یہ ہوں یا نہ ہوں

جاوید چوہدری  جمعرات 25 فروری 2021
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

سرتاج عزیز صاحب کو اگر لیونگ  لیجنڈ کہا جائے تو یہ غلط نہیں ہو گا‘ یہ 92سال کے ’’نوجوان‘‘ ہیں‘ پوری زندگی قومی اورعالمی اداروں میں کام کیا‘ اس وقت پوری سیاسی لاٹ میں ان سے زیادہ تجربہ کار بیوروکریٹ‘ ایکسپرٹ اور سمجھ دار شخص نہیں‘ یہ تاریخ کے ناظر بھی ہیں اور خود بھی ایک تاریخ ہیں۔

سرتاج صاحب پڑھے لکھے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں‘ دادا اور والد نے بھی کتابیں لکھی تھیں‘ وکیل بننا چاہتے تھے لیکن قائداعظم نے ان کا راستہ بدل دیا‘ یہ 1946 میں اسلامیہ کالج لاہور میں طالب علم تھے‘ قائداعظم نے 1937 سے 1947 کے درمیان گیارہ مرتبہ اسلامیہ کالج کے دورے کیے اور تین مرتبہ سرتاج عزیز صاحب کو ان سے ملاقات کا موقع ملا‘ قائداعظم 1946میں تقسیم انعامات کے لیے کالج آئے تو قائد نے طلباء سے فرمایا‘ آپ مجاہد پاکستان بن گئے ہیں‘ آپ کو اب معمار پاکستان بننا ہے۔

معمار پاکستان کا لفظ سرتاج صاحب کے دماغ سے چپک گیا‘ قائد نے یہ بھی فرمایا‘ آپ طالب علم کامرس اور انڈسٹری میں آئیں‘ پاکستان کو اس کی زیادہ ضرورت ہے‘ ان شعبوں پر ہندو قابض ہیں‘ یہ لفظ بھی سرتاج صاحب کے اندر جذب ہو گئے‘ سرتاج صاحب اپنے ساتھیوں کے ساتھ اگلے دن قائد سے ملاقات کے لیے ممدوٹ وِلا پہنچ گئے‘ سرتاج صاحب نے ان سے عرض کیا‘ آپ جاگیرداروں کو حکم دیں یہ اپنا سرمایہ کامرس اور انڈسٹری میں لگائیں‘ ہم طالب علم انڈسٹری اور کامرس میں کیا کر سکتے ہیں؟قائداعظم نے مسکرا کر جواب دیا‘ آپ لوگ اپنی تعلیم تبدیل کریں۔

اس ایک فقرے نے سرتاج عزیز کی اگلی منزل بھی طے کر دی‘ یہ دوسرے دن بارہ ساتھیوں کے ساتھ ہیلے کالج آف کامرس پہنچ گئے‘ سکھ ہیڈ کلرک نے انھیں دیکھا اور مسکرا کر کہا ’’اوئے مسلیو تسی کتھے آگئے ہو‘ یہ تم لوگوں کا کام نہیں‘‘ لیکن یہ لوگ دھن کے پکے نکلے‘ ہیلے کالج میں داخلہ لے لیا‘ وہاں جا کر پتا چلا ساڑھے تین سو طالب علموں میں صرف تین مسلمان طالب علم اور ایک مسلمان استاد ہے‘ مسلمان اس وقت کاشت کاری کرتے تھے یا پھر فوج میں بھرتی ہوتے تھے‘ یہ کاروبار کو برا سمجھتے تھے‘ انارکلی بازار پنجاب کا سب سے بڑا بازار ہوتا تھا۔

اس میں مسلمانوں کی صرف دو دکانیں تھیں‘ باقی تمام کاروبار ہندوؤں اور سکھوں کے پاس تھے‘ بہرحال سرتاج عزیز نے کامرس پڑھنا شروع کی اور پھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا‘ ہیلے کالج ہی کے دور میں سرتاج صاحب نے ’’ڈویلپمنٹ اکنامکس‘‘ کو اپنا موضوع بنا لیا‘ یہ تعلیم کے بعد سی ایس ایس کر کے ملٹری اکاؤنٹس میں آ گئے‘ بیس سال نوکری کے بعد فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن میں ڈائریکٹر بن کر روم چلے گئے‘ سرتاج صاحب گلوبل فوڈ سیکیورٹی سسٹم کے موجد بھی ہیں اور انھوں نے انٹرنیشنل فنڈ فار ایگری کلچر ڈویلپمنٹ  (IFAD) بھی بنایاتھا‘ یہ 1984 میں پاکستان واپس آئے‘ فوڈ اینڈ ایگری کلچر کے وزیر بنے اور پھر اس کے بعد دو بار وزیر خزانہ‘ ایک بار وزیر خارجہ‘ ایک بار مشیر خارجہ اور آخر میں پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین رہے‘ یہ دوبار سینیٹر بھی منتخب ہوئے اور بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر بھی رہے۔ اس وقت ان کی عمر 92سال ہے۔

ان کے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے بچے بھی جوان ہو چکے ہیں‘ یہ ان چند لوگوں میں شامل ہیں جنھوں نے پاکستان کو بنتے‘ ٹوٹتے‘ اٹھتے‘ گرتے‘ سنبھلتے دیکھا اور یہ اب اسے لڑھکتا ہوا دیکھ رہے ہیں‘ یہ پاکستان کے تمام ادوار کے عینی شاہد بھی ہیں‘ زندگی مکمل عزت اور احترام کے ساتھ گزاری‘ اپنی تنخواہ میں گزارہ کیا‘ قرض لیا اور نہ فیکٹریاں لگائیں‘ عمر بھر کی کمائی سے ایک گھر بنایا‘ وہ 2017 میں فروخت کیا اور چک شہزاد میں فارم ہاؤس بنا کر خاموشی سے زندگی گزار رہے ہیں۔

میری ان سے پہلی ملاقات 1998 میں انکل نسیم انور بیگ کی ڈائننگ ٹیبل پر ہوئی تھی اور یہ سلسلہ اس کے بعد رکتا تھمتا رہا‘ پچھلے ہفتے یہ اچانک میرے ذہن میں آئے اور میں نے انھیں فون کر لیا‘ یہ قدیم روایات کے خاندانی انسان ہیں چناں چہ ان کا دس سال پرانا نمبر چل رہا تھا‘ میں نے ان سے وقت لیا اور ان کے پاس حاضر ہو گیا‘ یہ اپنے فارم ہاؤس میں الگ تھلگ زندگی گزار رہے ہیں‘ گھر میں دفتر اور اسٹڈی بنا رکھی ہے‘ کتابیں پڑھتے اور لکھتے رہتے ہیں‘ میں نے ان سے طویل عمری اور اچھی یادداشت کا گُر پوچھا تو یہ مسکرا کر بولے ’’تین گُر ہیں‘ ڈسپلن‘ کم خوراکی اور توکل‘‘ یہ بولے ’’میں پوری زندگی صبح ساڑھے چھ بجے اٹھا ہوں‘ ساڑھے سات بجے ناشتہ کر لیتا ہوں اور ساڑھے آٹھ بجے اپنے دفتر میں ہوتا ہوں۔

میں آج کل فارغ ہوں مگر میں نے اپنے گھر میں دفتر بنا لیا ہے‘ میں روز صبح تیار ہو کربیڈ روم سے گھر کے دفتر میں آ جاتا ہوں اور لکھنے پڑھنے کا کام شروع کر دیتا ہوں‘ میں نے پوری زندگی ایک بجے لنچ کیا‘ ملازم ٹھیک ایک بجے لنچ لگا دیتے ہیں اور میں ڈائننگ ٹیبل پر پہنچ جاتا ہوں‘ دو بجے قیلولہ کرتا ہوں‘ پچھلے پہر اٹھ کر واک کرتا ہوں یا اپنے لان میں اپنے پوتے کے ساتھ گالف کھیلتا ہوں‘ شام آٹھ بجے کھانا کھا لیتا ہوں‘ نو بجے خبریں سنتا ہوں‘ ساڑھے نو بجے لیٹ جاتا ہوں اور دس بجے گہری نیند میں چلا جاتا ہوں‘ میں نے پوری زندگی بستر سے باہر دس نہیں بجنے دیے‘‘ ان کا کہنا تھا ’’میں کھانا بھی کم کھاتا ہوں۔

تھوڑا سا سالن اور تھوڑی سی روٹی‘ مرغی کا صرف شوربہ لیتا ہوں‘ فش اور ترکاری زیادہ استعمال کرتا ہوں‘ گوشت بہت کم کھاتا ہوں‘‘ ان کا کہنا تھا ’’میرے ضمیر پر کوئی بوجھ بھی نہیں‘ پوری زندگی اپنے حالات پر مطمئن اور خوش رہا ہوں‘ وقت اچھا تھا یا برا میں نے ہمیشہ اللہ پر چھوڑ دیا‘ اس توکل نے بھی مجھے طاقت دی‘‘ میں نے سرتاج صاحب کی اسٹڈی میں ایک کونے میں ایک کرسی اور میز دیکھی‘ میز پر کتاب پڑی تھی‘ میں نے اس کارنر کے بارے میں پوچھا ’’یہ مسکرا کر بولے ’’یہ میرا اسٹڈی کارنر ہے‘ میں یہاں بیٹھ کر پڑھتا ہوں۔

اس میز پر صرف وہ کتاب ہوتی ہے جو میں پڑھ رہا ہوتا ہوں‘ باقی کتابیں الماریوں میں رکھ دیتا ہوں‘‘ میں نے یادداشت کے بارے میں پوچھا‘ یہ بولے ’’یہ قدرتی ہے‘ میرے دماغ پر کوئی بوجھ نہیں ہوتا شاید یہ اس لیے بھی بہتر ہو‘‘ میں نے ان سے پوچھا ’’آپ میاں نواز شریف کو کیسے ڈسکرائب کریں گے‘‘ یہ بولے ’’ان کا اکنامک ایجنڈا اور معاشی پالیسیاں بہت اچھی ہوتی ہیں لیکن یہ ذاتی وفاداری کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں‘ یہ غلط ہے‘ ہم سب کے لیے پہلے ملک‘ پھر پارٹی اور پھر اپنی ذات اہم ہونی چاہیے‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ کی عمران خان کے بارے میں کیا رائے ہے‘‘ ان کا کہنا تھا’’ ان میں ملک چلانے کی کیپسٹی نہیں ‘ یہ سیاست اور ماحول کو اتنا گندا کرچکے ہیں کہ اب ملک کو سنبھالنا آسان نہیں ہوگا۔

یہ ہیرو رہے ہیں لہٰذا یہ دوسروں کی ماننا اور سننا اپنی توہین سمجھتے ہیں چناں چہ ملک بے مہار ہوگیا ہے‘‘ میں نے ان سے پوچھا ’’ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے‘‘ یہ فوراً بولے ’’انسٹی ٹیوشنل فیلیئر‘ ہمارے ریاستی ادارے تباہ ہو چکے ہیں‘ ملک میں نادرا اور اسٹیٹ بینک ٹھیک کام کر رہے ہیں لیکن ان کے علاوہ تمام ادارے بیٹھ گئے ہیں‘ آپ بیورو کریسی سے لے کر ریسرچ کے اداروں تک ملک کے تمام انسٹی ٹیوٹ دیکھ لیں آپ کو کوئی ادارہ فنکشنل نہیں ملے گا اور یہ اس ملک کا سب سے بڑا ڈیزاسٹر ہے، ہم جب تک اداروں کو دوبارہ قدموں پر کھڑا نہیں کریں گے‘ یہ ملک نہیں چل سکے گا‘‘ میں نے ان سے بجٹ کے بارے میں پوچھا۔

انھوں نے چار لفظوں میں بجٹ کی ساری فلاسفی بتا دی۔ ان کا کہنا تھا ’’ بجٹ بیلنس آف پے منٹ اور انفلیشن کو کنٹرول کرنے کا نام ہے‘ ملک میں اگر مہنگائی ہو گی تو ساری معیشت تباہ ہو جائے گی ‘ اسی طرح اگر( بیلنس آف پے منٹ ) آمدنی اور اخراجات میں توازن نہیں ہو گا تو بھی ملک نہیں چل سکے گا‘ تیسری دنیا کے ملکوں کو ترقیاتی کام بھی کرنا پڑتے ہیں اور یہ بھی پہلے دو کاموں کے بغیر ممکن نہیں ہوتے اور دفاعی بجٹ کے لیے بھی رقم چاہیے ہوتی ہے اور یہ بھی پہلی دو کام یابیوں کے بغیر ممکن نہیں ہوتا اور موجودہ حکومت یہ نہیں سمجھ رہی چناں چہ اس نے معیشت کا بیڑا غرق کر دیا‘‘۔

سرتاج عزیز صاحب کے لنچ کا وقت ہو گیا تھا چناں چہ وہ بے چینی سے دائیں بائیں دیکھنے لگے‘ میں نے ان سے رخصت لی اور واپس آ گیا لیکن میں راستے بھر سوچتا رہا‘ یہ علم اور تجربے کا خزانہ ہیں‘ کاش ہم ان کے تجربے اور علم سے فائدہ اٹھا سکتے مگر ہم نے ان جیسے لیجنڈ انسان کو بھی پرانی سائیکل کی طرح سائیڈ پر رکھ دیا ہے‘ سرتاج عزیز جیسے لوگ لیبارٹریوں میں نہیں بنائے جا سکتے ‘ یہ لوگ آرڈر پر بھی دستیاب نہیں ہوتے‘ یہ حالات کی گود میں پیدا ہوتے ہیں اور وقت ان کی پرورش کرتا ہے۔

یہ لوگ اپنی ذات میں یونیورسٹیاں ہوتے ہیں‘ کاش ہم ان جیسے لوگوں کی قدر اور قیمت کا اندازہ کر سکتے لیکن جس ملک میں یونیورسٹیاں جہالت کی لیبارٹریاں بن چکی ہوں اس میں سرتاج عزیز جیسے لوگوں کی کیا ضرورت ہے؟ یہ ہوں یا نہ ہوں ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا اور یہ وہ رویہ ہے جو کاروانوں کے دلوں سے احساس زیاں بھی کھرچ کر نکال دیتا ہے‘یہ قوموں کو تباہ کر دیتا ہے اور ہم تباہ ہو رہے ہیں‘ ہم مانیں یا نہ مانیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔