خوش آمدید راجہ صاحب

سلیم خالق  پير 13 ستمبر 2021
ملک میں غیرملکی ٹیمیں تو پہلے ہی آنا شروع ہو گئی ہیں رمیز اس سلسلے کو آگے بڑھانے کے اہل ہیں- فوٹو:فائل

ملک میں غیرملکی ٹیمیں تو پہلے ہی آنا شروع ہو گئی ہیں رمیز اس سلسلے کو آگے بڑھانے کے اہل ہیں- فوٹو:فائل

’’پی سی بی کا سربراہ کسی کرکٹر کو ہی ہونا چاہیے مگر یہاں کبھی ڈاکٹر، ریٹائرڈ فوجی،سیاستدان، صحافی، سفارتکار یا کاروباری شخصیت کو ہی عہدہ سونپ دیا جاتا ہے جو اتنے کامیاب ثابت نہیں ہوتے،اسی لیے کرکٹ میں ہمیں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘‘

کچھ عرصے قبل میں ایک نجی محفل میں شریک تھا وہاں کرکٹ پر بحث چھڑ گئی اور ایک صاحب نے یہ الفاظ ادا کیے، اب دوسرے صاحب درمیان میں آئے اور طنزیہ لہجے میں سوال اٹھایا کہ اچھا ایساکرکٹربھلا کون ہوگا؟کوئی نام تو بتائے جو پڑھا لکھا ہونے کے ساتھ کھیل کی سمجھ بوجھ بھی رکھتا ہو۔

’’رمیز راجہ‘‘ ایک سے زائد افراد نے یہ بات کہی مگر بیشتر کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ کمنٹری سے اچھی خاصی رقم کما لیتے ہیں شاید ہی کرکٹ بورڈ میں آئیں، میں بھی اس تاثر سے متفق تھا، اس لیے چیئرمین کیلیے جب پہلی بار رمیز راجہ کا نام سامنے آیا تو بڑی حیرت ہوئی اور یہی سوچا کہ وہ مان کیسے گئے۔

وزیر اعظم عمران خان کی تمام کرکٹرز دل سے عزت کرتے ہیں، انھیں کرکٹ چھوڑے برسوں بیت گئے لیکن اب بھی سابق کھلاڑی انھیں اپنا کپتان ہی سمجھتے ہیں، اسکیپر نے اگر کہہ دیا تو رمیز کیسے انکار کر سکتے تھے، انھوں نے ملکی کرکٹ کو ٹھیک کرنے کا بیڑا اٹھا لیا اور امید ہے کہ اپنے مقصد میں کامیاب رہیں گے۔

ہمارے ملک میں جانے والے کی برائی اور نئے آنے والے کی خوشامد عام بات ہے لیکن ہم صحافیوں کا کوئی ایجنڈا نہیں ہوتاکہ بے مقصد کسی کی تعریف یا مخالفت کریں، رمیز راجہ پیرکو عہدہ سنبھال رہے ہیں انھیں اپنے کو ثابت کرنے کا پورا موقع دینا چاہیے، احسان مانی بھی یقیناً ملکی کرکٹ کے ساتھ مخلص تھے مگر بدقسمتی سے اچھی ٹیم نہیں بنا سکے۔

انھوں نے معاملات ٹھیک کرنے کی ہرممکن کوشش کی مگر جب تک کھلاڑی ٹھیک نہ ہوں کوئی کپتان کچھ نہیں کر سکتا،اسی لیے مانی صاحب کو مسائل کا سامنا کرنا پڑا، رمیز راجہ نے ایچی سن کالج سے تعلیم حاصل کی ہے، اگر میں غلط نہیں تو انھوں نے ایم بی اے کیا ہے،پاکستان میں اتنے تعلیم یافتہ کرکٹرز کم ہی ہوں گے۔

تعلیم نے انھیں شعور دیا جس کا انھوں نے کرکٹ فیلڈ میں بھی مکمل استعمال کیا، جس دور میں میچ فکسنگ عروج پرتھی ان کا دامن ایسی خرافات سے پاک رہا، انھوں نے کبھی ملک کو نہیں بیچا،ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ کرپٹ کرکٹرز کے خلاف آواز اٹھاتے رہے،اب چیئرمین بن رہے ہیں تو داغدار ماضی والوں کیلیے حالات اتنے سازگار نہیں رہیں گے،جو ایک بار کرپشن میں پڑ جائے اسے دوبارہ ملک کی نمائندگی کا موقع نہیں ملنا چاہیے، یہ بالکل درست سوچ ہے،امید ہے اقتدار میں آنے پر رمیز راجہ اس حوالے سے کوئی واضح پالیسی بنائیں گے۔

اس وقت ان کیلیے سب سے بڑا چیلنج اچھی ٹیم کی تشکیل ہے، انھیں باصلاحیت افراد کی خدمات حاصل کرنی چاہیئں جو مقاصد کے حصول میں مدد فراہم کریں،عہدہ سنبھالنے سے قبل ہی ان کیخلاف خوب منفی خبریں پھیلائی گئیں انھیں پتا چلانا چاہیے کہ اس کے پیچھے کون تھا، پرانے وقتوں میں راجہ بھی محلاتی سازشوں کا شکار ہوتے رہے ہیں کرکٹ کے راجہ کو اس کا خیال رکھنا ہوگا، وہ ماضی میں بورڈ کے سی ای او بھی رہ چکے ہیں، کھیل کے بعدکمنٹری کی وجہ سے ان کی دنیائے کھیل میں بہت اچھی ساکھ ہے۔

غیرملکی کرکٹرز اور بورڈز انھیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں،جب ملکی میدان برسوں ویران رہے تو رمیز نے پاکستان کا امیج بہتر بنانے کیلیے بہت کوشش کی تھی جس میں انھیں کامیابی بھی ملی، وہ ایم سی سی ورلڈ کرکٹ کمیٹی کے بھی رکن ہیں، آئی سی سی بھی ان کی بات کو اہمیت دیتی ہے، ایک ایسی شخصیت کے چیئرمین بننے سے پی سی بی کو بہت فائدہ ہوگا، انٹرنیشنل ایونٹس کی میزبانی پانے کی کوششیں بھی کامیاب ہو سکتی ہیں،ملک میں غیرملکی ٹیمیں تو پہلے ہی آنا شروع ہو گئی ہیں رمیز اس سلسلے کو آگے بڑھانے کے اہل ہیں۔

ان کے عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہی ورلڈکپ اسکواڈ کا اعلان ہو گیا اور کوچز تبدیل ہو گئے، پتا نہیں اس میں ان کی رائے کس حد تک شامل تھی البتہ آنے کے بعد ان کو ٹیم کی کارکردگی بہتر بنانے کیلیے ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے،بورڈ کے بعض آفیشلز کی تبدیلیاں ناگزیر لگتی ہیں، اس کے ساتھ ہائی پرفارمنس سینٹر، سلیکشن کمیٹی وغیرہ میں بھی ردوبدل درکار ہے،انھوں نے گذشتہ دنوں کرکٹرز سے ملاقات میں انھیں جارحانہ کرکٹ کھیلنے اور ناکامی کی صورت میں بھی مکمل سپورٹ کرنے کا یقین دلایا ہے۔

یہ اچھا اقدام ہے فوری طور پر تو نہیں لیکن جلد اس کے مثبت نتائج سامنے آ سکتے ہیں،ڈومیسٹک کرکٹ سسٹم کی تبدیلی سے جو مسائل سامنے آئے رمیز راجہ کوان سے وزیر اعظم کو آگاہ کر کے بہتری کی کوشش کرنی چاہیے، پی ایس ایل کے معاملات بہتر بنانا بھی ان کیلیے بڑا اہم ٹاسک ہوگا، فرنچائز مالکان رمیز راجہ کے چیئرمین بننے سے بہت خوش ہیں، انھیں لگتا ہے کہ اب دیرینہ مسائل کا خاتمہ ہو جائے گا، انھیں ٹیموں کو مایوس نہیں کرنا چاہیے فنانشل ماڈل سمیت جائز مسائل ختم کریں، وہ غیر ملکی اسٹار کرکٹرز کو لیگ میں شرکت کیلیے آنے پر بھی قائل کر سکتے ہیں۔

ان سے سب کو امیدیں تو بہت ہیں توقع ہے کہ ان پر پورا اتریں گے، بس سازشی، ابن الوقت اور خوشامدی قسم کے لوگوں سے دور رہنا ہوگا، قذافی اسٹیڈیم میں اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہی انھیں سب سے پہلے اپنی آستینیں جھاڑنا ہوں گی، وہاں کا پانی خراب ہے۔

سیاستدانوں سے بڑے سیاستدان موجود ہیں ان کو بھی اب اپنی وفاداری کا یقین دلائیں گے ٹھیک اسی طرح جیسے احسان مانی کو دلایا تھا، چیئرمین کو کانوں کا کچا بالکل نہیں ہونا چاہیے، بعض لوگ اپنی پوزیشن مضبوط رکھنے کیلیے دوسروں کے حوالے سے غلط باتیں بھی پھیلاتے رہتے ہیں ان سے جتنی جلدی ہو پیچھا چھڑا لینا چاہیے،بورڈ میں خوش آمدید راجہ صاحب،آپ کو وزیر اعظم کی مکمل حمایت حاصل ہے، بیشتر سابق کرکٹرز نے تقرر کی حمایت ہی کی ہے، اب بہترین انداز میں فرائض نبھا کر ملکی کرکٹ کو بلندیوں پر لے کر جانا چاہیے تاکہ ایک دن لوگ کہیں کہ ’’دیکھا ہم نہ کہتے تھے کہ کرکٹ بورڈ کا سربراہ کسی سابق کرکٹر کو ہی ہونا چاہیے‘‘۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔