میں جسکی حکومت ہوتی ہے جی بی اور گلگت بلتستان میں بھی عموماً اسی جماعت کی حکومت ہوتی ہے اور اس بار بھی ایسا ہی ہوا ہے، البتہ اس کے باوجود پی پی پی جو گلگت بلتستان اسمبلی کے گزشتہ انتخابات میں صرف ایک ہی نشست پر کامیابی حاصل کر سکی تھی اب گلگت، نگر اور گھانچے سے ایک ایک کر کے 3 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ تاہم سیکڑوں پی پی پی حامیوں نے گلگت شہر کے ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے سامنے دھرنا دیا جہاں پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو نے ان سے خطاب بھی کیا۔

گلگت بلتستان انتخابات کے اثرات ملکی سیاسی پر بھی ظاہر ہونگے اور اپوزیشن کے بیانئے میں مزید شدت آئے گی اور آنے والے دنوں میں سیاسی حالات مزید ابتر ہونگے۔ اپوزیشن کی جانب سے حکومت کے خلاف ماحول مزید گرمایاجائے گا اور سینٹ انتخابات سے قبل جو بن پڑا کرنے کی کوشش کرے گی۔ دوسری طرف حکومت بھی خاموش نہیں بیٹھے گی وہ بھی اپوزیشن کے خلاف مزید بھڑکے گی، نہ صرف سیاسی بیان بازی مزید تلخ ہوگی  مبلکہ مزید کیسز بھی سامنے آنے کے امکانات ہیں اور مزید گرفتاریاں بھی ہو سکتی ہیں، یہی نہیں بلکہ اپوزیشن میں فارورڈ بلاک بنانے کی بھی تیاریاں ہو رہی ہیں۔

بعض حلقوں کا خیال ہے کہ جہانگیر ترین کو نئی لیگ بنانے سمیت اپوزیشن کو منتشر کرنے کا ٹاسک دیا جا رہا ہے اب یہ وقت بتائے گا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا مگر یہ سامنے نظر آرہا ہے کہ حکومت کو مستقبل میں سیاسی  و اقتصادی  فرنٹ پر چیلنجز سے نمٹنا ہوگا کیونکہ سیاسی بحران کے ساتھ ساتھ اقتصادی بحران بھی گہرا ہوتا جا رہا ہے اور حکومت کی اقتصادی ٹیم اقتصادی بحران ٹلنے  کیلئے کسی معجزے کا انتظار کرتی دکھائی دے رہی ہے اور اب اقتصادی ٹیم کی نظریں ایک ارب ڈالر کے سکوک بونڈز کے اجراء پر ہے۔

اگر  سکوک بونڈ جاری کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے یا چین سمیت کسی دوسرے ملک سے ریسکیو کر لیا جاتا ہے تو اس صورت میں سیاسی بحران کے ساتھ ساتھ اقتصادی بحران پر بھی قابو پا لیا جائے گا ورنہ حالات مزید ابتر ہونگے کیونکہ آئی ایم ایف کا پروگرام ابھی ٹریک پر آتا دکھائی نہیں دے رہا ہے اور ادائیگیاں ہم نے بھاری کرنا ہے۔

ایسے میں اگر کسی دوست ملک نے ریسکیو نہ کیا یا کوئی معجزہ نہ ہوا تو پھر آئی ایم ایف کی تمام شرائط ماننے کے سواء کوئی چارہ نہیں بچے گا اور آئی ایم ایف کی شرائط  ماننے کا مطلب ٹیکسوں کا مزید بوجھ اور بجلی،گیس مزید مہنگا ہوگا جسکا اثر براہ راست عوام اور ملی سیاست و معیشت پر پڑے گا  اور حکومت کیلئے مشکلات مزید بڑھ جائیں گی اور گلگت بلتستان انتخابات میں دھاندلی کے اپوزیشن کے بیانیہ کو عوام میں بیچنا مزید آسان ہو جائے گا، ابھی تو اپوزیشن کے مقابلے میں حکومت بھرپور بیانیہ دے رہی ہے اور وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کہا کہ گلگت بلتستان کے عوام نے پی ٹی آئی کو ووٹ دے کر اپوزیشن کی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا بیانیہ مسترد کردیا۔

انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے عوام نے جمہوری سوچ کے ساتھ اپنی ترقی، خوشحالی اور روشن مستقبل کے لیے ووٹ دیا۔اپوزیشن کی جانب سے دھاندلی کے الزامات مسترد کرتے ہوئے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ میڈیا نے اپنے کیمروں سے الیکشن مہم کور کی ہیں اور اپوزیشن کی سینئر قیادت نے انتخابی مہم چلائیں۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ بہت شفاف انتخابات تھے، اگر پی ٹی آئی دھاندلی کرنا چاہتی تو وہ 23 میں سے کم از 14سے 15 نشستیں حاصل کرتی۔ ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت سینیٹ انتخابات میں ہاتھ کھڑے کرنے اور الیکٹرونک ووٹنگ متعارف کروانے کے لیے انتخابی قوانین میں تبدیلیاں لائے گی۔

دوسری جانب ایک مذہبی جماعت کی جانب سے  جاری دو دن سے جاری دھرنا مذاکرات کے بعد ختم ہوگیا، دو دن سے اسلام آباد اور پنڈی کے شہری گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے۔ اسلام آباد پنڈی مین موبائل سروس بھی مکمل طور پر بند کر دی گئی تھی۔

پاکستان کی وفاقی حکومت اور انتظامیہ نے اسلام آباد میں فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے مطالبے کے ساتھ دھرنا دینے والی تحریک لبیک کے سربراہ خادم حسین رضوی کے ساتھ مذاکرات کے بعد چار نکاتی معاہدہ کیا ہے۔ مذاکرات کی کامیابی کے چند گھنٹوں بعد اس دھرنے کو ختم کر دیا گیا۔ یہ وہی مقام ہے جہاں اس جماعت نے 2017 میں بھی دھرنا دیا تھا اور حکومت سے ایک معاہدے کے بعد دھرنا ختم کیا گیا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔