کوچۂ سخن

عارف عزیز  اتوار 14 فروری 2021
جو کام ہونا تھا ہائے جناب ہو نہ سکا، 
کبھی بھی آپ سے کارِ ثواب ہو نہ سکا۔

جو کام ہونا تھا ہائے جناب ہو نہ سکا، کبھی بھی آپ سے کارِ ثواب ہو نہ سکا۔

غزل
خطہ ٔ یاد ، نہ امکان سے جانے والی
تری خوشبو نہیں ملتان سے جانے والی
پھر کسی اور نے روکا ترا رستہ ویسے؟
پھر کوئی اور ملی جان سے جانے والی؟
بھول ہر وقت کے خدشوں کو یقیں کر میرا
چھوڑ کر میں نہیں ایمان سے جانے والی
تم نے دیکھی ہے وہ ضدی، وہ بلوچن پگلی!
جان دے کر بھی نہ پیمان سے جانے والی
اس طرف جھیل نے روکا ہے تودیکھو اس سمت
آخری بس بھی ہے کاغان سے جانے والی
اب یہ مہمان محبت ہے ہمیشہ کے لیے
مری روہی، مرے دامان سے جانے والی
وقت کہتا ہے چراغوں کو منور کر لو
دھوپ ویسے بھی ہے دالان سے جانے والی
تجھ میں کیا عجز ہے ایمان ؔیہ جھکنے والا
اس میں کیا بات ہے احسان سے جانے والی
(ایمان قیصرانی۔ ڈیرہ غازی خان)

۔۔۔
غزل
کبھی مقتل کو میں سوچوں کبھی زنداں دیکھوں
جانے والے کے لیے خودکو پریشاں دیکھوں
زخم تو زخم ہے بڑھتا ہی چلا جائے گا
کاش ہاتھوں میں ترے آج نمک داں دیکھوں
پیچھے دیکھوں تو فقط تُو ہی نظر آتا ہے
اپنے آگے تو میں تنہائی کا میداں دیکھوں
مجھے معلوم ہے تُو رات بہت رویا ہے
تیری آنکھوں میں نشاں درد کے پنہاں دیکھوں
زرد یادوں کو ہوا لے کے چلے تیری گلی
اور انہیں تیرے در و بام پہ رقصاں دیکھوں
یوں تو مشکل ہے کسی اور کا ہونا اعظم ؔ
پھر بھی خواہش ہے اسی کام کو آساں دیکھوں
(ڈاکٹراعظم شاہد ۔منڈی بہاؤالدین)

۔۔۔
غزل
چاند سورج ستارے دشمن تھے
سارے موسم ہمارے دشمن تھے
میں اکیلا تھا اپنے مسکن میں
لوگ بستی کے سارے دشمن تھے
کون آتا میری گواہی کو
میرے اپنے بِچارے دشمن تھے
اک سہارا تھا پیار کا مجھ کو
باقی سارے سہارے دشمن تھے
میں کھٹکتا تھا اس کی نظروں میں
اس کی آنکھوں کے تارے دشمن تھے
ساتھ اخترؔ دیا مقدر نے
سو میں جیتا تھا ہارے دشمن تھے
(اختر سعید۔جھنگ)

۔۔۔
غزل
جو کام ہونا تھا ہائے جناب ہو نہ سکا
کبھی بھی آپ سے کارِ ثواب ہو نہ سکا
وہ دشمنوں کوجگہ اپنے دل میں دیتے ہیں
میں ا ن کے دل کا کبھی انتخاب ہو نہ سکا
سنا جو میں نے توبے حد ہوامجھے افسوس
’’چمن میں آکے بھی کانٹا گلاب ہو نہ سکا‘‘
تمھارے قدموں میں کتنے لٹائے ہیں گوہر
شمار کر کے بھی جن کا حساب ہو نہ سکا
ہمیشہ اس کا یہی اک گلہ رہا مجھ سے
میں اس کے عشق میں جل کرکباب ہونہ سکا
وہ بے نقاب سبھی کو کیا مگر افسوس!
زمانے والوں سے وہ بے نقاب ہو نہ سکا
یہ دنیا جس کو گنہگار کہتی تھی نازاؔں
مرا تو لاشہ بھی اس کا خراب ہو نہ سکا
(صدام حسین نازاؔں۔ لعل چورا، بہار،بھارت)

۔۔۔
غزل
قفس کی رونقیں خود ہی بڑھانے لگتے ہیں
خرید کر جو پرندے اڑانے لگتے ہیں
بنا تو لیں گے یہ خبطی بہت سے منصوبے
پھر اس کے بعد کہیں گے خزانے لگتے ہیں
یہ ان کی خاص ادا ہے سوال کرنے پر
جواب دیتے نہیں مسکرانے لگتے ہیں
وہ داد دیتے ہیں لیکن الگ قرینے سے
میں شعر کہتا ہوں تو گنگنانے لگتے ہیں
ترے اساتذہ حارثؔ ہیں قیمتی جوہر
’’ہر اک کے ہاتھ کہاں یہ خزانے لگتے ہیں‘‘
(حارث انعام،حکیم آباد،نوشہرہ)

۔۔۔
غزل
داغِ عصیاں کا سلسلہ ہے کہ بس
پھر بھی مالک تری عطا ہے کہ بس
جگمگاتا ہوا دیا ہے ادھر
اس طرف تند سی ہوا ہے کہ بس
اب کہیں بھی مجھے قرار نہیں
زندگانی بھی اک سزا ہے کہ بس
قومیت کے فساد نے برسوں
خون انسان کا پیا ہے کہ بس
شکر رب نے نوازا خالدؔ کو
بے طلب اس قدر دیا ہے کہ بس
(پروفیسر محمد خالد کھوکھر۔ احمد پور لمہ،صادق آباد)

۔۔۔
غزل
مری سنو نہ سنو آج میں سناؤں گی
برا لگے تو لگے میں تمہیں ستاؤں گی
تمہی پتنگے کی مانند جب ہو چاروں طرف
میں شمع کی طرح جل کر تمہیں جلاؤں گی
تمہاری باتیں ستائیں گی جب اکیلے میں
ہر ایک یاد کو سینے سے میں لگاؤں گی
قبول میری محبت اگر نہ کی تم نے
میں اپنی جاں پہ تمہیں کھیل کر دکھاؤں گی
یہ یاد رکھنا اگر مجھ سے تم کبھی روٹھے
میں کھانا تم کو منائے بنا نہ کھاؤں گی
ہمارے بیچ جو پیدا کرے غلط فہمی
خیال ذہن میں ایسے کبھی نہ لاؤں گی
وہ سر کا تاج ہے زبدہؔ میری محبت کا
زمیں میں بن کے اسے آسماں بناؤں گی
(زبدہ خان۔ راولپنڈی)

۔۔۔
غزل
یہ ہجر میں جو ترا انتظار کرتے ہیں
رہِ خزاں میں تلاشِ بہار کرتے ہیں
دنوں کو رات بنانا یا راتیں دن کرنا
تمہارے بعد یہی کاروبار کرتے ہیں
اب اس سے بڑھ کہ بھلا کیا تجھے تسلی دیں
تری وفا کی قسم، تجھ سے پیار کرتے ہیں
کبھی سنا تو نہیں ان کے لب سے شکوہ تک
وہ کیسے اپنوں میں مجھ کو شمار کرتے ہیں
(عمربٹ ۔جلاپور جٹاں گجرات)

۔۔۔
غزل
ان کے گیسو سنورنے والے ہیں
سادہ دل لوگ مرنے والے ہیں
نیند کو آگ لگنے والی ہے
خواب سارے بکھرنے والے ہیں
پنکھا، رسی، اداسی اور کمرہ
میرا نقصان کرنے والے ہیں
ہم کو نفرت سے سخت نفرت ہے
ہم محبت ہی کرنے والے ہیں
دل کے گھاؤ بھریں گے گھاؤ سے
کب دوا سے یہ بھرنے والے ہیں
پھول سارے اداس ہیں ایسے
جیسے قبروں پہ چڑھنے والے ہیں
زخمِ دل ہو کوئی نیا دانشؔ
زخم پہلے تو بھرنے والے ہیں
(دانش عباس دانش۔ ڈی آئی خان)

۔۔۔
غزل
زلفِ برہم میں خم زیادہ ہے
تو جو کہتا تھا کم زیادہ ہے
کس نے تقسیم کی وراثت کی
میرے حصے میں غم زیادہ ہے
اپنے لہجے پہ آج غور تو کر
تیرے لہجے میں ہم زیادہ ہے
ناقد ِہجر کے سبو میں ابھی
اشک تھوڑے ہیں رم زیادہ ہے
سن یہ شکوہ ہے تیری پایل کا
چھن یہ کہتی ہے چھم زیادہ ہے
کیا ہوا آج کیا ہوا دانشؔ
آج کچھ آنکھ نم زیادہ ہے
(تنویر دانش۔گجرات پاکستان)

۔۔۔
غزل
نظر نظر اداس ہے ہر اک کے بال منتشر
وہ شخص جن سے دور ہے سبھی کا حال منتشر
ردائف و قوافی بھی ہیں مجھ سے اب خفا خفا
وہ جب سے روٹھ کر گیا مرا خیال منتشر
بہت دنوں کے بعد وہ جو مل گیا تھا راہ میں
نظر ملی تو رو پڑے کئی سوال منتشر
اگرچہ کہہ سکا نہیں وہ شخص بھیڑ میں مجھے
مگر تھا ا س کی آنکھ میں کوئی ملال منتشر
وہ بن سکا نہیں مرا عمر ؔ تبھی سکوں نہیں
مرا عروج منتشر مرا زوال منتشر
(عمر علی عمر۔جلالپور جٹاں)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔