بد اعتمادی کی بستی

وارث رضا  اتوار 3 اپريل 2022
Warza10@hotmail.com

[email protected]

سات عشرے قبل اعتماد اور بھروسے کی بنیاد پر اس بستی کو بسانے کی کوشش کی گئی تھی کیونکہ بستی کے اس پار کی جنتا اور ان کے سیاسی گرو ،وعدوں کی بے وفائی،جھوٹ،فریب اور اکثریت کے مطالبات نہ ماننے کی پالیسی پر عمل پیرا تھے۔

اس پار کے نیتا اپنی جنتا کے احتجاج اور جمہوری حق کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہی نہیں ہوا کرتے تھے،اسی بنا جنتا کی آزادی اور خودمختاری کو محفوظ کرنے کا سوچا گیا،جمہور کی آزاد رائے کو منظم کرنے کے لیے منڈلیاں بنائی گئیں،عوام کے احساسات و جذبات کو سیاست سے جوڑ کر نوجوان طلبہ خواتین اور سماج کے تمام افراد کو یکجا کرنے کی تحریک شروع کی گئی اور سیاسی و جمہوری آزادی کے لیے عوام کی جمہوری سوچ کے احترام خاطر قانونی راستے کو چنا گیا تاکہ جنتا کے حقوق کو نہ ماننے والے جابرانہ سوچ کے نیتائوں کو سمجھایا جا سکے اور عوام کو متحرک کرکے حقوق سے محرم جنتا کی سیاسی آزادی حاصل کی جاسکے۔

جب اعتماد بھری بستی قائم کرنے کے لیے اس بستی کے نیتائوں نے عوامی ہلچل پیدا کی تو ان پر سامراجی آلہ کار ہونے کے الزامات اور بیانیے جاری کیے گئے،انھیں ’’غدار‘‘ اور ملک کے جغرافیہ کو بگاڑنے کی عالمی سازش قرار دیا،خطے میں آمرانہ طور سے مسلط نیتائوں کو عوامی حقوق دینے میں اپنے جاتے ہوئے اقتدار میں حصہ دینا منظور نہ تھا لہٰذا حقوق مانگنے والی جنتا کو دھرم اور تقسیم کے گھناؤنے کھیل کا ذمے دار قرار دیا،جس کے نتیجے میں دو بیانیے نکلے،جس میں پہلا بیانیہ سیاسی حقوق کی جدوجہد کہلایا جب کہ اس کے مقابل دوسرے بیانیے میں تشدد اور انتہا پسندی کا تڑکا ڈالا گیا تاکہ سیاسی ہلچل یا سیاسی بیانیے کے مقابل بستی کے اس پار جنتا میں اشتعال دلانے کی بنیاد پر کھوکھلا بیانیہ دیا جائے،جس کا لازمی نتیجہ بلوے اور ہنگامے بنا اور یوں خطہ سیاسی تحریک سے الگ ہوکر ایک پر تشدد تحریک کی طرف بڑھنے لگا،جس کا لازمی نتیجہ سیاسی سے زیادہ انتہا پسندانہ سوچ نکلا،جس سے آج تک دونوں بستیاں نبرد آزما ہیں مگر کسی کے ہاتھ پر امن بقائے باہمی کا سراغ ہاتھ نہیں لگ رہا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ’’بد اعتمادی‘‘ کا یہ زہر کیوں اور کیسے اپنی جڑیں بناتا ہے،اور کیونکر اس ’’بداعتمادی‘‘ کو کسی بھی مہذب سماج میں اب تک درست نہیں سمجھا گیا ہے،اس کی بظاہر سادہ سی وجہ کسی کے بھروسے کو قائم رکھنا تصور کی جا سکتی ہے،مگر جب اعتماد کی پہلی بنیاد’’بھروسہ‘‘ ہی شکستہ ہو جائے یا کردیا جائے تو اسے مزید کمزور کرنے میں جھوٹ اور پروپیگنڈہ اپنے پھن کا زہر شامل کرکے اس میں تشدد اور انتہا پسندی تو ضرور لے آتا ہے مگر منتشر سماج کی یکجہتی برقرار رکھنے میں ناکام رہتا ہے،جو مجموعی طور سے فرد اور سماج کے لیے ضرر رساں سمجھا جاتا ہے،جس کی بھینٹ چڑھ کر ’’بھروسے‘‘یسا مضبوط رشتہ عدم اعتماد کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ہم کیا سماج میں شکستہ بھروسے اور اس کے نتیجے میں ’’بد اعتمادی‘‘کا شکار ہوتے رہیں گے یا کہ ہم اپنی نسلوں میں ’’بد اعتمادی‘‘ کے بیج ڈال کر ایک ذہنی مریض نسل تخلیق کریں گے؟

بظاہر ’’بد اعتمادی’‘‘ کو کسی بھی طور پسند نہیں کیا جا سکتا مگر عملی طور پر یہ ہماری بستی یا سماج کا وہ زہر بن گیا ہے جو ہمارے انفرادی رویوں کے ساتھ سیاسی معاشی اور اخلاقی رویوں کی بہتری میں گھن لگا رہا ہے،جسے ہر طور ختم کرنا سماج کی اجتماعی ذمے داری ہے،بد اعتمادی کی فضا کو صحت مند سماج میں کسی طور یا کسی بھی زاویئے میں قبول نہیں کیا جا سکتا۔ہماری بستی عشروں سے سیاسی معاشی اور سماجی طور سے ’’بد اعتمادی‘‘کے خطرناک رجحان میں جکڑی ہوئی ہے،جس کا براہ راست نقصان نئی نسل کی سیاسی اور اقتصادی محرومی کے سوا کچھ نظر نہیں آرہا۔

ہم مجموعی طور سے ’’بد اعتمادی‘‘ کی بستی کے ایسے واسی بن چکے ہیں جہاں ہر سو ہر فرد اور گروہ دوسرے کمزور پر اپنا بیانیہ ٹھونسنے جب کہ جھوٹ،مکر و فریب کو ذات کا حصہ بنا کر ’’سچ‘‘ پر حاوی ہونے کا کام لے رہا ہے،جس کے نتیجے میں ہماری سیاسی،معاشی آزادی اور رائے کے حق کی تاریخ میں صرف شکستگی ہی نظر آتی ہے،جو مجموعی طور سے ’’اعتماد اور بھروسے‘‘کی بستی کی قدروں اور اس کی اخلاقیات کو نقصان پہنچا رہی ہے۔

آجکل ہمارے اس ہنستے بستے گھروندے میں ایک مرتبہ پھر سیاسی ’’بداعتمادی‘‘کے غلغلے نے سر اٹھا رکھا ہے،گو ہم سالوں سے جنتا کے اعتماد اور رشتوں کو ہمیشہ سے شکستہ ہی کرتا چلے آرہے ہیں،کبھی اقتدار کی ہوس نے ایبڈو کا ایوبی سہارا لیا کبھی اس نے مذہبی کارڈ کا ضیائی نظام بستی کے افراد پر لادنے کی کوشش کی تو کبھی ایسا بھی ہوا کہ قدیم اور جدید ملا کر روشن خیال اور جمہوری استحکام کا مشرف زدہ نظام لانے کی کوشش کی گئی،گو تمام تر طاقت کے باوجود جنتا کے اعتماد کو ’’بد اعتمادی‘‘میں تبدیل کیا جانے لگا،مگر اس تمام کے باوجود بھی جنتا کے سیاسی شعور نے کبھی آمرانہ ’’بد اعتمادی‘‘کو قبول نہ کیا،جس کا کم سے کم نتیجہ جنتا کی رائے کو رکھا گیا اور اس کے ووٹ کو طاقت کے پردے میں بظاہر احترام دلوایا گیا،جس نے کم سے کم جمہوری تسلسل کی داغ بیل رکھی مگر پھر بھی جنتا ہمیشہ اپنے جمہوری اور آئینی حقوق سے محروم رہی۔گزشتہ دو عشروں سے گویا اعتماد کے لیے بسائی گئی بستی کو کسی حد تک اپنی رائے کا اظہار دیا گیا،مگر کچھ آمرانہ ذہن مقدس لباسوں میں پھر بھی جنتا کی نظروں سے اوجھل رہے اور کسی نہ کسی طرح جنتا کو ’’تبدیلی‘‘ کی نئی قیادت اور دلربا نعروں سے بہلائے رکھنے کا فریضہ ادا کرتے رہے۔

ہماری بد اعتمادی کی بستی میں اعتماد بحال کرنے کی تجربہ گاہ میں بلا سوچے سمجھے نیا تجربہ کرنے کی ایوبی دور کی رسم و عادت کی بیماری ہنوز اقتدار کے ایوانوں کی زینت بنی ہوئی ہے،جس سے جنتا کے اعتماد بحال ہونے سے زیادہ اقتدار کے ایوانوں کی چال سمجھنے کے رجحان نے فروغ پایا ہے،اور شاید یہی وجہ ہے کہ تبدیلی کے ہوش ربا تجربے کے بعد جب جنتا کو ملک میں کساد بازاری،بیروزگاری،اشیائے ضرورت میں اضافے اور سیاسی و سماجی اخلاقیات کی گرانی نظر آئی تو جنتا کی چیخ و پکار پر ملک کے آئین کو جاگنا پڑا اور آئینی بندش نے تجربے گاہ کے شطرنج چال نما سائنسدانوں کو خاموش رہنے پر مجبور کر دیا۔

جنتا کی آئین پر ’’اعتماد کی بستی‘‘ کو چلانے کی گو یہ ادا ’’تبدیلی پسندوں‘‘کو پسند تو نہ آئی مگر آئین کی طاقت کے سامنے مجبورا سرنگوں ہونا پڑا،گو اس درمیان تبدیلی کے ماروں نے اپنی عوام دشمن اور کمزور اقتصادی پالیسی و خراب کارکردگی کو سہارا دینے کی کوشش میں بہت ہاتھ پیر مارے،حتی کے آئین میں درج ’’بد اعتمادی‘‘ کے طریقے اور تقدس کو پامال کرنے کی کوششیں بھی کیں مگر اعتماد کی بنیاد پر بھروسہ مند جنتا نے بھی طے کر لیا تھا کہ ستّر برس قبل قائم کی جانے والی ’’اعتماد کی بستی‘‘کو ہر صورت بچانا ہے،جس کا بہترین راستہ آئین و قانون کی عملداری ہی ہے۔

تبدیلی پسندوں نے جنتا کی بد اعتمادی کو ’’بیرونی سازش‘‘ کے جذباتی کپڑے پہنانے کا آخری حربہ بھی استعمال کیا،مگر آئین کی طاقت اور جنتا کے عزم کے سامنے یہ حربہ بھی ناکام رہا۔
تاریخ کی اپنی چال اور اپنے امکانات ہوتے ہیں،تاریخ کو جھٹلانے کے مختلف طور طریقے آزمائے بھی جاتے ہیں مگر تاریخ جب اپنے اصل سچ کی جانب آتی ہے تو تاریخ اور جنتا کی طاقت بڑے بڑے گھمنڈیوں کو تاراج کر دیتی ہے،بس یہی کچھ ’’اعتماد کی بستی‘‘ میں تبدیلی کے نعروں میں بے لگام چلتی ہوئی تبدیلی کے ساتھ ہوا اور جنتا کی بے چینی کو دور کرنے کا راستہ آئین نے ’’بد اعتمادی ‘‘کے قانون سے روکا اور طے کر دیا کہ بہت زیادہ عرصے تک خوبصورت نعروں،جھوٹ بولنے کے نت نئے طریقوں سے جنتا پر حکمرانی نہیں کی جاسکتی اور نہ جنتا کے بھروسے اور اعتماد میں جذبات کو ڈال کر ذاتی یا گروہی مفاد حاصل کیا جا سکتا ہے۔

تبدیلی سرکار کو الوداع کہنے والی جنتا کا یہ واضح پیغام حکمرانی کرنے والے ہر اس فرد اور گروہ کو سمجھ لینا چاہیے جو وقتی طور عوام کے بھروسے کو استعمال کرتا ہے یا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے،آئین اور قانون کے دائرے میں جاتی تبدیلی کے ساتھ آنے والے بھی ہوشیار باش رہیں کہ عوام کے اعتماد،بھروسے کو تا دیر نہ استعمال کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان کی کسمپرسی اور تنگ دستی کو دبایا جا سکتا ہے،کیونکہ تنگ دستوں کی ہلچل جب متحرک ہوتی ہے تو ایوان کی طاقت بھی ریت کی دیوار ثابت ہوتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔