نئے آرمی چیف کی تعیناتی قواعد و ضوابط کے مطابق کی جائے گی، وزیراعظم

ویب ڈیسک  منگل 26 اپريل 2022
وزیراعظم کی افطار ڈنر کے بعد صحافیوں سے گفتگو (فائل فوٹو)

وزیراعظم کی افطار ڈنر کے بعد صحافیوں سے گفتگو (فائل فوٹو)

 اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی قواعد و ضوابط کے مطابق کی جائے گی کیونکہ یہ تقرری آئین کا تقاضہ ہے۔

اسلام آباد میں افطار ڈنر کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ افواج پاکستان کیخلاف بات اور سازش کرنے کی آئین میں سخت سزا ہے، اس معاملے میں قانون اپنا راستہ خود بنائے گا، فرح گوگی کے معاملے پر حقائق سب کے سامنے آئیں گے۔

انہوں نے کہا  کہ فیک نیوز کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے کیونکہ ماضی میں کچھ میرے خلاف غلط رپورٹنگ کی گئی جس سے پاکستان اور چین کے تعلقات خراب ہوئے، اب ہم انہیں دوبارہ سے بحال کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

’بیرونی مداخلت کے معاملے پر کمیشن بنانے پر غور کیا جاسکتا ہے‘

’امریکی سازش  کے حوالے سے قومی سلامتی کمیٹی کے دو اجلاسوں میں سازش ثابت نہیں ہوئی، اب اس معاملے کو پارلیمانی سیکیورٹی کمیٹی میں لایا جائے گا اور بیرونی مداخلت کے معاملے پر کمیشن بنانے پر بھی غور کیا جاسکتا ہے‘۔

’امریکا، چین اور قطر سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کریں گے‘

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’امریکا سے اچھے تعلقات  چاہتے ہیں اور ہم ان میں بہتری کی کوشش بھی کریں گے جبکہ ماضی کی حکومت کی بدترین سفارتی کارکردگی کے باعث سعودی عرب، قطر اور چین سے خراب ہونے والے تعلقات کو بھی بہتر کرنے کی کوشش کریں گے‘۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کے دورے  میں سعودی قیادت سے ملاقات ہوگی اس کے بعد جلد ہی دورہ چین  کریں گے۔

’ماضی میں بھی وزرائے اعظم کو دھمکیاں ملیں‘

شہباز شریف نے کہا کہ ’ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو سمیت دیگر سربراہان اور وزرائے اعظم کو دھمکیاں ملیں مگر انہیں خوش اسلوبی سے نمٹایا گیا، تاریخ میں پہلی بارآئینی طریقے عدم اعتماد سے حکومت تبدیل ہوئی  اور سے بیرونی سازش سے جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ معاشی طور مضبوط نہیں ہونگے تو ہماری بات کوئی نہیں سنے گا،  سویت یونین کے پاس اسلحے کی طاقت تھی مگر معیشت کمزوری کی وجہ سے وہ ٹوٹ گیا، ہمیں آزاد فیصلے کر کے خود کو مضبوط بنانا ہوگا‘۔

’فائلیں غائب ہونے کی تحقیقات کریں گے‘

وزیراعظم نے کہا کہ انتقام کا لفظ ہماری ڈکشنری میں نہیں ہے ، فائلیں غائب  ہونے کا علم نہیں ہے البتہ اس معاملے کی تحقیقات کریں گے، اصلاحات کے بعد ہی اگلے الیکشن ہوں گے‘۔

گندم اور پیٹرول کی سستی خریداری کے معاملے کو دفتر خارجہ سے چیک کرایا جائے گا

شہباز شریف نے کہا کہ ’روس سے پٹرول اور گندم کی تیس فیصد کم میں خریداری کا معاملہ میرے علم میں نہیں ہے،  اس بات کو دفتر خارجہ سے چیک کرایا جائے گا اور پھر ملکی صورت حال کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا جائے گا۔

’توانائی بحران گزشتہ حکومت کی نااہلی کے باعث پیدا ہوا‘

شہباز شریف نے کہا کہ گزشہ حکومت کی نااہلی کے باعث توانائی کا بحران پیدا ہوا، تیل اورایل این جی بروقت نہیں منگوائی گئی جبکہ کچھ ماہ پہلے ایل این جی 3 ڈالر میں مل رہی  تھی مگر حکومت نے وہ موقع ضائع کردیا جس کا خمیازہ ہمیں آج بحران کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔

’پی ٹی آئی اراکین سے زبردستی استعفے لیے گئے‘

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی  استعفے دے چکی ہے ، اب قوائد کے مطابق فیصلہ ہوگا، تحریک انصاف کے بہت سے اراکین نے بتایا کہ اُن سے زبردستی استعفے لیے گئے ہیں، اس معاملے پر آئینی اور قانونی پہلو سے کارروائی کی جائے گی، ہماری خواہش تو تھی کہ پی ٹی آئی استعفے نہ دیتی۔

اُن کا کہنا تھا کہ ’سابق اسپیکر اورسابق ڈپٹی اسیکر نے آئین شکنی کی ہے، صدرمملکت نے حلف کے معاملے پر جوکیا وہ ان کے عہدے کے شایان شان نہیں ہے‘۔

’نیب کے مستقبل پر غور کریں گے‘ 

نیب کے حوالے سے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ’بیورو کریٹس اور کاروباری افراد نے نیب رویے اور زیادتیوں کے خلاف شکایات کیں، ہم اُن کا جائزہ لے کر نیب کے مستقبل پر بھی غور کریں گے‘۔

 ’عمران خان جمہوری طریقے سے احتجاج کریں کوئی اعتراض نہیں‘

میاں محمد شہباز شریف نے کہا کہ عمران خان نے اسلام آبادمیں دھرنے کی کال دی ہے، جمہوری طریقے  سے احتجاج پر کوئی اعتراض نہیں تاہم عوام کو تکلیف میں  مبتلا نہیں ہونے دیں گے اور نہ کسی کو سڑکوں پر انتشار کی اجازت نہیں دینگے۔

وفاقی وزیر داخلہ کو کراچی دورے کی ہدایت

وزیراعظم نے کراچی یونیورسٹی میں پیش آنے والے افسوسناک واقعے پر رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’واقعہ افسوسناک ہے، چینی باشندوں کو بھرپور سیکیورٹی فراہم کریں ، وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ  کو بدھ 27 اپریل کو کراچی کے دورہ کی ہدایت کی ہے ، وہ کراچی میں وزیر اعلی سندھ  اور دیگر اہم شخصیات سے ملاقات کریں گے۔

 

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔