نفرت اور ظلم کی بیماریاں

زاہدہ حنا  بدھ 6 جنوری 2021
zahedahina@gmail.com

[email protected]

2020کے آخری ہفتے تھے جب مدھیا پردیش کے شہروں اجین اور اندور سے خبر آئی کہ رام مندر کی تعمیر کے لیے نکالے جانے والے جلوس ’’جن جاگرن ریلی‘‘ میں شامل لوگ مندر کی تعمیر کے لیے اتنے پر جوش ہوئے کہ وہ 2 مسجدوں پر حملہ آور ہوئے، انھوں نے میناروں کو آگ لگادی اور آس پاس کے گھروں پر پتھراؤ کیا۔

اس خبر کو پڑھتے ہوئے طبیعت رنجیدہ ہورہی تھی کہ وزیر اعظم کے صوبے خیبرپختونخوا سے خبر آئی کہ کرک (کوہاٹ) میں شری پرم ہانس جی مہاراج کی سمادھی پر چڑھ دوڑے۔ ان لوگوں میں بوڑھے، جوان، حد تو یہ ہے کہ چھوٹے بچے بھی شامل تھے۔ ان لوگوں نے سمادھی کی جی بھر کر بے حرمتی کی۔ سمادھی کے کچھ حصوں کو آگ لگائی گئی اور آس پاس کے ہند وگھروں پر پتھر برسائے گئے۔

یہ غنیمت ہے کہ سرکاری سطح پر اس شرم ناک واقعے کا فوری نوٹس لیا گیا۔ مقدمہ درج ہوا اور ایک نیم مذہبی، نیم سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے اس سانحے میں براہ راست ملوث تھے، ان میں سے لگ بھگ 3 درجن لوگوں کے خلاف مقدمے درج ہوئے۔ وہ گرفتار ہوئے اور ان پر مقدمہ چلانے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔

ہم سب اس مذہبی جماعت کا نام جانتے ہیں اور گرفتار ہونے والے کئی رہنماؤں کا بھی، لیکن ان کے ناموں  کی تفصیل میں جانے سے کیا حاصل ہوگا۔ یہ ایک بہت حوصلہ افزا بات ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جناب گلزار احمد نے اس واقع سے آگاہی ہوتے ہی سوموٹو نوٹس لے لیا اور اس سانحے کے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی ہے۔ یہ سطریں جب آپ پڑھ رہے ہوں گے اس وقت رپورٹ چیف جسٹس صاحب کی نظر سے گزررہی ہوگی۔

یہ سمادھی 1919سے یہاں قائم ہے۔ اس علاقے کے مسلمانوں کا کہنا تھا کہ ہندوؤں نے اس زمین پر ناجائز قبضہ کرکے یہاںسمادھی قائم کرلی ہے، مسئلہ وہی زمین کا تھا۔ سندھ کے چند بزرگ سندھی ہندوؤں نے اس معاملے کو حل کرنے کے لیے 3,75,000 (تین لاکھ پچھترہزار روپے) اس مسلمان کو دیے تاکہ وہ سمادھی کی زمین پر قبضہ ختم کردے لیکن تادم تحریر قبضہ قائم ہے اور نفرتوں کے دریا چڑھے ہوئے ہیں۔

عبادت گاہ ہندو کی ہو، کرسچن، مسلمان یا کسی بھی مذہب کے ماننے والے کی، وہ قابل احترام ہوتی ہے، لوگ ایک دوسرے کی عبادت گاہوں میں جوتے اتار کر سر ڈھک کر جاتے ہیں۔ ایک طرف یہ روایات ہیں، دوسری طرف نفرت کا سمندر ہے جو ہر اچھی روایت کو نگل رہا ہے۔ ہم جب نفرت میں گرفتار ہوتے ہیں تو لامحالہ ظلم اس کا ہاتھ تھامے چلا آتا ہے۔

ظلم کی بات کرتے ہوئے مجھے کرشن چندر کاایک ناول ’’الٹا درخت‘‘یاد آتا ہے۔ کہنے کو یہ ناول انھوںنے بچوں کے لیے لکھا تھا لیکن ریوتی سرن شرمانے کیا خوب کہا ہے کہ کرشن کے بالغ سیاسی اور سماجی شعور کے لمس سے یہ سارا قصہ ایک طنزیہ تمثیل بن گیا ہے اور اس کا ہر واقعہ اپنے اندر ایک گہری معنویت لیے ہوئے ہے۔ بارہ برس کا یوسف یتیم ہوجاتا ہے تو ماں کہتی ہے کہ تم  بادشاہ کی فوج میں ملازم ہوجاؤ۔ بیٹاانکار کرتا ہے اور اس کا انکاربادشاہ کے کانوں تک پہنچ جاتا ہے۔ ’’کیونکہ جو بادشاہ ظلم کرتا ہے۔

اس نے ملک میںمخبروں کاجال بھی بچھا رکھا ہوتاہے‘‘۔ کہانی کی ابتداء میں ہی یوسف اور بادشاہ کا مکالمہ اس بات کی خبر دیتا ہے کہ یہ سادہ سی کہانی کیسے پر پرزے نکالنے والی ہے۔ بادشاہ ہکلا ہے اور جب یوسف پوچھتا ہے کہ کیا سارے بادشاہ ہکلے ہوتے ہیں تو بادشاہ کو غصہ آجاتا ہے اور وہ یوسف کو ڈانٹ کر بتاتا  ہے کہ اسے ہکلاہٹ کی نہیں‘ ظلم کرنے کی بیماری ہے۔

وہ یوسف کو مجبورکرتا ہے کہ وہ اس کی فوج میں شامل ہوجائے لیکن یوسف کوجب معلوم ہوتا ہے کہ اسے تنخواہ نہیں ملے گی بلکہ دوسرے ملکوں پر حملہ کرکے لوٹ مار کرنی ہوگی اور یہی اس کی آمدنی کا ذریعہ ہوگا تو وہ دوسرے ملکوں پر حملہ کرنے،انسانوں کوقتل کرنے اورمال غنیمت سمیٹنے سے انکار کردیتا ہے۔ وہ فاقہ کرنے کے لیے تیار ہے لیکن فوج میں نہیں جانا چاہتا کیونکہ اس طرح اسے بھی ظلم کی بیماری ہوجائے گی۔ بارہ برس کا یوسف ایک موچی کا بیٹا ہے لیکن اس کے انسانی شعور کی داد دیجیے جو ہمارے بڑے بڑے جرنیلوں میںنہیں پاتی جاتی۔

یوسف کے بادشاہ کو ظلم کرنے کی بیماری ہے اسی لیے وہ اپنی رعایا کی ہر خوبصورت چیز پر قبضہ کرلیتا ہے، خواہ وہ کسی کا سرسبز باغ ہو ، ہرا بھرا کھیت ہو یا ٹھنڈے پانی کا کنواں،ہر چیز فوجیوں کا دستہ بھیج کر بہ حق سرکار ضبط کرلی جاتی ہے۔ اس کہانی کا ہیرو بارہ برس کا یوسف ایک کنویں میں اترتا ہے تو اسے ایسی اونچی آوازیں سنائی دیتی ہیں جیسے ہزاروں ، لاکھوںجلوس ایک ساتھ چل رہے ہوں۔

ایک آواز سرگوشی میں اسے بتاتی ہے کہ یہ تمام آوازیں ان آدمیوں، شاعروں ، سیاست دانوںکی ہیں جن کو ہمارے بادشاہ نے یا تو قتل کرادیا ہے یا جیل میں ڈال دیا ہے کیونکہ وہ اس کے ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے تھے۔لیکن قتل ہوجانے اور جیل میں ڈال دیے جانے کے بعد بھی ان شاعروں اور ادیبوں اور سیاست دانوں کی آواز نہیں رکی اور ملک میںگونجتی رہی۔ اس لیے بادشاہ نے اب تمام آوازوں کو پکڑ لیا ہے اور اس گنبد میں بند کردیا ہے۔ اب اس کا خیال ہے کہ یہ آوازیں ہمیشہ  کے لیے دبا دی گئی ہیں اور اس کوان سے کوئی خطرہ نہیں۔

یہ ناول ایک آئینہ ہے جس میں ہمیں جادوگروںکا الیکشن نظر آتا ہے۔ کوئی الہ دین کا چراغ لیے بیٹھا ہے ۔ کسی کے پاس سلیمانی ٹوپی ہے‘ جھوٹے وعدوں کاطو مار ہے جو عوام کے سامنے اٹھایا جارہا ہے۔ ہرصفحے پر ایسے کاری جملے ہیں کہ پڑھیے اور عش عش کیجیے کہ ان جملوں میں ہمارے ارد گرد کی کیسی سچی تصویر کشی کی گئی ہے۔

کہانی میں ایک مقام پر ایک کردار سوال کرتا ہے ’’آخر اس شہر کی سرکار اندھیرے میںکیوں کام کرتی ہے؟‘‘

’’اس شہر میںہی نہیں‘ بہت سی جگہوں کی سرکار اندھیرے میں کام کرتی ہے اور شہریوں کی آنکھوں سے اوجھل رہ کر بہت سی باتیں طے کرلیتی ہے۔‘‘

ہم ناول کے اختتامی حصے تک پہنچتے ہیںتو ایک مینار نظر آتا ہے جس کا صدر درواز بند ہے اور یہ صرف ان لوگوں کے لیے کھلتا ہے جو یہ کہیں کہ ’’ہم سرکار کے غلام ہیں‘‘ لیکن یوسف کے ساتھی تو سرکار کے غلام نہیں، تب انھیں بتایاجاتا ہے کہ جب تم اس دروازے کے پاس پہنچو تو خبردار اپنی پلکوں کو کسی حالت میں نہ جھپکانا۔ بس چپ چاپ ٹکٹکی باندھے سوراخ کی طرف دیکھتے رہنا۔ سرکار کے غلاموں کی نشانی یہ ہے کہ وہ کسی حالت میں پلکیں نہیں جھپکاتے چپ چاپ ہاتھ باندھے حکم کی تعمیل کے لیے کھڑے رہتے ہیں۔

وہ جب اس مرحلے سے بھی گزر آتے ہیں تو اس شہر کے بارے میں سوال کرتے ہیں جس میں سیکڑوں ایسے سانپ چھپے ہوئے تھے جن کے کاٹے کا منتر نہ تھا۔ تب یوسف اور اس کے ساتھیوں کی مدد کرنے والا سبز پوش بزرگ انھیں بتاتا ہے کہ وہ سانپ نہیں آدمی تھے اور آدمی کے بھیس میں لوگوں کے ساتھ رہتے تھے، ایسے آدمی سانپوںسے بھی زیادہ خطرناک ہوتے ہیں اور وقت اور موقع دیکھ کر لوگوں کو ڈستے ہیں۔

ان لوگوں کے دلوں میں زہر بھرا رہتا ہے اور ان کی آنکھوں میں پتلیوں کے بجائے چاندی کی ٹکیاں ہوتی ہیں۔ اگر تم ان آنکھوں میں غور سے دیکھو تو ان کو بخوبی پہچان سکوگے۔ یہی وہ ہیں جو انسانوں کو لوٹتے ہیں اور ان میں جنگیں کراتے ہیں۔ ان کی آنکھوں میںپتلیاں نہیں ہوتیں۔ چاندی کی گول گول ٹکیاں ہوتی ہیں۔

ان جملوں کو پڑھتے ہوئے نگاہوں کے سامنے اپنے کتنے معتبر چہرے آجاتے ہیں جن کے دلوں میں زہربھرا ہے اور جن کے ہونٹوں سے شہد ٹپکتا ہے۔ ان کا ایک وار خالی جائے تو وہ دوسری طرف سے وار کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں دولت کی ہوس ہے ، جنھیں ظلم کی بیماری ہے۔ ان لوگوں کے بارے میں کچھ اور جاننا چاہیے تو ’’بک ہوم‘‘ لاہور سے ’’الٹا درخت‘‘ خرید کر پڑھیے۔ کرشن چندر نے یہ ناول بچوں کے لیے لکھا تھا لیکن اس میں پاکستان کے بڑوں کے لیے کیسے سبق پنہاں ہیں۔

اور ہاں بارہ برس کے یتیم یوسف کو نہ بھولیے گا جو موچی کا بیٹا تھا، فاقوں سے دوچار تھا، لیکن اس بادشاہ کی فوج میں شامل نہیں ہونا چاہتا تھا جسے ظلم کی بیماری تھی اور جو ساتھ والے ملک پرحملہ کرکے وہاں لوٹ مارکرنا چاہتا تھا۔ یوسف بڑی کٹھنائیاں سہتا ہے لیکن ظلم کی بیماری میں مبتلا ہونے سے انکار کردیتا ہے۔ ہم جو ہر وقت انصاف کی دہائی دیتے رہتے ہیں، ہم کبھی اپنے اندر وہ ہمت تو پیدا کریں کہ ظلم کی بیماری میں مبتلا لوگوں کے ساتھ نہ کھڑے ہوں، یہ متعدی بیماری ہے، ظالموں کے قبیلے کے ساتھ رہنے سہنے سے یہ ہمیںبھی لگ سکتی ہے۔

بات مدھیا پردیش کی کسی چھوٹی سے مسجد کی ہو یا خیبرپختونخوا کے قصبے کرک کی، ہر جگہ ایک دوسرے سے نفرت ہے اور نفرت ہمیں ظلم کرنے پر اکساتی ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ نفرت اور ظلم کی بیماریاں کیا ہماری نسلوں کو نہیں کھا رہی ہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔