چینی طالب علم جس نے حکومت سے ٹکر لے لی

پرندوں سے محبت کرنے والے دلیر نوجوان کی جدوجہد کا احوال جس نے متنازع ڈیم کی تعمیر رکوا کر ہی دم لیا۔


September 26, 2021
پرندوں سے محبت کرنے والے دلیر نوجوان کی جدوجہد کا احوال جس نے متنازع ڈیم کی تعمیر رکوا کر ہی دم لیا۔ فوٹو: فائل

WASHINGTON: یہ ستمبر2013ء کی بات جب تئیس سالہ طالب علم گو بوجیان لوزہی دریا کی وادی میں پہنچا۔

دریائے سرخ(Red River) چین کے صوبے ،یوننان سے نکلتا اور ویت نام کے سینے پہ بہتے بحرالکاہل میں جا گرتا ہے۔یہ دریااپنے آغاز میں پچاس ساٹھ میل دور تک لوزہی دریا کہلاتا ہے۔اس دریا کی وادی میں ہمہ قسم درختوں اور پودوں کی کثرت ہے۔گو بوجیان انہی نباتات کا مطالعہ کرنے وہاں پہنچا تھا۔وہ علم نباتیات میں ایم اے کر رہا تھا۔اب مقامی نباتات پر تحقیق کر کے اس نے ایم اے کا اپنا مقالہ تیار کرنا تھا جس کے بعد ڈگری کا حقدار قرار پاتا۔

پہاڑوں کے دامن میں ہونے کے سبب وہ علاقہ الگ تھلگ واقع ہے۔وہاں چند سو کسان گھرانے آباد ہیں جو کھیتوں اور باغات میں کام کرتے ۔گو بوجیان ایک دیہاتی کے گھر ٹھہر گیا۔وہ ایک پُرجوش طیور بین بھی تھا،یعنی دوربین سے پرندوں کی حرکات وسکنات کا مشاہدہ کرنے والا۔اسے پرندے بہت پسند تھے جو میٹھی بولیاں بولتے اور اپنی معصوم حرکتوں سے دیکھنے والوں کا دل بہلاتے ہیں۔اسی لیے گو بوجیان کو شہر میں رہنا پسند نہ تھا جہاں پرندے بہت کم رہ گئے ہیں۔ٹریفک کے دھوئیں اور انسانوں کی کثرت نے بیشتر پرندوں کو شہروں سے ہجرت کرنے پہ مجبور کر دیا۔

اس علاقے میں مگر پرندے کثیر تعداد میں موجود تھے۔یہ دیکھ کر گو بوجیان خوش ہو گیا۔یوننان میں ویسے بھی پہاڑوں کی کثرت ہے۔ان سے نکلنے والے دریا بھی دھرتی پہ جا بجا پھیلے ہیں۔ان کے مابین سرسبز وادیاں واقع ہیں۔وہ ہر قسم کے درختوں اور پودوں پہ مشتمل جنگلوں کا تحفہ اپنے دامن میں رکھتی ہیں۔ان جنگلوں میں رنگ برنگ چرند پرند ملتے اور اللہ تعالی کی عظمت و حقانیت عیاں کرتے ہیں۔دریائے لوزہی کے کنارے بھی اسّی کلومیٹر طویل ایک گھنا جنگل موجود تھا۔گو بوجیان کو اسی جنگل میں گھومتے پھرتے منفرد نباتات پہ تحقیق کر کے اپنا مقالہ تیار کرنا تھا۔

ایک اہم انکشاف
وہ اپنا کام کرنے کے بعد طیّور بینی میں مشغول ہو جاتا جو رب کائنات کی حمد وثنا کر رہے ہوتے۔ان کی حرکات تھکے محقق کو تروتازہ کر دیتیں۔اتفاق سے گھر کا مالک دیہاتی بھی طیور بین تھا۔وہ صحن میں باقاعدگی سے دانہ ڈالتا تاکہ پرندے وہاں آ جا سکیں۔وہ فطرت کے نزدیک رہنا پسند کرتا تھا۔ایک دن اس نے نوجوان مہمان کو بتایا کہ علاقے کے جنگل میں سبز مور(Green peafowl)بھی ملتا ہے۔یہ سن کر گو بوجیان کی آنکھیں حیرت واستعجاب سے پھیل گئیں۔بہ حیثیت ماہر طیور بین وہ یہ سچائی جانتا تھا کہ چین کے جنگلوں سے سبز مور غائب ہو چکے ہیں۔مگر دیہاتی دعوی کر رہا تھا کہ اس وادی کے جنگل میں یہ پرند بستا ہے۔اس کی حیرانی کی انتہا نہیں رہی۔

گو بوجیان نے اپنے میزبان سے کہا کہ اسے اس بات پہ یقین نہیں آ رہا۔البتہ وہ سبز مور کا پر لا دے تو پھر یہ دعوی برحق ہو گا۔دیہاتی نے ہامی بھر لی۔لیجیے ایک ہی دن بعد اس نے مطلوبہ پر نوجوان طالب علم کے ہاتھوں میں تھما دیا جو دم بخود اسے دیکھنے لگا۔میزبان نے بتایا کہ جنگل کے اندرون جایا جائے تو تھوڑی سی کوشش پہ سبز موروں کے اترے پر مل جاتے ہیں۔اب گو بوجیان کو یقین ہو گیا کہ دیہاتی سچ بول رہا ہے۔دریائے لوزہی کی ودای کا جنگل سبز مور کی قیام گاہ ہو سکتا ہے۔

جنگل سے معدوم
مور بیشتر عرصہ زمین پہ رہنے والے مخصوص پرندوں کے خاندان ''فیسیا نائڈیا''(Phasianidae)سے تعلق رکھتا ہے۔اس خاندان میں مور کے علاوہ تیتر،بٹیر،جنگلی مرغ اور پالتو مرغ شامل ہیں۔مور کی تین اقسام ہیں: ہندوستانی نیلا مور،سبز مور اور افریقی مور جو صرف دریائے کانگو کی وادی کے جنگلوں میں ملتاہے۔ہندوستانی مور اب دنیا کے کئی علاقوں میںآباد ہے۔سبز مور جنوب مشرقی ایشیا کے علاقوں کا باسی ہے۔ایک زمانے میں چین کے بیشتر جنگلوں میں مل جاتا تھا۔مگر جب جنگل کٹ گئے اور وہاں انسانی تعمیرات نمودار ہو گئیں تو وہ اپنا مسکن کھو بیٹھا۔

جب گو بوجیان دریائے لوزہی کی وادی میں پہنچا تو چین کے سبھی ماہرین حیوانیات میں مشہور ہو چکا تھا کہ سبز مور شاید ہی کسی جنگل میں موجود ہو۔ان کی اکثریت کو یقین تھا کہ یہ پرندہ اب چین میں زندہ نہیں رہا۔یہ ایک صدمہ انگیز بلکہ فطرت سے محبت رکھنے والے چینیوں کے لیے شرمندگی کی بات تھی۔وجہ یہ کہ تاریخی طور پہ سبز مور چین کی تہذیب وتمدن میں اہم مقام رکھتا ہے۔

قدیم چینی باشندے خوبصورت پروں والے خوشنما سبز مور کو خوش بختی کی علامت گردانتے تھے۔اسی لیے چینی مصّور سبز مور کی دلکش تصاویر بناتے جو ہاتھوں ہاتھ بک جاتیں۔لوگ انھیں گھروں اور دکانوں میں لٹکاتے تاکہ ان پہ خوش بختی کا نزول ہو سکے۔چینی بادشاہ بھی سبز مور کو مقدس پرندہ مانتے۔شاہی تخت کے بازو اکثر مور کی شکل کے بنائے جاتے۔مذید براں جب درباریوں کو عزت وشان عطا کرنا ہوتی،تو انھیں اجازت مل جاتی کہ وہ اپنی ٹوپیوں میں سبز مور کے پر لگا لیں۔اس پر کے حامل درباری عزت وقدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے۔

چین سے 1912ء میں بادشاہت کا خاتمہ ہو گیا۔جلد ہی محتلف طاقتور گروہوں کے مابین اقتدار کی جنگ چھڑ گئی۔یہ خانہ جنگی 1949ء تک جاری رہی۔اس نے مملکت میں قانونی نظام کا ڈھانچا تباہ کر دیا اور لوگوں کو من مانی کرنے کی چھوٹ ملی رہی۔چناں چہ شکاریوں نے جنگلوں میں سبز مور کا بے دریغ شکار کیا۔وجہ یہ کہ لوگ نہ صرف مور کے پر خریدتے بلکہ اس کا گوشت بھی شوق سے کھاتے تھے۔اندھا دھند شکار کا نتیجہ یہ نکلا کہ کئی جنگلوں سے سبز مور کا نام ونشان مٹ گیا۔رفتہ رفتہ چین کی نئی نسل یہ بھول بھال گئی کہ کبھی سبز مور کو چینی معاشرے میں اہمیت حاصل تھی۔اور یہ کہ ملک میں سبز مور نامی خوبصورت پرندہ پایا جاتا تھا۔صرف طیور بین اور فطرت پسندوں نے اس انوکھے پرندکو یاد رکھا۔جب وہ کسی جنگل میں جاتے تواس پرندے کو ضرور تلاش کرتے۔ نہ پاتے تو اداس وغمگین ہو جاتے۔

دور دراز واقع وادی
اب گو بوجیان کو علم ہوا کہ دریائے لوزہی کی وادی میں سبز مور بستا ہے تو فطرتاً وہ خوشی سے باغ باغ ہو گیا۔پر ملتے ہی اندرون جنگل پہنچا تاکہ بہ چشم خود اس اللہ پاک کی حسین تخلیق کا نظارہ کر سکے۔کچھ تلاش بسیار کے بعد ایک جگہ اسے سبز موروں کا جوڑا نظر آ ہی گیا۔خوشی سے اس کا دل دھڑکنے لگا ۔اس نے ان کی تصاویر بھی اتاریں۔جب گو بوجیان نے تصویریں اپنے طیور بین دوستوں کو بھجوائیں تو وہ بھی حیرت زدہ رہ گئے۔ان کے وہم وگمان میں نہ تھا کہ سبز مورکسی جنگل میں موجود ہوں گے۔گو بوجیان معتجب تھا کہ آخر ماہرین حیوانیات اس بات سے بے خبر کیوں ہیں کہ دریائے لوزہی کی وادی میں سبز مور پائے جاتے ہیں؟ اس نے سوچ بچار کی تو اسے وجوہ معلوم ہو گئیں۔

دراصل دریائے لوزہی کی وادی دور دراز واقع ہے۔وہاں سڑکیں ہیں نہ بجلی اور گیس۔علاقے میں ناخواندہ کسان رہتے ہیں۔وہ اپنے کھیتوں میں اجناس اُگا کر اور مویشی پال کر گذارہ کرتے ہیں۔وہ اس امر میں دلچسپی نہیں لیتے کہ مقامی جنگل میں کون سے چرند پرند ملتے ہیں اور ان کی کیا اہمیت ہے۔البتہ مقامی باشندے ان حیوانوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتے بلکہ انھیں تحفظ دیتے ہیں۔وہ جانتے ہیں کہ جنگلی حیات بھی انسانی زندگی اہم حصہ ہے۔

جنگل میں سبز موروں کی موجودگی نے بہرحال گو بوجیان کو مسّرت سے بھر دیا۔جب اس کا کام ختم ہوتا،وہ دوربین اور کیمرا اٹھائے پسندیدہ پرندوں کے پاس جا پہنچتا۔سبز مور بھی جلد اس کے شناسا بن گئے۔وہ ان کے قریب جا کر خوبصورت تصاویر اتار لیتا۔یہ تصویریں پھر اس کے قریبی حلقے میں گردش کرتی رہتیں۔چین میں نئی نسل نیلے مور ہی سے واقف ہے جو بھارت سے لائی گئی۔ان کی اکثریت نہیں جانتی کہ سبز مور چین کا اپنا پرند ہے۔مگر وہ چینی جنگلوں سے ناپید ہو چکا۔گو بوجیان نے اب مقامی باشندوں کے تعاون سے دریائے لوزہی کی وادی میں اسے دریافت کر کے اہم کارنامہ انجام دیا تھا۔یوں چینی عوام کو اپنا محبوب پرندہ واپس ملنے کا امکان پیدا ہو گیا۔گو بوجیان نے تحقیق کر کے جانا کہ سبز مور کا مسکن جنگل تقریباً ''190''مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلا ہے۔

ایک بری خبر
نباتیات کے اس پُرجوش اور فطرت کے عاشق نوجوان ہی نے اندازہ لگایا کہ جنگل میں پانچ سو سبز مور موجود ہیں۔یہ چین میں اس حسین پرندے کی واحد اور سب سے بڑی پناہ گاہ ہے۔سڑکوں کی عدم موجودگی کے سبب انسان کثیر تعداد میں اس جنگل کا رخ نہیں کرتے۔شاید اسی لیے سبز مور نے وہاں اپنا مسکن بنا لیا۔ان کی سابقہ رہائش گاہیں تو کبھی کی انسانی سرگرمیوں کی نذر ہو چکیں۔قبل ازیں بتایا گیا کہ سبز مور جنوب مشرقی ایشیا کے دیگر ممالک میں بھی ملتا ہے۔مگر سبھی ملکوں میں نت نئی تعمیرات کے سبب ان کے مسکن ختم ہو رہے ہیں اور سبز مور دور دراز مقامات میں محصور ہو چکے۔ایک حالیہ رپورٹ کی رو سے دنیا میں صرف دس ہزار سبز مور رہ گئے ہیں۔

گویا فطرت کا نمائدہ یہ خوبصورت پرندہ معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔ اگر اس کی بقیہ پناہ گاہوں کو محفوظ نہ کیا گیا تو سبز مور جنگل سے مٹ جائے گا۔لوگ پھر اسے صرف چڑیا گھروں میں دیکھ سکیں گے جہاں پنجروں میں قید یہ پنچھی اپنی بد قسمت پر نوحہ کناں ہو گا۔کرہ ارض پہ حیوان انسان کے پڑوسی ہیں۔انسانوں کا فرض ہے کہ اپنے مفادات پورے کرنے کی خاطر انھیں نقصان نہ پہنچائیں،ان کے گھر نہ اجاڑیں۔ہر جانور کسی نہ کسی طرح انسان کے لیے مفید ہے۔

گو بوجیان ایک ماہ قیام کرنے وادی آیا تھا۔وہ اپنی تحقیق مکمل کر کے واپس اپنے سرکاری ادارے (Xishuangbanna Tropical Botanical Garden)چلا گیا۔وہ اس سرکاری ادارے میں بطور نباتیات داں ملازمت کرتا تھا۔یہ ادارہ چین کی اکیڈمی آف سائنسز کا ذیلی ادارہ ہے۔تاہم وہ سبز موروں کی اٹکھیلیاں اور ان کی معصومانہ حرکات نہ بھول سکا۔لہذا ہر مہینے ایک دو دن گذارنے وادی پہنچ جاتا اور خوشگوار وقت گذارتا۔

چند ماہ بعد وہ حسب معمول وادی پہنچا تو اسے وہاں بستے کسان فکرمند نظر آئے۔تشویش کا سبب پوچھا تو افشا ہوا کہ حکومت نے علاقے میں دریا پر ڈیم بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ وہاں واقع جنگل کا بڑا حصہ ڈیم کے پانی میں ڈوب جائے گا۔کسان اب کسی دوسری جگہ نقل مکانی کا سوچ رہے تھے۔اس خبر نے مگر گو بوجیان پہ گویا بجلی گرا دی۔اسے احساس ہوا کہ اگر ڈیم بنا تو سبز مور اپنی آخری پناہ گاہ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔وہ بیچارے پھر کہاں جاتے؟

نوجوان چینی عجب مخمصے میں پھنس گیا۔چین میں یک جماعتی حکومت ہے۔وہ کوئی فیصلہ کر لے تو اسے تبدیل کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ویسے بھی تب چینی حکومت کا نظریہ یہ تھا کہ معاشی ترقی کے لیے ہر اقدام بجا ہے۔لہذا کسی منصوبے سے ماحولیات یا جنگلی حیات کی قیام گاہ متاثر ہوتی ہے تو اس مسئلے کی کوئی اہمیت نہیں۔حکومت چین ہر حال میں اپنی مملکت کو معاشی سپرپاور بنانا چاہتی تھی۔

پریشان حال گو بوجیان اس جگہ پہنچا جہاں ڈیم بن رہا تھا۔دیکھا کہ ڈیم بنانے کی مشینری پہنچ چکی۔مزدور درخت کاٹنے اور پتھرجمع کرنے میں محو ہیں تاکہ دریا میں ابتدائی پشتہ بن سکے۔ایک جگہ زمین صاف کر کے عارضی قائم گاہیں تعمیر ہو رہی تھیں۔غرض وہاں میلا لگ گیا تھا۔حکومت ڈیم بنانے کا تہیہ کر چکی تھی اور بظاہر کوئی نہ تھا جو اسے روک پاتا۔

گو بوجیان کا تعلق نچلے متوسط طبقے سے ہے۔اس نے محنت کی ،دل لگا کر پڑھا اور اچھی سرکاری ملازمت پانے میں کامیاب رہا۔جانتا تھا کہ اگر ڈیم کی مخالفت کی تو عمدہ ملازمت جا سکتی ہے۔مگر اس کے ضمیر نے خاموش رہنا گوارا نہ کیا۔وہ سبز مور کی پناہ گاہ مٹنے کا تماشا چپ چاپ کیسے دیکھتا ؟وہ واپس گھر پہنچا اور دوست احباب سے مشورہ کیا۔بیشتر کا یہی کہنا تھا کہ وہ حکومت کے کام میں رکاوٹ نہ ڈالے۔اگر اس نے طاقتور اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لی تو صرف اسے ہی نقصان ہو گا۔

جنگ نہیں پیار
صورت حال حوصلہ شکن تھی مگر گو بوجیان نے ہمت نہ ہاری۔اس نے ڈیم سے معتلق معلومات جمع کیں۔یہ ڈیم پن بجلی کی خاطر بن رہا تھا۔وفاقی حکومت کے علاوہ صوبائی حکومت بھی اس کی منظوری دے چکی تھی۔ڈیم 3.7ارب یوان کی لاگت سے بننا تھا۔حکومتوں نے کثیر رقم مختص کر دی تھی۔وہ پانچ چھ سال میں مکمل ہو جاتا۔اسے بنانے کا ٹھیکہ سرکاری کمپنیوں کو ملا تھا۔یہ معلومات پا کر گو بوجیان غوروفکر میں کے سمندر میں غرق ہو گیا۔وہ ہر قیمت پہ سبز مور کی جائے رہائش محفوظ رکھنا چاہتا تھا۔اسے نہ صرف بطور طیّور بین پرند سے عشق تھا بلکہ وہ چینی تہذیب کی اس اہم نشانی کو تحفظ دینے کا متمنی تھا۔بنیادی سوال یہ تھا کہ حکومت کو کیسے قائل کیا جائے کہ یہ ڈیم نہیں بننا چاہیے تاکہ ایک قومی پرندے کی پناہ گاہ بچ سکے؟

ایک راستہ تو یہ تھا کہ وہ حکومت کے خلاف دھواں دار پریس کانفرنس کرتا۔ماحولیاتی تنظیموں کی مدد سے شہر وقصبات میں حکومت کے خلاف مظاہرے کراتا کہ ڈیم کی تعمیر روکنے کے لیے اس پہ دبائو ڈالا جا سکے۔اخبارات اور ویب سائٹس میں مضامین لکھ کر حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتا۔گویا وہ حکمران طبقے کے خلاف جنگ چھیڑ دیتا۔گو بوجیان کو علم تھا کہ مناقشے کی راہ اپانے پر اس کی نوکری جاسکتی ہے۔اسے مگر اپنی ملازمت کی زیادہ پروا نہیں تھی۔اس کی فکر وعمل کا محور یہ نکتہ تھا کہ کیا حکومت سے تصادم کے بعد ڈیم کی تعمیر رک جائے گی؟

سوچ بچار کر کے گو بوجیان اس نتیجے پر پہنچا کہ حکومت سے جنگ کا راستہ منفی اور شرانگیز ہے۔اس راہ پہ چل کر جیت کا امکان بھی بہت کم تھا۔لہذا اس نے مثبت راہ اپنا کر ڈیم کی تعمیر رکوانے کا فیصلہ کیا۔وہ دلائل اور شواہد کی قوت سے حکمران طبقے کو قائل کرنا چاہتا تھا کہ سبز مور کی آخری پناہ گاہ محفوظ رکھنے کی خاطر ڈیم منصوبہ ختم کرنا ضروری ہے۔گو بوجیان کو اُمید تھی کہ مثبت راستہ اپنا کر فتح کا امکان روشن ہو جائے گا۔

جدوجہد کا آغاز
نباتیات میں اب پی ایچ ڈی کرتے طالب علم کی حکمت عملی اچھوتی نہ تھی، چین میں عام لوگ عموماً لڑائی جھگڑے سے پرہیز کرتے ہیں۔ان کی سعی ہوتی ہے کہ بات چیت اور افہام وتفہیم سے مسئلہ حل ہو جائے۔خصوصاً حکومت سے اختلاف ہو جائے تو ہر فریق صبروبرداشت کا مظاہرہ کرتا ہے۔وجہ یہ کہ چینی سمجھتے ہیں،اگر وہ آپس میں لڑنے لگے تو بیرون ممالک ان کا مذاق اڑایا جائے گا۔لہذا وہ مذاکرات سے مسئلے کا حل نکالنے کو ترجیع دیتے ہیں۔اس حکمت عملی کی رو سے گو بوجیان نے طے کیا کہ چین کی طاقتور حکومت پہ حملہ نہیں کرنا بلکہ ہر ممکن طریقے سے اسے اپنی بات سمجھانی ہو گی۔

وہ پھر ہر ماہ وادی میں آنے جانے لگا۔اس نے سبز موروں کی تازہ تصاویر لیں۔وادی میں مقیم کسانوں سے انٹرویو لیے۔موروں کے پَر جمع کیے۔یوں چھ ماہ یہ دستاویزی ثبوت اکھٹے ہو گئے کہ دریائے لوزہی کی وادی میں سبز مور رہائش رکھتے ہیں۔اور یہ کہ وہ ان کی آخری پناہ گاہ ہے۔یہ دستاویز مرتب کرنے کے بعد گو بوجیان نے ایک رپورٹ بنائی اور اسے ڈیم سے منسلک تمام وفاقی محکموں اور سرکاری کمپنیوں کے دفاتر بھجوا دیا۔ڈیم بنانے میں محو کمپنیوں کو بھی دستاویزی ثبوت بھجوائے گئے جن کا لب لباب یہ تھا کہ ڈیم بننے سے سبز مور جیسا قیمتی پرندہ بے گھر ہو جائے گا۔لہذا اس کی تعمیر روک دی جائے۔ گو بوجیان کو صرف ایک محکمے سے یہ جواب موصول ہوا کہ وہ معاملے کا جائزہ لے رہے ہیں۔اس کے بعد خاموشی چھا گئی۔

عوام کی عدالت میں
ڈیم کی تعمیر جاری رہی۔دریا پر پشتہ بنایا جانے لگا۔کمپنیوں نے بھاری مشینری سائٹ پر پہنچا دی۔اس صورت حال نے گو بوجیان کو مایوس کر دیا۔وہ بتاتا ہے:''یونیورسٹی میں میرے سپروائزر مشہور ماہر نباتیات تھے۔ان کا کہنا تھا کہ ڈیم کی تعمیر سے حکومت کو معاشی فوائد ملیں گے۔اس لیے حکومت کبھی یہ منصوبہ ختم نہیں کرے گی۔''

گو بوجیان نے مگر ہمت نہ ہاری ۔کہتا ہے:''ہمارے ہاں یہ کہاوت مشہور ہے کہ پہاڑ پہ یقنناً شیر رہتا ہے لیکن ہم اس پہ چڑھ کر دم لیں گے۔''اس نے دوبارہ اپنی تحقیقی رپورٹ مع تازہ ثبوتوں کے متعلقہ وزارتوں کو بھجوا دی مگر نتیجہ ڈھاک کے پات نکلا۔آخر ڈپریشن زدہ ہو کر گو بوجیان نے اپنی داستان الم لکھی اور مارچ 2017ء میں اسے چین کی ممتاز سوشل میڈیا سائٹ،وی چیٹ پر پوسٹ کر دی۔گویا اس نے اپنی داستان جدوجہد چینی عوام کے سامنے عیاں کر ڈالی۔یہ قدم انقلاب انگیز ثابت ہوا۔

اس کی داستان شی زینونگ(Xi Zhinong) نے بھی پڑھی جو چین میں جنگلی حیات پر فلمیں بنانے والا مشہور فلمساز ہے۔اس کو ''چین کا ڈیوڈ ایٹن برو'' کہا جاتا ہے۔2001ء میں بی بی سی نے اسے سال کے بہترین وائلڈ لائف فوٹوگرافر کا اعزاز دیا تھا۔شی زینونگ نے نایاب پرندوں پہ ایک خوبصورت فلم بنائی تھی جو ایمی ایوارڈ کے لیے نامزد ہوئی۔اب اس نے گو بوجیان کی کہانی پڑھی تو بہت متاثر ہوا۔ وہ داستان جہد اس نے اپنے وائبو اور اپنی کمپنی، وائلڈ چائنا فلم کے اکائونٹ پر شئیر کر دی۔بیس لاکھ چینی ان اکاوٗنٹس کے فالوور تھے۔

گو بوجیان کی داستان چین کے سوشل میڈیا میں چکر کھانے لگی۔ لاکھوں لوگ سبز مور کے بارے میں گفتگو کرنے لگے۔ انھیں یہ جان کر ازحد مسّرت ہوئی کہ چین کے ایک جنگل میں آج بھی یہ حسین پرندہ موجود ہے۔ رفتتہ رفتہ اس پُرزور عوامی مطالبے نے جنم لیا کہ ڈیم کی تعمیر روک دی جائے تاکہ قومی تہذیب وثقافت کی نشانی ایک پرند اپنی آخری پناہ گاہ میں محفوظ رہے۔غرض پرنٹ،الیکٹرونک اور سوشل میڈیا میں اجاگر ہونے سے سبز مور پورے چین میں موضوع ِگفتگو بن گیا۔حتی کہ چینی حکومت کی سرکاری نیوز ایجنسی،Xinhua نے بھی اس پہ ایک مضمون شائع کیا۔یہ میڈیا کا مثبت روپ ہے کہ وہ انسان دوست مہمات اور تحریکوں کو سب کے سامنے اجاگر کر دیتا ہے۔

قانون سے مدد
چین میں ''فطرت کے دوست''(Friends of Nature)تحفظ ماحولیات کی سب سے بڑی تنظیم ہے۔وہ ماحول دشمن منصوبے روکنے کے لیے اکثر مغربی تنظیموں کی طرح عدلیہ کا سہارا لیتی ہے۔چناں چہ تنظیم ڈیم کی تعمیر رکوانے کے لیے عدالت پہنچ گئی۔یہ جولائی 2017 ء کی بات ہے۔اس کا استدلال تھا کہ ڈیم کی تعمیر سبز مور کی جائے رہائش تباہ کر دے گی۔چینی پرند کی خوش قسمتی ہے کہ تب تک حکمران طبقے کی سوچ بھی تبدیل ہو چکی تھی۔

دراصل اس زمانے میں بیجنگ اور دیگر چینی شہروں میں ماحولیاتی آلودگی نے سانس تک لینا دشوار بنا دیا۔تب حکومت کو احساس ہوا کہ اس آلودگی پہ قابو پانا ضروری ہے۔لہذا 2015ء میں ''تحفظ ماحولیات قانون''وجود میں آیا۔اس قانون کے ذریعے قرار پایا کہ اب جو بھی سرکاری یا نجی کمپنی کوئی تعمیراتی منصوبہ بنائے،اسے پہلے ماہرین سے یہ تحقیق کرانا ہو گی کہ منصوبہ ماحول کو نقصان نہیں پہنچا رہا۔اگر منصوبے سے ماحول کو کسی قسم کا نقصان پہنچتا،تو اسے ختم کر دیا جاتا۔یہ حکومت چین کا ایک انقلابی اور ماحول دوست قانون تھا۔

سبز مور کی پناہ گاہ بچانے میں اسی قانون نے اہم کردار ادا کیا۔ہوا یہ کہ ''فطرت کے دوست''کی وکیل ،لیو جیمنی ایک متحرک اور ذہین خاتون ہیں۔ہر مقدمے کی تحقیق وتفتیش گہرائی وگیرائی سے کرتی ہیں۔ گو بوجیان کی معیت میں تحقیق کرتے ہوئے ان کے ہاتھ ایک اہم رپورٹ لگ گئی۔ یہ ڈیم تعمیر کرنے والی سرکاری کمپنی کے بارے میں تھی۔

اس کمپنی نے بھی ماہرین ماحولیات کی خدمات حاصل کی تھیں تاکہ وہ دریائے لوزہی کی وادی کا جائزہ لے کر اپنی رپورٹ تیار کر سکیں۔انکشاف یہ ہوا کہ ماہرین ایسی کمپنی سے تعلق رکھتے تھے جس سے ڈیم بنانے والی کمپنی کے قریبی کاروباری تعلقات تھے۔ چناں چہ ماہرین نے ''سب اچھا''کی رپورٹ دی اور یہ حقیقت نمایاں نہیں کی کہ ڈیم کے تعمیر سے مقامی جنگل کا بڑا حصہ جھیل برد ہو جائے گا...اور جنگل بھی ایسا قیمتی جس میں معدومیت کے خطرے سے دوچار سبز مور رہ رہے تھے۔

جیت مل گئی
دوران مقدمہ لیو جیمنی، گو بوجیان اور دیگر نے اسی رپورٹ کو نشانہ بنایا۔بلکہ وہ یہ معاملہ دستاویزی شہادتوں کے ساتھ چین کی وفاقی وزرات ماحولیات میں لے گئے۔وہاں اعلی سطحی اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ ڈیم بنانے والی کمپنیوں نے دھوکا دہی اور فراڈ سے کام لیا۔لہذا ڈیم کی تعمیر رکوا دی گئی۔کمپنیوں کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری ہو گیا۔سبز مور اور ماحولیات کے دوستوں کو یوں پہلی فتح مل گئی۔

وسط 2018ء سے یوننان کے صدر مقام،قنمنگ کی زیریں عدالت میں مقدمہ چلنے لگا۔عدالت میں تمام دستاویزی ثبوت پیش کیے گئے جن کی رو سے ڈیم بننے کا مطلب جنگل کی تباہی تھا۔ججوں نے ماہرین ماحولیات کے نکات سے اتفاق کرتے ہوئے مارچ 2020ء میں ڈیم کی تعمیر پہ پابندی لگا دی۔تعمیراتی کمپنیوں کو مگر ڈیم پہ خرچ ہوئے اپنے کروڑوں یوآن کا غم کھائے جارہا تھا۔انھوں نے فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔

اب سبز مور و ماحولیات کے پرستار سب سے اعلی چینی کورٹ میں تعمیراتی کمپنیوں سے نبردآزما ہوئے۔وہاں ججوں نے فیصلہ دیا کہ حکومت ڈیم تعمیر کر سکتی ہے...مگر سبز مور کی پناہ گاہ کو کوئی گزند نہیں پہنچنا چاہیے۔یہ واضح طور پہ گو بوجیان اور دیگر ماحول دوستوں کی فتح تھی۔ڈیم بنانے سے لازماً جنگل زیرآب آ جاتا۔اسی لیے سرکاری کمپنیوں نے منصوبہ آخر ترک کر دیا۔

جس جگہ ڈیم تعمیر ہونا تھا،آج وہاں بھاری مشینری کا نام ونشان نہیں۔پشتے کو بھی دریا کی تیز وتند لہریں بہا لے گئیں۔یہ عیاں ہے کہ ترقی کو سب سے مقدم رکھنے والی حکومت چین نے تسلیم کر لیا کہ سبز مور کی آخری پناہ گاہ برقرار رکھنا معاشی فوائد پانے سے زیادہ اہم ہے۔ایک منصوبے کا مادی فائدہ ہمیشہ اہم ترین نہیں ہوتا،اس کے غیر مادی پہلو بھی مدنظر رکھنا پڑتے ہیں۔

اس طرح ایک عام سے طالب علم، گو بوجیان نے اپنی ہمت،استقلال اور فطرت پسندی کے سبب چین کے انتہائی طاقتور نظام کو اپنے سامنے سرنگوں ہونے پہ مجبور کر دیا۔سبز مور کا گھر بچانے کے لیے اسے سات سال سرکاری سسٹم سے لڑنا پڑا۔اپنی توانائی اور پیسا بھی خرچ کیا۔مگر اسے میٹھا پھل ملا۔اب دریائے لوزہی کی وادی میں سبز مور آرام واطمینان سے رہتے نشوونما پا رہے ہیں۔ان کو سرکاری طور پہ تحفظ حاصل ہو چکا۔ گو بوجیان بھی چین میںقومی ہیرو کا درجہ رکھتا ہے۔

پاکستان میں بھی جنگلی حیات کے کئی بیش قیمت ارکان انسانی سرگرمیوں کی نذر ہو چکے۔مثلاً 1846ء میں آخری شیر ببر کوٹ ڈیجی میں مارا گیا۔جبکہ بلوچستان کا سیاہ ریچھ،سندھ میں آئیبکس، خیبر پختون خواہ میں اڑیال،بلتستان میں برفانی چیتا اور اندھی ڈولفن،چکور،مارخور وغیرہ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ پاکستانی حکومت اور عوام،دونوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی جنگلی حیات،اپنے پڑوسیوں کی ہر ممکن حفاظت کریں اور انھیں مٹنے نہ دیں۔یہ ہماری تہذیب وتمدن کا سرمایہ اور پاکستان کی پہچان ہیں۔کیا آپ انھیں معدوم ہونے دیں گے؟

مقبول خبریں