ارکانِ پارلیمنٹ کو فوج نے سیکیورٹی بریفنگ کیوں دی؟

ایمان ملک  جمعـء 2 جولائی 2021
حالات و واقعات آنے والے وقت میں گمبھیر صورتحال کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

حالات و واقعات آنے والے وقت میں گمبھیر صورتحال کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

جیسے ہی افغانستان کے مسئلے کا حل بذریعہ مذاکرات نکلتا ہے، اس کے ساتھ ہی مسائل کا ایک نیا سلسلہ اس خطے کو خوش آمدید کہنے کو تیار دکھائی دے رہا ہے۔ امریکی فوج کے انخلا کے بعد بڑے پیمانے پر تشدد کے سنگین امکانات نہ صرف افغانستان کو متاثر کریں گے بلکہ اس کا شکار پڑوسی ریاستیں، خاص طور پر پاکستان بھی ہوگا جسے سلامتی کے حقیقی خدشات لاحق ہیں۔

اس صورت میں یہ بالخصوص خطرات کی گھنٹی کے مترادف ہوگا کہ اگر کابل میں موجود افغان حکومت (جس نے بہترین وقت میں ملک پر سخت کنٹرول برقرار رکھا ہے) اب دارالحکومت پر افغان طالبان کے ممکنہ حملے کا مقابلہ کرنے سے قاصر رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان کی پارلیمنٹ میں اِن کیمرہ اجلاس کے دوران ملک کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ملک کی منتخب قیادت کو بریفنگ دی گئی۔

جب یہ سوال پوچھا گیا کہ اجلاس کیوں بلایا جارہا ہے؟ تو وزیراعظم کے معاون بابر اعوان نے کہا کہ تمام فریقین پارٹیوں کے سربراہوں نے بجٹ اجلاس کے دوران اپنی تقاریر میں افغانستان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا تھا اور اب ان قانون ساز ارکان کی تشویش کے باعث ان کو پاکستان کی مغربی سرحد کے پار موجود سیکیورٹی حالات کے بارے میں آگاہ کیا جائے گا۔

بہرحال، پاکستان کی تشویش بجا معلوم ہوتی ہے کیونکہ یکم مئی سے، کہ جب امریکی اور نیٹو افواج نے افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلانا شروع کیں، اب تک طالبان نے افغانستان کے 407 اضلاع میں سے 69 اضلاع بشمول شمالی صوبے کے علاقوں پر بھی قبضہ کرلیا ہے، جو ماضی میں کبھی باغیوں کی حدود اور حکومت کے مضبوط گڑھ کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ یقیناً یہ تمام حالات و واقعات آنے والے وقت میں گمبھیر صورتحال کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔

علاوہ ازیں، پاکستان کےلیے یہ بات اس لحاظ سے بھی پریشان کن ہے کیونکہ ہزاروں سخت گیر، پاکستان مخالف دہشت گرد اس وقت افغانستان میں پناہ مانگ رہے ہیں، اور اگر افغانستان کی صورتحال یوں ہی تواتر سے بگڑتی رہی تو ان دہشت گرد اور غیر ریاستی عناصر کو یہاں تباہی پھیلانے کےلیے مکمل آزادی مل جائے گی۔ اسی لیے پاکستانی دفتر خارجہ نے پیر کو نشاندہی کی تھی کہ کالعدم ٹی ٹی پی سے تعلق رکھنے والے تقریباً 5,000 دہشت گردوں کی افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں۔ انہوں نے کابل کے ایک بیان پر کہا کہ ٹی ٹی پی اس ملک میں سرگرم عمل نہیں۔ مزید یہ کہ اقوام متحدہ اور امریکا سمیت، دیگر فریقین نے بھی اس حقیقت کی تصدیق کی ہے کہ سخت گیر عسکریت پسند بڑی تعداد میں اس وقت افغانستان میں روپوش ہیں۔

واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ باڈی نے رواں سال کے شروع میں نشاندہی کی تھی کہ ٹی ٹی پی اور مختلف اتحادی گروپ افغانستان میں سرگرم ہیں، جبکہ اس سے قبل متعدد بار امریکی کانگریس کےلیے افغان اسٹڈی گروپ نے بھی اسی طرح کے مشاہدات کیے ہیں۔

مزید برآں، ان گروہوں کے درمیان خود ساختہ دولت اسلامیہ/ داعش کی ’خراسان شاخ‘ بہت فعال ہوچکی ہے، جس نے افغانستان کے اندر متعدد خونی حملے کیے ہیں۔ یہاں یہ سوال پوچھنا تو بنتا ہے کہ دنیا کی سرکردہ فوجی طاقتیں، جو اب اڑان بھرنے کو پر تول رہی ہیں، وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی دو دہائیاں اس ملک میں گزارنے کے باوجود افغانستان میں سرگرم عسکریت پسند گروہوں کو کیوں اکھاڑ پھینک نہیں سکیں؟

بہرحال، پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے پاکستانی پارلیمنٹ کو افغانستان سے متعلق ممکنہ خطرات کے بارے میں آگاہ کیا جانا یقیناً خوش آئند بات ہے کیونکہ افغانستان میں افراتفری اور خانہ جنگی کے ممکنہ تسلسل نمٹنے کےلیے پاکستانی ریاست کے تمام ستونوں کو اب ایک ساتھ مل کر، ایک مکمل حکمت عملی کے تحت کام کرنا ہوگا۔ پاکستان نے ماضی میں غیر ملکی مقامات سے اسپانسر ہونے والی سرگرم دہشت گرد تنظیموں کے ہاتھوں اپنے عام شہریوں اور باوردی فوجیوں کو کھونے کی بھاری قیمت ادا کی ہے مگر… اب اور نہیں!

اگرچہ سیکیورٹی کی صورتحال میں مقامی طور پر خاصی حد تک بہتری آئی ہے لیکن خطرہ اب بھی برقرار ہے، جس کا اندازہ گزشتہ ہفتے لاہور میں ہونے والے بم دھماکے سے لگایا جاسکتا ہے۔

ایک بار جب غیر ملکی افواج افغانستان سے نکل جائیں گی تو ایسے میں پاکستان مخالف دہشت گرد تنظیموں کے پاس پاکستانی سرزمین پر حملے کرنے کے کئی مواقع ہوں گے، لہٰذا پاکستان کے تمام ریاستی اداروں کو چوکس رہنا چاہیے۔

بشمول اس کے، اب پاکستان کو نئے افغان پناہ گزینوں کے بحران کے ساتھ ساتھ افغانستان کی سر زمین سے لانچ ہونے والے عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے کےلیے بھی ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے، جو افغانستان میں انخلا کے بعد کی صورتحال سے واضح طور پر پیدا ہوتے اور ایک بار پھر سر اٹھاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ لہٰذا مذکورہ بالا صورتحال کے پیش نظر پاکستانی سیکیورٹی اداروں اور حکام بالا کے سامنے ان ابھرتے دہشت گرد گروہوں کو پاکستانی سرزمین پر مزید بے گناہوں کا خون بہانے سے قبل روکنے اور انہیں غیر جانبدار بنانے سے متعلق ایک بڑا چیلنج موجود ہے جس سے وہ یقیناً کامیابی سے نمٹ لیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایمان ملک

ایمان ملک

بلاگر نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد پاکستان سے پیس اینڈ کانفلیکٹ اسٹڈیز میں ایم فل ڈگری کی حامل اور دفاعی امور سے متعلق ایک تھنک ٹینک میں بطور ریسرچ ایسوسی ایٹ آفیسر خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ یونیٹار، اوسی، یوسپ، یونیورسٹی آف مرڈوک آسٹریلیا جیسے نامور اداروں سے انسداد دہشت گردی اور سیکیورٹی اسٹڈیز میں متعلقہ کورسز کر رکھے ہیں۔ ان کی مہارت کی فیلڈز میں ڈیفنس اینڈ اسٹرٹیجک اسٹڈیز اور پیس اینڈ کانفلیکٹ اسٹڈیز شامل ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔