پنڈی سازش کیس کا آخری کردار (تیسرا اور آخری حصہ)

زاہدہ حنا  اتوار 17 اکتوبر 2021
zahedahina@gmail.com

[email protected]

اس کیس کے آخری دنوں میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے احمد انسان جو بعد میں احمد الطاف کے نام سے مشہور ہوئے وہ بھی اس مقدمے میں ملوث کر لیے گئے۔

اس مبینہ سازش کے اسیروں میں سے ظفر اللہ پوشنی آخری اسیر تھے جو پچانوے برس کی عمر میں چند دنوں پہلے زندگی کی زنداں سے رہا ہوئے۔ انھوں نے اس اسیری کی داستاں کے اختتام پر لکھا ہے۔

12 اپریل 1955 کے بعد میں نے اپنی ڈائری میں کچھ نہیں لکھا۔ ایسا بھی نہیں کہ میرے پاس وقت نہیں تھا، دراصل آنے والے دو ڈھائی مہینے کچھ اس تذبذب اور پریشانی کے عالم میں گزرے کہ کچھ بھی پڑھنے لکھنے کو جی نہ چاہتا تھا۔

15 اپریل 1955 کو سندھ چیف کورٹ نے ضمانت پر میری اور محمد حسین عطا کی رہائی کے احکام صادر کر دیے۔ 14  جولائی کو حیدرآباد کے مشہور عوامی رہنما میر رسول بخش تالپور نے ہماری ضمانت دی اور ہم اپنا بوریا بستر باندھ کر جیل کی چار دیواری سے باہر آگئے۔

میر صاحب کی کار میں بیٹھ کر ہم ان کے بنگلے پر پہنچے۔ آزاد فضا میں سانس لے کر طبیعت کو عجیب دلکش سکون نصیب ہوا۔ میر رسول بخش تالپور کا بنگلہ بہترین فرنیچر اور سازو سامان سے آراستہ تھا۔ ڈرائنگ روم کی دیواروں پر قد آدم آئینے جڑے ہوئے تھے جس کے سامنے کھڑے ہوکر میں نے بغور اپنے چہرے ، مہرے اور قد و قامت کا جائزہ لیا۔ ڈاڑھی مونڈنے والے ایک چھوٹے سے آئینے کے سوا ہمیں چار برس سے کوئی اور شیشہ میسر نہیں آیا تھا اور مجھے یہ اندازہ نہ تھا کہ جیل میں بلا ناغہ ڈنڈ پیلنے اور گولہ پھینکنے کی بدولت میں تن و توش کے اعتبار سے اچھا خاصا پہلوان بن چکا تھا۔ میر صاحب کے آراستہ و پیراستہ ڈرائنگ روم میں قدم آدم آئینے کے اندر اپنے جسم کے تنے ہوئے پٹھے دیکھ کر مجھے بہت خوشی محسوس ہوئی۔

تھوڑی ہی دیر میں جیل کے پرانے ساتھی سعید مرزا اور بدر جالنوری بھی آ دھمکے۔ خوب باتیں ہوئیں ، پرانی صحبتیں تازہ کی گئیں ، قہقہے لگائے گئے۔ شام کو ہم سب ایک فلم دیکھنے گئے لیکن عجیب بات ہے کہ کچھ لطف نہیں آیا اور ہم ایک چوتھائی سے بھی کم فلم دیکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ رات بہت دیر سے سوئے۔

صبح ابھی آنکھیں کھلی ہی تھیں کہ میر رسول بخش تالپور کے نوکر نے آ کر یہ ’’ مژدہ جانفزا ‘‘ سنایا کہ جناب باہر پولیس آئی ہوئی ہے۔ صبح کے ساڑھے نو بجے تھے جب پاکستان سیکیورٹی ایکٹ کے تحت گرفتار ہوکر ہم اپنے محبوب ’’جانقاہ ‘‘ میں واپس پہنچ گئے۔ ہمارے وکیل نے ضمانت کی درخواست دوبارہ پیش کی لیکن بدقسمتی سے سندھ چیف کورٹ میں تعطیلات شروع ہوچکی تھیں۔ لہٰذا ہمیں مزید ڈھائی مہینے جیل خانے میں گزارنے پڑھے۔ اس دوران احمد انسان اور عبد الخالق آزاد بھی آزاد کیے جاچکے تھے۔

مئی کے اواخر میں حکام نے ہمارے مہربان دوست میر رسول بخش تالپورکو ایک جھوٹے مقدمے میں پھانس کر جیل بھیج دیا اور ان کی سماجی حیثیت کو نظر انداز کرتے ہوئے انھیں ’’ سی‘‘ کلاس میں رہنے کی جگہ دی۔ میر صاحب نے اذیت اور آزمائش کا یہ زمانہ نہایت خندہ پیشانی اور حوصلہ مندی سے گزارا اور کچھ عرصے بعد ضمانت پر رہائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔

15 جون 1955 کو لاہور ہائی کورٹ نے اپنے اس فیصلے کا اعلان کیا کہ راولپنڈی مقدمہ سازش کے اسیر ضمانت پر رہا کیے جاتے ہیں اور یہ اس وقت تک آزاد رہیں گے جب تک نئی آئین ساز اسمبلی ان کے معاملات کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کرتی۔

7 جولائی کو سندھ چیف کورٹ کے احکام کے تحت ہم ایک بار پھر حیدر آباد جیل سے رہا کیے گئے اور اس بار ہمیں دوبارہ واپس نہیں جانا پڑا کیونکہ چند ماہ بعد نئی آئین ساز اسمبلی نے ہماری بقیہ سزائیں معاف کردیں اور اگر وہ معاف نہ کرتے تو بھی شاید مجھے مزید دو مہینے جیل میں گزارنے پڑتے کیوں کہ میری سزا کی اتنی ہی معیاد باقی رہ گئی تھی۔

پوشنی صاحب نے ایک ناول ’’دوڑتا چلا گیا‘‘ بھی لکھا ہے۔ اس کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے وقت کے جید صحافی فرہاد زیدی نے لکھا ’’ ظفر اللہ پوشنی نے اس ناول کے ابواب کی تقسیم میں خاصی انفرادیت کا ثبوت دیا ہے۔ یعنی انھیں صرف دو حصوں میں بانٹا ہے۔ ’’ عمر رواں ‘‘ اور ’’ عمر رفتہ کو آواز ‘‘ اور یوں انھوں نے پاکستان کی ستاون سالہ زندگی کا بڑی خوبصورتی سے احاطہ کیا ہے اور شاید یہ کہنا غلط نہ ہو کہ یہ ناول شوکت حسن ڈار کی نہیں بلکہ ایک ملک، ایک معاشرے میں سرابوں کے پیچھے دوڑنے والوں کی نمایندگی کرتا ہے۔

اتنی بھاگ دوڑ اور اتنی طویل جدوجہد کے بعد ظفر اللہ پوشنی اور ناول کا مرکزی کردار شوکت حسن ڈار دونوں ہانپنے لگے ہیں اور جیسا کے آخری باب سے اندازہ ہوتا ہے کہ حالات نے انھیں بددل بھی کردیا ہے لیکن وہ مایوس بہرحال نہیں۔ کم از کم میں اسی نتیجے پر پہنچا ہوں۔ شاید یہ بھی حسن اتفاق ہو کہ ناول کی آخری سطور میں ایک محسنہ شوکت حسن ڈار کے ساتھ ہے اور وہ دونوں ہاتھ میںہاتھ ڈالے تیز تیز چلتے جارہے ہیں اور شوکت حسن ڈار سوچ رہا ہے کہ یہی اس کا حال بھی ہے اور مستقبل بھی۔

ظفر اللہ پوشنی صاحب نے لکھنے والوں کی رہنمائی کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ناول کھنے کے لیے کن بنیادی اجزاء کی ضرورت ہوتی ہے اور انھیں اس ناول کو لکھتے وقت کن مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اول تو لکھنے والا اپنی زندگی کے نشیب و فراز پر تکیہ کرتا ہے یعنی لکھنے والے کی زندگی ہی ناول کا پہلا ڈرافٹ ہے۔ دوسرا جرنلسٹ کی قوت مشاہدہ ہے یعنی جن شخصیتوں کو اس نے حقیقت کی دنیا میں دیکھا، پرکھا، سمجھا ، ٹٹولا ، انھیں وہ اپنے ناول کے کرداروں کے روپ میں پیش کرتا ہے۔ البتہ وہ ان کرداروں کو اپنی کہانی کی ضرورت کے مطابق ڈھال لیتا ہے۔ تیسرا جز ہے تصور کی پرواز یعنی اگر ناولسٹ میں خیال باندھنے کا فقدان ہے تو پھر تحریر میں چاشنی نہیں ہوگی، لطف نہیں آئے گا۔ عرض کہ

یہ تین عناصر ہوں تو لے آئو قلم دان

اگر میں غم روزگار سے مبرا ہوتا تو شاید اس ناول کو چند ماہ میں مکمل کر لیتا ، لیکن چونکہ میں پیٹ پالنے کے لیے ایڈورٹائزنگ کے شعبے سے ابھی تک منسلک ہوں اورآفس میں روزانہ صبح سے شام تک مغز ماری کرتا ہوں۔ اس لیے ناول نگاری کے لیے وقت نکالنا میرے لیے کچھ آسان نہ تھا۔ چنانچہ اس صحیفے کو مرتب کرنے میں مجھے تقریباً تین سال لگ گئے۔ بعض اوقات مہینوں تک ایک صفحہ لکھنے کی فرصت نہیں ملتی تھی۔ صرف اتوار کو یعنی چھٹی کے روز مشق سخن ممکن ہوتی تھی۔ بہرکیف ’’سفر ہے شرط ، مسافر نواز بہتیرے‘‘ کے مصداق کاوش جاری رہی اور بالآخر مسودہ پایہ تکمیل تک پہنچ ہی گیا۔ اب میرے اس پہلے ناول کو اہل زبان اور عوام الناس کیا پذیرائی بخشتے ہیں خدا ہی بہتر جانتا ہے۔

انگریزی میں ایک ضرب المثل ہے کہ حقیقت افسانے سے بڑھ کر عجیب ہوتی ہے۔ میں اس مقولہ میں ایک اضافہ کرنا چاہوں گا کہ بعض اوقات کہانی اصل زندگی سے زیادہ سچی ہوتی ہے۔

پوشنی صاحب سے کئی ملاقاتیں رہیں۔ وہ اس عمر میں بھی نہایت چاق و چوبند تھے۔ ان کی صحت اور چستی دیکھ کر ان پر رشک کیا جاسکتا تھا۔ وہ چلے گئے ہیں اور اپنی خوشگوار یادیں چھوڑ گئے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔