ہم ایسا کیوں نہیں کرسکتے ؟

شبیر احمد ارمان  اتوار 27 جون 2021
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

عوامی جمہوریہ چین ، موجودہ چین کوکہتے ہیں اور جمہوریہ چین سے مراد تائیوان اور اس سے ملحقہ علاقے ہیں ، چین جو ایشیا کے مشرق میں واقع ثقافتی اور قدیم تہذیب کا علاقہ ہے۔ چین دنیا کی سب سے پرانی تہذیبوں میں سے ایک ہے، جو آج ایک کامیاب ریاست کے روپ میں موجود ہے۔ اس کی ثقافت چھ ہزار سال پرانی ہے۔

جنگ عظیم دوم کے بعد ہونے والی چین کی خانہ جنگی کے اختتام پر چین کو دو ملکوں میں تقسیم کر دیا گیا، ایک کا نام عوامی جمہوریہ چین اور دوسرے کا نام جمہوریہ چین رکھا گیا۔ عوامی جمہوریہ چین کے ما تحت مین لینڈ، ہانگ کانگ اور میکاؤ، جب کہ جمہوریہ چین کا کنٹرول تائیوان اور اس کے ملحقہ علاقوں پر تھا۔ چین کی تہذیب دنیا کی ان چند تہذیبوں میں سے ایک ہے جو بیرونی مداخلت سے تقریباً محفوظ رہیں اور اسی وقت سے اس کی زبان تحریری شکل میں موجود ہے۔ چین کی کامیابی کی تاریخ کوئی چھ ہزار سال قبل تک پہنچتی ہے۔

صدیوں تک چین دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ قوم اور مشرقی ایشیا کا تہذیبی مرکز رہا ، جس کے اثرات آج تک نمایاں ہیں۔ اسی طرح چین کی سرزمین پر بہت ساری نئی ایجادات ہوئی ہیں جن میں چار مشہور چیزیں یعنی کاغذ ، قطب نما ، بارود اور چھاپہ خانہ شامل ہیں۔ چین کا رقبہ 9596961ہے ، آبادی ایک ارب چالیس کروڑ ہے ، دارالحکومت بیجنگ ہے ، سرکاری زبان معیاری چینی ہے ، طرز حکمرانی یک جماعتی ریاست ، جمہوری مرکزیت ، وحدانی ریاست ۔ چین کی یوم تاسیس یکم اکتوبر 1949 ہے ۔

چین کی ترقی کا اصل راز سیاسی لیڈرشپ کی قائدانہ صلاحیت کی ترغیب کے ساتھ نظریاتی ترغیب میں مضمر ہے ، چین کی ترقی میں بہترین منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد میں پیشہ ور افراد کا کلیدی کردار رہا ہے۔ چین نے عوام کو تعلیم سے آراستہ کر کے آبادی کے قیمتی سرمائے کو استعمال کیا، ہنر مند افراد کو امریکا سمیت یورپ کے دیگر ترقی یافتہ ممالک میں سائنس ، ٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں میں مہارت حاصل کرکے واپس اپنے ملک آنے کا پابند بنایا ، چین اپنی زبان کو ترقی کا ضامن گردانتا ہے ، کرپٹ افراد کو سزائیں دی گئیں، اس کے برعکس پاکستانی اپنے نظریات ایمان ، اتحاد اور نظم و ضبط کے بارے میں کم ہی شعور رکھتے ہیں۔

ملک دشمن قوتوں نے پاکستان میں آزادی رائے کے نام پر اس حربے کو استعمال کر کے ملک میں سیاسی انتشار پیدا کیا ، پاکستان کی حالت اس لیے تبدیل نہ ہو سکی کیونکہ اقتدار کی باریاں محض وراثت ،جاگیر دار سیاستدان اور چند خاندانوں کے گرد گھومتی رہی ہے جو خود کوکو عقل قل سمجھتے، پاکستانی نوجوانوں کو اگر اپنی قوت اور صلاحیت کا اندازہ ہوجائے تو ہمارا ملک بڑی معیشت اور قوت بن کر ابھر سکتا ہے۔

چین میں عوامی ثقافتی انقلاب کا فلسفہ جو کچھ بھی ہے ،چینی قوم ایک عظیم امتزاج کے ساتھ اپنی جمہوری آئیڈیالوجی پر سختی سے کاربند ہے۔ انھوں نے عملی حقائق اور ضروریات کو نمایاں اہمیت دی ، ساتھ ہی مقتدر حلقوں نے مختلف امور پر تبادلہ خیال کے بعد کچھ چیزیں طے کر لیں تو پھر اس کو عوام پر بے رحمی سے نافذ کیا گیا۔

چین کے عوام نے اپنے فلسفے یعنی ’’ اپنی طاقت پر انحصار کرو ‘‘ کے تحت خواتین اور مردوں کو مل جل کر محنت کرنے کی ترغیب دی۔ چینی عوام اور حکمران ایک پیچ پر ہیں، چین نے ہزاروں چینی کاریگروں ، انجینئرز، شعبہ ہائے زندگی کے ہنر مند افراد کو امریکا سمیت یورپ کے دیگر ممالک بھیجا گیا اور ان کو سائنس ، ٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں میں مہارت حاصل کرکے واپس اپنے ملک آنے کا پابند بنایا۔

پاکستان کی حالت اس لیے تبدیل نہ ہو سکی کیونکہ اقتدار کی باریاں محض وراثت ، جاگیر دار سیاستدان اور چند خاندانوں کے گرد گھومتی رہی ہے جو خود کوکو عقل کل سمجھتے ہیں۔ چین نے انقلاب کے بعد آبادی پر کنٹرول کیا، سیاسی استحکام کے بغیر ملک میں معاشی ، اقتصادی اور تخلیقی عمل رک جاتا ہے۔ پاکستانی عوام اور حکمرانوں کو سمجھنا چاہیے کہ آزادی رائے کو اپنے ریاستی اداروں کے خلاف استعمال نہ کریں ورنہ ریا ست کو ہی کھوکھلا کریں گے، جمہوریت کے اس کھوکھلے پن سے بچنے کے لیے لازمی ہے کہ احتساب کے عمل پر سختی سے کاربند رہا جائے۔

چینی انقلاب میں کچھ بڑے اہداف تھے، سرکاری سوچ سے اختلاف اور کرپٹ افراد کو سزائیں دی گئیں۔ چین کی ترقی میں انقلابی لیڈروں کی سوچ کا بھی بنیادی کردار رہا۔ ان رہنمائوں نے چین کی ترقی میں ، تعلیم ، صنعت ، سائنس اور سرمایہ کاری میں جدت پیدا کی ، چین اشتراکیت سے سرمایہ دارانہ نظام کی طرف آگیا اور انھوں نے اپنی آبادی کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔ چین کی پہلی ہی کھیپ میں 10ہزار طلبہ کو داخلے دیے گئے اس کے بعد چین کے لاکھوں طلبہ نے ترقی یافتہ ممالک کی درس گاہوں میں تربیت حاصل کی اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

چین نے بھی اپنے ملک میں بین الاقوامی معیار کے تعلیمی ادارے بنائے اور تعلیم عام کی۔ چین نے مرکزی منصوبہ بندی کے نظام کو محدود کر کے طلب و رسد اور مارکیٹ فورسز کو کام کرنے کا زیادہ موقع دیا ، بلدیاتی انتخابات میں صرف جماعتی امیدواروں کو ہی نہیں بلکہ غیر جماعتی امیدواروں کو بھی موقع دیا ، چینی قوم خود کو غیر مہذب نہیں سمجھتی ، چینی زبان ہی کو اپنی ترقی کا ضامن گردانتی ہے جب کہ ہمارے ہاں مہذب ، تہذیب و تمدن سے آراستہ ، تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ بننے کے لیے انگریزی کو شرط اول سمجھا جاتا ہے۔

یہ بات حقیقت ہے کہ چینی قوم نے اپنی آبادی کے بوجھ کو قوت بنا کر اپنے معاشی نظام کو مستحکم کیا ، اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یقین دہا نی کرائی کے وہ ماں ، باپ اور اولاد کو رزق دیتا ہے، اس خطے میں پاکستان کو بنانے میں اللہ تعالیٰ کا راز پوشیدہ ہے اور ہمارے نبی ﷺ نے بھی اس خطے سے ٹھنڈی ہوائیں آنے کی بشارت دی ہے۔ پاکستان میں آبادی کا 67 فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے ،کسی بھی قوم کا روشن مستقبل اس کے نوجوانوں کی قوت میں ہی پوشیدہ ہے، پاکستانی نوجوانوں کو اگر اپنی قوت اور صلاحیت کا اندازہ ہوجائے تو پاکستان ایک بہت بڑی معیشت اور قوت بن کر ابھر سکتا ہے ۔

مستقبل کے اعداد وشمار کے مطابق ایشیا اور افریقا تیزی سے اپنی اقتصادی قوت کو مضبوط بنا رہے ہیں۔ سب سے بڑھ کر اسلام کے آفاقی نظام کو اپنا کر ہم ترقی و کامرانی کی راہ پر گامزن ہوسکتے ہیں لیکن ہم ایسا کیوں نہیں کرسکتے ؟یہی سوال اہم ہے جس کا جواب ہمارا فرسودہ نظام ہے جسے ہم نے آزادی کے بعد بھی اپنا یا ہوا ہے اور پاکستان کے حصول کے مقاصد کو فراموش کر چکے ہیں اور اپنی قومی زبان اردو کے بجائے بدیسی زبان انگریزی کو ہی ترقی کی ضامن سمجھتے ہیں جب کہ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز ان کی قومی زبان ہے جو انھوں نے اپنایا ہوا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔