قومی صحت کارڈ کو ناکامی سے بچائیے

محمد مشتاق ایم اے  پير 7 مارچ 2022
حکومت صحت کارڈ سے متعلق ابہام دور کرے۔ (فوٹو: فائل)

حکومت صحت کارڈ سے متعلق ابہام دور کرے۔ (فوٹو: فائل)

چند دن پہلے جیسے ہی ٹی وی کا سوئچ آن کیا تو اسکرین پر ایک مریض ہاتھ میں دواؤں کا شاپر تھامے حکومت وقت کو برا بھلا کہہ رہا تھا اور بتارہا تھا کہ ہمیں صحت کارڈ کا کیا فائدہ جب کوئی اسے تسلیم ہی نہیں کرتا۔ اور ہم سارے ٹیسٹ اور دوائیں باہر سے اپنی جیب سے پیسے ادا کرکے لے رہے ہیں۔

اس کے بعد چند اور مریض بھی اسی طرح اسکرین پر نمودار ہوئے اور بالکل پہلے والے مریض کی طرح اپنے دل کی خوب بھڑاس نکالی۔ ان کے بقول پرائیویٹ تو کیا ابھی سرکاری اسپتال بھی قومی صحت کارڈ کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہیں اور اگر کوئی ان سے بحث کرے تو ببانگ دہل کہتے ہیں کہ جاؤ جس سے مرضی ہماری شکایت لگاؤ۔

بہرحال اس سارے پروگرام میں اسی موضوع پر بات ہورہی تھی کہ قومی صحت کارڈ ہونے کے باوجود غریب مریضوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے اور جب حکومت اس صحت کارڈ کو اسپتالوں میں قابل استعمال نہیں بنا سکتی تو پھر اتنے نعرے لگانے کی کیا ضرورت ہے اور جب تک یہ کارڈ قابل قبول نہں ہوتا اس وقت تک اسے سامنے لایا ہی نہ جاتا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی ملک میں جتنی بھی بری جمہوری حکومت ہو، وہ اپنے دور حکومت میں کچھ ایسے اقدامات ضرور کرتی ہے جو اس کی دانست میں غریب عوام کے دلوں میں اس کی جگہ بنا سکیں اور اگلے الیکشن میں ان اچھے اقدامات کی بدولت وہ لوگوں سے دوبارہ ووٹ مانگنے کی پوزیشن میں ہوں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ حکومت چاہے جتنے بھی اچھے اقدامات کرے اپوزیشن وقت ان پر سوائے تنقید کے اور کچھ نہیں کرتی اور ان سارے اقدامات کو عوام دشمن گردانتے ہوئے لوگوں کے جذبات حکومت کے خلاف کرتی ہے۔ یہ ان دونوں کا کام ہوتا ہے اور اس ساری صورتحال میں عوام دونوں کے اقدامات اور چال چلن سے اپنی رائے قائم کرتے ہیں اور عوامی رائے ( آواز خلق) نقارہ خدا ہوتی ہے جو اپنا کام کرکے رہتی ہے۔

موجودہ حکومت کے گنتی کے اچھے کاموں میں اگر کوئی اقدام تعریف کا مستحق ہے تو وہ اسی ’’قومی صحت کارڈ‘‘ کا اجرا ہے۔ کیوں کہ اس سے پہلے اتنی بڑی سطح پر عوام کےلیے صحت کی انشورنس کا پروگرام سامنے نہیں آیا۔ اب ظاہر بات ہے کہ اتنے بڑے صحت پروگرام کےلیے حکومت کو ایک کثیر رقم قومی خزانے سے خرچ کرنا پڑی، جو بہت خوش آئند بات ہے کہ ملک کے غریب عوام کےلیے ہر خاندان کو دس لاکھ تک کے علاج کی مفت سہولت حاصل ہوئی، جن کےلیے مہنگا علاج کرانا ممکن نہ تھا۔

اب ہمارے جیسے ملکوں کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ اگر حکومت بھولے سے غریب لوگوں کی بہبود کا منصوبہ منظور کر بھی دے تو اس کے خاطر خواہ فوائد عوام تک پہنچ نہیں پاتے، جن کےلیے وہ پروگرام بنایا گیا ہوتا ہے اور اس کی سب سے بنیادی وجہ ایسے منصوبوں پر عمل درآمد کرانے والے اداروں یا نمائندوں کی نااہلی ہوتی ہے اور وہ ایسے بڑی سطح کے منصوبوں کو ملک کے طول و عرض میں نافذ العمل بنانے کےلیے یا تو درکار قابلیت سے بہرہ ور نہیں ہوتے یا اپنی سستی اور روایتی سرخ فیتے والے نظام سے باہر نکلنا ہی نہیں چاہتے اور ان کی اس ساری کارروائی میں عوام ان کےلیے بنائے گئے منصوبوں سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ اور آخر میں جہاں وہ متعلقہ اداروں کو لعن طعن کرتے سے نہیں ہچکچاتے وہیں اس حکومت پر خوب تنقید کرتے ہیں اور اکثریت تو اس سارے پروگرام کو حکومت کی طرف سے ایک فراڈ سمجھنے لگ جاتی ہے۔ حکومت بے چاری جو اتنے اچھے منصوبے پر شاباش کی مستحق ہوتی ہے، الٹا عوام کے غیظ وغضب کا شکار بن کر رہ جاتی ہے۔ گویا ’’نیکی برباد اور گناہ لازم‘‘۔ اور اس پر اپوزیشن کی تنقید حکومت کو کامیابی کے بجائے ناکامی کی طرف دھکیل دیتی ہے۔

قومی صحت کارڈ کے حوالے سے ابھی لوگوں کے ذہن میں کافی کنفیوژن پائی جاتی ہے جس کو دور کرنے کی ساری ذمے داری حکومت اور اس کے ماتحت اس کی پالیسیوں پر عمل درآمد کرانے کے ذمے دار اداروں کی ہے۔ اور اگر حکومت اپنے اس اچھے پروگرام پر عوام سے داد تحسین وصول نہیں کرتی تو یہ اس کی بہت بڑی نااہلی ہوگی۔ حکومت کو چاہیے کہ جو سرکاری اور پرائیویٹ اسپتال قومی صحت کارڈ کے پینل میں شامل ہیں، ان کو یہ کارڈ ہر صورت قبول کرنے کا پابند بنایا جائے اور خلاف ورزی کی صورت میں مریض کے پاس اپنی شکایت کے فوری ازالے کی سہولت موجود ہو۔ ہر اسپتال کے اندر اگرچہ اس حوالے سے بڑے بڑے اشتہاری بورڈ لگے ہوئے ہیں مگر ان کا کیا فائدہ جب اسپتال والے وہ کارڈ ہی قبول کرنے سے انکار کردیں اور اوپر سے یہ دھمکی کہ جاؤ جس کو مرضی شکایت لگاؤ۔ یعنی ایک چوری اور اوپر سے سینہ زوری۔

عوام کی بڑی تعداد یہ بھی سمجھ نہیں پائی کہ اس کارڈ پر او پی ڈی والا علاج نہیں ہوتا بلکہ جن بیماریوں کی فہرست دی گئی ہے صرف ان کا علاج اس کارڈ سے ہوسکتا ہے اور وہ بھی ان حالات میں جو اس حوالے سے طے کیے گئے ہیں۔ اس لحاظ سے عوام کی آگاہی مہم کی بھی اشد ضرورت ہے تاکہ لوگ کچھ سمجھے بغیر ہی اسپتال کے عملے سے جھگڑا نہ کرتے پھریں۔ اس کےلیے اصولی طور پر اس کارڈ کو فہرست میں شامل ہر اسپتال میں ایک فوکل پرسن لازمی ہونا چاہیے جو کسی بھی کنفیوژن یا شکایت کی صورت میں اس سے رابطہ کرکے معاملے کو ادھر ہی سلجھایا جاسکے، کیوں کہ دور دراز سے مریض اپنی شکایات کے ازالے کےلیے سرکاری دفاتر کے چکر تو نہیں کاٹ سکتا کہ وہ اپنا علاج کروائے گا یا سرکاری بابوؤں کے دفتروں کے چکر لگائے گا۔

حکومت یاد رکھے اس قومی صحت کارڈ کی بدنامی اور ناکامی اس حکومت کی بدنامی اور ناکامی ہوگی۔ اس لیے اسے چاہئے کہ ایک اچھا کام کرکے اسے ضائع نہ کرے اور قومی صحت کارڈ کو بدنامی اور ناکامی سے بچائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد مشتاق ایم اے

محمد مشتاق ایم اے

بلاگر ایک کالم نگار، سیاسی، سماجی اور کاروباری تجزیہ کار ہیں۔ سیاست، مذہب، تعلیم اور دوسرے سماجی موضوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ان ہی پر زیادہ لکھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر آئی ڈی @MMushtaq28 پر فالو کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔