اُداسی کی ہتھیلی پر جدائی کاسکہ

خرم سہیل  پير 30 دسمبر 2013
khurram.sohail99@gmail.com

[email protected]

منظر روشن ہونے کے بعد گل ہوجاتا ہے، لیکن اس کا تصور نہیں۔ زندگی اور موت کی تعریف بھی یہی ہے۔ منظر موت ہے اورتصور زندگی۔ یہی وجہ ہے، فنکارمنظر نامے کوکم کم دیکھتے ہیں اورتصورِچشم سے قرب زیادہ ہوتا ہے۔یہ سوچ کے سفر میں وہاں بھی جانکلتے ہیں،جہاں حد سے باہر ہونے کی اجازت نہیں ہوتی۔بھلا فنکار اجازت کے محتاج ہوتے ہیں؟میرے خیال میں نہیں،کیونکہ سچا فنکار جس بات کی اجازت لینے کا عادی ہو، وہ اس کے لیے اجازت لینا کبھی بھولتا نہیں۔دنیا کے کسی بھی خطے کا فنکارہو، لیکن اس کی اخلاقیات سے جمالیات تک ہر پہلو یکساں ہوتا ہے۔فنکار جب اجازت لیتے ہیں ،توان کا فن شروع ہوتاہے اورجب اپنے فن کو حتمی طورپر پیش کردیتے ہیں،تو پھر اجازت نہیں مانگتے ،بس چلے جاتے ہیں،کیونکہ ان کی زندگی میں اجازت آنے کانام ہے ،جانے کانہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ہمارے درمیان سے جتنے فنکار چلے گئے،ان کے جانے میں خاموشی شامل تھی، لیکن چاہنے والوں کے دل میں طوفان اٹھاگئے۔جن ہاتھوں نے ان کے لیے ہمیشہ تالیاں بجائیں،ایک دن خاموشی سے ان کے لیے اُداسی کی ہتھیلی پر جدائی کاسکہ رکھ کرچلے گئے۔جانے والے کوکون روک سکتاہے، مگر تصور کے دائرے میں گھومنے سے فاصلہ کم نہیں ہوتا۔یادیں تنگ کرتی ہیں اورصبر قابو میں نہیں رہتا۔بس کچھ اسی طرح کی ملی جلی زندگی فنکار گزارتے ہیں اوران کے چاہنے والے بھی،کیونکہ دونوں انتہائے شوق کی ڈوری سے بندھے ہوتے ہیں۔پاکستان میں 2013ء کابرس سب سے زیادہ موسیقی کے شائقین کے لیے اداس رہا۔ زبیدہ خانم، ریشماں، مہناز، بلند اقبال، منظور نیازی اور ریاض الرحمان ساغرجیسے زمانہ ساز فنکاروں نے ہمیشہ کے لیے خاموشی کی چادر اوڑھ لی۔فلمی گیت،دوہے ،ٹپے،غزل،خیال،قوالی اور شاعری بہت دنوں تک اداس رہے گی۔

اَسی برس کی عمر پانے والی ’’زبیدہ خانم‘‘پچاس کی دہائی میں صف اول کی فلمی گلوکارہ تھیں۔1951 میں فلم’’بلو‘‘سے آغاز کرنے والی گلوکارہ نے دوسال بعد ہی فلم’’شہری بابو‘‘کے گیت گاکر اپنی فنی کامیابیوں کی بنیادرکھ دی۔’’تیری اُلفت میں صنم دل نے بہت درد سہے‘‘اور’’کیسے کہوں میں الوداع‘‘جیسے گیت گاکر اپنی آواز کوامرکردیا۔کئی یادگارفلموں کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ ان کی آواز تھی،ان کی مقبول فلموں میںسرفروش،حمیدہ،سات لاکھ، باغی،پاٹے خاں جیسی فلمیں شامل تھیں۔ان کی آواز میں پڑھی ہوئی نعت’’شاہ مدینہ‘‘کو بھی بے حد مقبولیت ملی تھی۔زبیدہ خانم تقسیم کے بعد امرتسر سے ہجرت کرکے لاہور آ گئیں۔ ان کی رحلت پر صرف لاہور ہی اداس نہیں ہوا ہو گا، بلکہ امرتسر میں بھی شام اداس رہی ہوگی۔

راجستھان سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والی گلوکارہ ’’ریشماں‘‘بنجارے پن ایک دلکش استعارہ ثابت ہوئیں۔انھوں نے اپنی آواز سے پنجاب کی دھرتی کے سارے جمالیاتی رنگ اپنی گائیکی میں بیان کیے۔وہ خوش قسمت بھی رہیں،انھیں ان کی زندگی ہی میں بہت توجہ ،محبت اورعقیدت ملی۔نئی نسل کے گلوکاروں عاطف اسلم نے ایک تقریب میں ان کی بھرپور پذیرائی کی۔فنکاروں کی قدر ان کی زندگی میں ہی کرناچاہیے۔یہ اچھی روایت ہے۔

مہناز بیگم اردوغزل گائیکی کا روشن ستارہ تھیں۔ انھیںغزل کے علاوہ ٹھمری،دادرا،دھرپد پر بھی ملکہ حاصل تھا،اسی لیے وہ مہناز بیگم کہلاتی تھیں۔ان کی گائیکی کی سب سے نمایاں بات ان کا خالص اہل زبان والا تلفظ تھا،جس سے غزل سننے کالطف اوربڑھ جاتا تھا۔ مہناز نے فلم’’ثریابھوپالی‘‘میں پس پردہ گیت گاکر اپنی گائیکی کی ابتدا کی اورزیبا بختیار کی فلم’’بابو‘‘میں انھوں نے اپنی زندگی کاآخری گیت گایاتھا۔مہناز کافی دن علیل رہنے کے بعد اپنے علاج کے سلسلے میں پاکستان سے امریکا جارہی تھیں،بحرین کے ہوائی اڈے پر ان کاانتقال ہوگیا۔

دہلی گھرانے کے معروف سارنگی نواز استاد بندوخان کے بیٹے بلند اقبال نے موسیقار کی حیثیت میں اپنا نام کمایا۔ساٹھ کی دہائی سے اسی کی دہائی تک مختلف فلمی گیتوں کو ترتیب دیااورکئی مقبول گیت فلمی صنعت کودیے۔تقریباً 35فلموں میں موسیقار کی حیثیت سے اپنے فن کا جادوجگایا۔ان کے ترتیب دیے ہوئے چند گیتوں میں’’اے ابرِ کرم آج اتنا برس‘‘ اور ’’سوچا تھا پیار نہ کریں گے‘‘سمیت کئی مقبول گیت تخلیق کیے۔ انھوں نے موسیقی کی تعلیم عام کرنے میں بھی اپناحصہ ڈالا۔ یہ بے لوث فنکار بھی ہم میں نہیں رہا۔

قوالی کامشہور گھرانہ’’قوال بچہ‘‘کے معروف قوال منظور نیازی بھی اسی برس انتقال کرگئے۔ان کے گھرانے کی موسیقی کے لیے بے پناہ خدمات ہیں۔قوالی کے پس منظر میں اب یہ واحد گھرانہ ہے،جواس فن کی خدمت کررہاہے۔انھیں اردو،فارسی اوردیگر کئی زبانوں میں گائیکی پر مہارت حاصل تھی،جس کامظاہرہ انھوں نے اپنے شاندار کیرئیر میں کئی بارکیا۔قوال گھرانے میں ان کے جانے کی کمی کو شدید طورپر محسوس کیاجائے گااورمداحوں کے دل میںبھی۔قوال بچوں کا مل کر ترانے گانے میں ایک آواز کم ہوگئی۔

پاکستان کے معروف شاعر’’ریاض الرحمان ساغر‘‘کوموسیقی کی دنیا میں کون نہیں جانتا۔انھوں نے دوہزار کے قریب گیت اورغزلیں لکھیں۔پاکستان کے کئی معروف پوپ گلوکاروں نے ان کے لکھے ہوئے گانے گائے ہیں،جن میں سرفہرست حدیقہ کیانی اور عدنان سمیع ہیں،جن کا مقبول ترین گیت’’آواں گی ہوا بن کے‘‘اورعدنان سمیع خان کا’’کبھی تونظر ملاؤ‘‘جیسا گیت ان ہی کا لکھا ہوا ہے۔اسی طرح وارث بیگ کا معروف گیت’’چاند جھروکے میں‘‘شامل ہے۔اس کے علاوہ نصرت فتح علی خان سمیت پاکستان کے تمام اہم گلوکاروں کے لیے انھوں نے گیت لکھے۔

پاکستان کی فلمی تاریخ کے لیے’’آسیہ‘‘کانام بھی بہت اہم رہے گا۔ریاض شاہد کی فلم’’غرناطہ ‘‘سے کیرئیر کی ابتدا کرنے والی اس اداکارہ نے تین دہائیوں تک مسلسل کامیابیاں سمیٹیں۔تقریباً سو فلموں میں کام کیا۔ان کی چند مشہور فلموں میں مولاجٹ،وعدہ،سہرے کاپھول اورشیر خان جیسی فلمیں شامل ہیں۔ان کا انتقال کینیڈا میں ہوا۔نوے کی دہائی میں فلمی صنعت سے ناراض ہوگئیں اورآخری دم تک ناراضگی برقرار رکھی۔یہی وجہ تھی کہ اتنے عرصے میں کبھی فلمی صنعت سے رابطہ نہیں کیا۔

اس برس پاکستان ٹیلی وژن کے معروف میزبان ’’قریش پور‘‘بھی انتقال کرگئے۔انھوں نے مشہور زمانہ پروگرام’’کسوٹی‘‘کی میزبانی کی تھی،مگر ان کا بنیادی حوالہ لکھناپڑھنا تھا۔یہ پاکستان کے وہ معروف دانشور تھے،جنھیں کلاسیکی اورجدید دونوں کی ثقافت وادب اوردیگرموضوعات پر عبور حاصل تھااوروہ ان موضوعات پرمغزاظہار خیال کیاکرتے تھے۔ان کے علاوہ اوربھی بہت سے شعبہ جات کے فنکاروں کاانتقال ہوا،جن سے مداحوں کی اداسی بڑھی۔کالم لکھنے کے لیے محدود جگہ درکار ہوتی ہے،لہٰذا سب کا تذکرہ ابھی ممکن نہیں،پھر کسی کالم میں ضرور کروں گا۔

بین الاقوامی منظر نامے سے بھی بہت سارے نام ہمیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلے گئے۔پڑوسی ملک بھارت سے کم عمراداکارہ‘‘جیاخان‘‘نے خودکشی کی،جسے کئی پہلوبھی دیے گئے ہیں۔اس نازک اندام اداکارہ نے بہت کم وقت میں شہرت حاصل کی تھی۔امیتابھ بچن اورعامر خان جیسے فلمی ستاروں کے ساتھ اسے کام کرنے کاموقع ملااورابھی اس کے سامنے ایک زندگی پڑی تھی،نہ جانے کیوں اس نے اس راستے سے خود کوہٹالیا۔

امریکا کامعروف گٹارسٹ’’لوئس ایلن ریڈ‘‘کی وفات بھی رواں برس ہوئی۔یہ ایک اچھا موسیقار اورگیت نگاربھی تھا۔ایک عرصے تک گٹارسٹ اورایک بینڈ کارکن رہنے کے بعد اس نے انفرادی حیثیت میں گائیکی کو اپنا کیرئیر بنایااوربہت کامیابیاں حاصل کیں۔امریکامیں موسیقی کا ایک اوراہم ستارہ کہکشاں سے ٹوٹا،اس کا نام ’’رے مانزرک‘‘تھا۔یہ کی بورڈ کاماسٹر اورمعروف موسیقار تھا۔اس کے لیے ایک بینڈ کا بانی رکن بھی تھا۔ہالی ووڈ کی معروف فلم ’’لارنس آف عریبیہ‘‘کا مرکزی کردار اداکرنے والے اداکار’’پیٹر اوٹول‘‘کاانتقال بھی اسی برس ہوا۔ ’’لارڈ جم‘‘ اور ’’ بیکٹ‘‘ میں اس کی اداکاری کو ناظرین مدتوں فراموش نہیں کرسکیں گے ،اس برس کی سب سے جواں مرگ’’پال واکر‘‘کی جدائی تھی۔یہ ہالی ووڈ کا مقبول ترین اداکار اورمعروف فلم سیریز’’فاسٹ اینڈ فیوریئس‘‘کاہیرو بھی تھا۔اس کاانتقال ٹریفک حادثے میں ہوا۔امریکا کے بہت مشہور مصنف’’ٹام کلینسی ‘‘نے بھی اسی برس وفات پائی۔یہ دنیا میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والا مصنف تھا۔اس کے 12ناول بیسٹ سیلر رہے اوردیگر کتابیں اور ان کی فروخت اس کے علاوہ ہے۔

اپنے اپنے فن کے ان ستاروں کے لیے خماربارہ بنکوی کاایک شعر یاد آرہاہے۔چاہنے والوں کی طرف سے اس سے اعلیٰ خراج تحسین کیاہوسکتاہے۔فن کار اورمداح کے بیچ یہی ایک احساس ہوتاہے،جو انھیں ساری زندگی ایک دوسرے سے جوڑے رکھتاہے۔

رات باقی تھی جب وہ بچھڑے تھے
کٹ گئی عمر رات باقی ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔