حضوری باغ اور بارہ دری

ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بخاری  اتوار 21 نومبر 2021
لاہور کا تمام شہر مقبروں اور مزاروں کے پتھروں کی بدولت سنگِ مرمر کی کان بنا ہوا ہے فوٹو : فائل

لاہور کا تمام شہر مقبروں اور مزاروں کے پتھروں کی بدولت سنگِ مرمر کی کان بنا ہوا ہے فوٹو : فائل

لاہور کی مشہور بادشاہی مسجد، روشنائی دروازے، گوردوارہ اور شاہی قلعے کے درمیان سرسبز باغ میں ایک خوب صورت بارہ دری موجود ہے، یہ جگہ حضوری باغ اور یہ بارہ دری حضوری باغ بارہ دری کہلاتی ہے۔

باغ کی تعمیر 1818 میں فقیر عزیز الدین کی نگرانی میں رنجیت سنگھ نے اس جشن کے موقع پر کروائی جو اس نے کابل کے شاہ شجاع درانی سے کوہ نور ہیرا چھیننے کی خوشی میں منعقد کروایا تھا۔کہا جاتا ہے کہ اس کی تعمیر کے بعد مہاراجا رنجیت سنگھ نے جمعدار خوشحال سنگھ کے مشورے پر اس باغ کے مرکز میں بارہ دری تعمیر کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ لیکن لاہور میں سنگِ مرمر کہاں سے لایا جائے؟؟؟

نقوش لاہور نمبر کے مطابق اس موقع پر جمعدار نے کہا؛

لاہور کا تمام شہر مقبروں اور مزاروں کے پتھروں کی بدولت سنگِ مرمر کی کان بنا ہوا ہے۔ سرکار جس قدر چاہیں اس کان سے پتھر نکلوا سکتے ہیں، اور اپنے کام میں لا سکتے ہیں۔

چناںچہ بارہ دری کی تجویز منظور ہوگئی اور اس کے لیے مقبرہ زیب النساء، مقبرہ شاہ شرف، مقبرہ نورجہاں، مقبرہ آصف جاہ اور مقبرہ جہانگیر سے پتھر اکھڑوا کر لگوائے گئے۔

”کنہیا لال” اس بارے میں اپنی کتاب تاریخِ لاہور میں یوں رقم طراز ہیں؛

جب مہاراجا رنجیت سنگھ نے اس جگہ باغ لگوایا تو شوق دامن گیر ہوا کہ اس کے وسط میں ایک عمدہ بارہ دری تعمیر ہو، چوںکہ اس وقت مسلمان امراء کے بے شمار سنگین روضے و مقبرے شہر کے باہر موجود تھے، حکم ہوا کہ ان کا پتھر اتروا کر اس بارہ دری کی عمارت میں لگایا جائے۔ سب سے پہلے زیب النساء کے مقبرے کا پتھر اتروایا گیا۔ پھر مقبرہ شاہ شرف کا پتھر اترا اور بہت سے مقبروں کے پتھر اتروا کر اس عمارت کو مکمل کیا گیا۔

بارہ دری کی عمارت؛

بارہ دری کی تین منزلیں ہیں۔ ایک منزل زیرزمین بطور تہہ خانہ جب کہ دوسری و تیسری منزل سر تا پا سنگ مرمر کی بنی ہے۔

تہہ خانے میں سنگ سرخ کا زینہ ہے جس کے آگے ایک ڈیوڑھی اور تین اطراف سنگ مرمر کی دہلیزیں ہیں۔

دوسری منزل میں تین فٹ اونچا ایک کھلا چبوترہ ہے جو چاروں طرف بارہ دری کے محیط ہے۔ اس کے وسط میں ایک فٹ اونچا اور چبوترہ ہے جسے شہ نشین بھی کہتے ہیں یہاں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی نشست بہ وقت دربار ہوتی تھی۔ چاروں طرف دو دو کی جوڑی میں آٹھ زینے بنائے گئے ہیں۔

چبوترہ کلاں کے بعد اصلی عمارت شروع ہوتی ہے۔ چہار جانب تین تین دہن قالبوتی (محرابی گزرگاہیں) ساتھ دوہرے ستونوں کے نہایت دل کش معلوم ہوتے ہیں۔ ان کے ارد گرد خوب صورت نقش و نگار بنائے گئے ہیں۔ یہاں سے اندر جائیں تو تیسرا قطعہ یا دوسری بارہ دری شروع ہوتی ہے جس کے بارہ در، سنگ مرمر کی دیواریں اور منقش چھتیں بالکل باہر کی عمارت کی طرح دل فریب ہیں۔

باہر کی طرف سنگ مرمر کا چھجا بنا ہے جس کی منڈیر پر سنگ مرمر کے ستونوں کے بیچ پتھر کی جالیاں لگائی گئی ہیں۔

بارہ دری کی بیرونی محرابوں پر دونوں جانب پتھر کے مور اور گُل بوٹے بنے ہیں۔

مرکزی چبوترے کے چاروں جانب بیچ میں فواروں کی ایک ایک قطار ہے جو چلتے ہوئے بہت خوب صورت لگتے ہیں خصوصاً رات کے وقت۔

آج کل باغ کے چاروں جانب حفاظتی باڑ لگی ہے اور بارہ دری تک جانے کی اجازت نہیں ہے جو شاید ایک اچھا اقدام ہے کہ ہمارے عوام بارہ دری اور اس باغ کو منٹوں میں تہس نہس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اور اگر عوام کی رسائی ہو تو یہاں وال چاکنگ اور کچرا بھی وافر مقدار میں نظر آئے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔