- انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی نسبت روپیہ تگڑا
- حکومت نے 2000 کلومیٹر تک استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت دیدی
- کراچی: ڈی آئی جی کے بیٹے کی ہوائی فائرنگ، اسلحے کی نمائش کی ویڈیوز وائرل
- انوار الحق کاکڑ، ایمل ولی بلوچستان سے بلامقابلہ سینیٹر منتخب
- جناح اسپتال میں خواتین ڈاکٹروں کو بطور سزا کمرے میں بند کرنے کا انکشاف
- کولیسٹرول قابو کرنیوالی ادویات مسوڑھوں کی بیماری میں مفید قرار
- تکلیف میں مبتلا شہری کے پیٹ سے زندہ بام مچھلی برآمد
- ماہرین کا اینڈرائیڈ صارفین کو 28 خطرناک ایپس ڈیلیٹ کرنے کا مشورہ
- اسرائیل نے امن کا پرچم لہرانے والے 2 فلسطینی نوجوانوں کو قتل کردیا
- حکومت نے آٹا برآمد کرنے کی مشروط اجازت دے دی
- سائفر کیس میں امریکی ناظم الامور کو نہ بلایا گیا نہ انکا واٹس ایپ ریکارڈ لایا گیا، وکیل عمران خان
- سندھ ہائیکورٹ میں جج اور سینئر وکیل میں تلخ جملوں کا تبادلہ
- حکومت کا ججز کے خط کے معاملے پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان
- زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر 8 ارب ڈالر کی سطح پر مستحکم
- پی ٹی آئی کا عدلیہ کی آزادی وعمران خان کی رہائی کیلیے ریلی کا اعلان
- ہائی کورٹ ججز کے خط پر چیف جسٹس کی زیرصدارت فل کورٹ اجلاس
- اسلام آباد اور خیبر پختون خوا میں زلزلے کے جھٹکے
- حافظ نعیم کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری نہ کرنے پر الیکشن کمیشن کو نوٹس
- خیبر پختونخوا کے تعلیمی اداروں میں موسم بہار کی تعطیلات کا اعلان
- اسپیکر کے پی اسمبلی کو مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین سے حلف لینے کا حکم
مقبوضہ کشمیر پر مودی کی اے پی سی ناکام ہوگئی، وزیرخارجہ
اسلام آباد: وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ 2019 کے غیرقانونی اقدامات کے بعد بھارتی خواب خاک میں مل چکے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ہندوستان میں 24 جون کو دہلی میں 14 کشمیری قائدین کو مدعو کیا گیا، دہلی کی نشست میں مقبوضہ جموں و کشمیر کے مستقبل پر بے نتیجہ گفتگو ہوئی، دہلی کی نشست میں کل جماعتی حریت کانفرنس کو نہ دعوت دی گئی، نہ موجود تھے، دہلی نشست سے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے جان لیا کہ کشمیری دہلی سے دور فاصلے پر ہیں۔ کل جماعتی حریت کانفرنس نے ہمیشہ حق خودارادیت کی بات کی، حریت رہنماؤں نے مسئلہ کشمیر کے سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق دیرپا حل کی بات کی۔
اس خبرکوبھی پڑھیں: مودی حریت قیادت کو جیلوں میں بند کرکے کانفرنس کا ڈرامہ کررہا ہے
وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ دہلی کی بیٹھک، گفتن، نشستن، برخاستن کی عمدہ مثال تھی اور یہ ناٹک تھا، اس سے بھارت کا بین الاقوامی تشخص شدید متاثر ہوا اور مودی کی شخصیت پر سوال اٹھائے گئے، ہندوستان اور مودی نے خفت مٹانے اور بہتری کے لیے دہلی ڈرامہ کیا گیا، مشترکہ کشمیری قیادت بلائی گئی تو اس نے بھی 5 اگست 2019ء کے غیرقانونی اقدامات کو واپس لینے کا مطالبہ کیا، دہلی نشست سے تاثر ملتا ہے کہ کشمیر سے مکمل ریاستی تشخص بحالی کا اظہار کیا گیا ہے، اور 2019 کے غیرقانونی اقدامات کے بعد بھارتی خواب خاک میں مل چکے ہیں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ دو سال سے بھارتی سپریم کورٹ میں کشمیر سے متعلق مقدمہ زیر التواء ہے، اگر سرکاری کشمیری رہنما مطمئن ہوتے تو وہ کبھی سپریم کورٹ نہ جاتے، دہلی نشست میں کہا گیا کہ ہمارا اعتماد ختم ہو چکا ہے، کشمیری بہت غصے میں ہیں، نالاں، تکلیف اور کرب میں ہیں، تضحیک محسوس کر رہے ہیں، تاثر دیا گیا مقبوضہ جموں و کشمیر میں خوشحالی آئے گی، جب کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں باغ اجڑ گئے، سیاحت برباد ہوگئی، آبادی کا مالی نقصان ہوا، مقبوضہ جموں و کشمیر میں 50 فیصد صنعت بند پڑی ہے، وادی میں دوسالوں سے مکمل محاصرہ برقرار ہے، کشمیری قیادت قید، اور متعدد کو نظر بند کیا ہوا ہے، ماورائے عدالت قتل عام جاری ہے، انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں۔
وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کا معاملہ او آئی سی، یورپین یونین، انسانی حقوق کمیشن میں اٹھایا، سلامتی کونسل کے صدر، سیکرٹری جنرل، صدر جنرل اسمبلی سے معاملہ اٹھایا، دنیا میں جہاں موقع ملتا ہے وہاں سلامتی کونسل قراردادوں کے تحت معاملہ اٹھاتے ہیں۔
شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ افغانستان میں اقوام متحدہ امن فوج کی تعیناتی ہمارے علم میں نہیں، ترکی سے توقع کی جا رہی ہے کہ کابل کے ہوائی اڈے پر سیکیورٹی ذمہ داریاں برقرار رکھیں۔ افغانستان میں تشدد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے، افغان حکومت بھی اس کی کافی حد تک ذمہ دار ہے، پاکستان مستحکم اور پرامن افغانستان چاہتا ہے، امریکہ پاکستان کا افغان امن عمل میں مثبت کردار کا معترف ہے، دنیا پاکستان کے کردار کو بھلا نہیں سکتی۔
وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جوہری اثاثوں سے متعلق پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں، ہمارے دفاعی اثاثے ہمارے اپنے دفاع کیلئے ہیں، ہمارے کوئی جارحانہ عزائم نہیں ہیں، کون نہیں چاہتا کہ دنیا جوہری ہتھیاروں سے پاک ہو، جوہری امور میں سیکیورٹی ماحول، طاقت کا توازن، تنازعات، دیگر امور کو دیکھا جاتا ہے، پاکستان کے تذویراتی تحمل کے امور اپنی جگہ موجود ہیں، وزیراعظم کے بیان کو اگر اس تمام تناظر میں دیکھا جائے تو سمجھنے میں مشکل نہیں ہوگی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔