اسلام آباد ہائیکورٹ کا شیریں مزاری کو فوری طور پر رہا کرنے کا حکم

ویب ڈیسک  ہفتہ 21 مئ 2022
—فائل فوٹو

—فائل فوٹو

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما شیریں مزاری کی فوری رہائی کا حکم دیتے ہوئے وفاقی حکومت کو معاملے کی جوڈیشل انکوائری کرنے کی ہدایت کردی۔  

 اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے شیریں مزاری کی گرفتاری کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے آئی جی اسلام آباد کو شیریں مزاری کو گھر تک پہنچانے کی بھی ہدایت کی اور ریمارکس دیے کہ شیریں مزاری کو گھر میں بھی سیکیورٹی دی جائے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے شیریں مزاری کا موبائل فون و دیگر چیزیں واپس کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت کی کارروائی 

سماعت شروع ہوتے ہی شیریں مزاری نے عدالت سے استدعا کی کہ میں بات کرنا چاہتی ہوں، آج دن کو میں گاڑی میں تھی میرا راستہ روکا گیا، تشدد کیا گیا، مجھے گاڑی سے گھسیٹ کر نکالا گیا مجھے موٹروے پر لے گئے اور کبھی کہا راجن پور جائیں گے کبھی کہا لاہور جائیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پولیس کے ساتھ سادہ کپڑوں میں بھی لوگ تھے، میں 70 سالہ ہوں بیمار ہوں، پھر بھی تشدد کیا گیا، میرا موبائل فون چھین لیا گیا ابھی تک واپس نہیں دیا گیا۔ شیریں مزاری نے عدالت کو بتایا کہ کلرکہار سے مجھے واپس اسلام آباد لایا گیا، میرے بیگ کو کھول کر مکمل چیک کیا گیا ، اسلام آباد پولیس بھی تشدد کی مکمل ذمہ دار ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا گرفتاری اسپیکر کی اجازت سے ہوئی؟  یہ عدالت صرف آئین اور قانون کو دیکھے گی،  کس قانون کے تحت گرفتاری کی گئی؟ کیا ڈپٹی اسپیکر کی اجازت کے بغیر کوئی دوسرے صوبے سے آ کر گرفتار کر سکتا ہے، کیا عدالت چیف کمشنر کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرے۔

مطیع اللہ جان کے کیس کی آج تک تفتیش نہیں ہوئی، چیف جسٹس کے ریمارکس

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ مطیع اللہ جان کے کیس کی آج تک تفتیش نہیں ہوئی، ذمہ داران کا تعین کرنا ہو گا، اس معاملے کی کون انکوائری کرے گا؟۔

اس دوران شیریں مزاری کی صاحبزادی ایمان مزاری نے عدالت سے استدعا کی کہ اس معاملے کی جوڈیشل انکوائری کرائی جائے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب آئین کا احترام نہیں ہوتا تو ایسے واقعات رونما ہوں گے، ہر حکومت کا آئینی خلاف ورزیوں پر افسوسناک رویہ ہوتا تھا، افسوس کی بات ہے کہ کسی حکومت نے جبری گمشدگیوں پر کوئی ایکشن نہیں لیا۔

وفاقی حکومت کو واقعے کا علم ہی نہیں تھا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل 

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کسی کو پتہ ہی نہیں تھا کہ شیریں مزاری کو کیسے اٹھایا گیا۔ آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ میں نے آج ہی چارج لیا واقعہ پہلے ہوچکا تھا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت کو واقعے کا علم ہی نہیں تھا، عدالت جو حکم دے گی ہم عمل کریں گے۔

فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہم عدالت کے مشکور ہیں کہ عدالت نے رات اس پہر سماعت کی۔ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ سیاسی جماعت کو اب یہ ماننا پڑے گا کہ عدالت رات کو آئینی تحفظ کے لیے موجود ہے، جیسے ہی اس بات کا پتہ چلا تو ان کی فوری رہائی کے احکامات وزیر اعلی حمزہ شہباز نے جاری کیے۔

کسی کیس میں گرفتاری عمل میں لائی گئی تو رہائی کا حکم کیسے دیا گیا؟ چیف جسٹس 

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دے کہ اگر کسی کیس میں گرفتاری عمل میں لائی گئی تو رہائی کا حکم کیسے دیا گیا؟۔ ایڈوکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ شیریں مزاری استعفی دے چکی ہیں اس لیے اسپیکر سے اجازت نہیں لی۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وہ بے شک استعفی دے چکی ہوں، مگر انہیں ڈی نوٹیفائی نہیں کیا گیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ماضی میں بھی ارکان اسمبلی کو گرفتار کیا گیا جو آج بھی کسٹڈی میں ہیں، پولیٹیکل لیڈرشپ کو بیٹھ کر سوچنا چاہیے، آئین کا احترام نہیں ہو گا تو یہ سب چلتا رہے گا۔

عدالت ایمان مزاری کی بہت عزت کرتی ہے، ریمارکس چیف جسٹس 

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ عدالت ایمان مزاری کی بہت عزت کرتی ہے، وہ عدالت میں انسانی حقوق کے کیسز لے کر آتی ہیں، ایمان مزاری آج یقینا بہت جذباتی ہوں گی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے شیریں مزاری کی گرفتاری پر وفاقی حکومت کو جوڈیشل انکوائری کرانے کا حکم دیتے ہوئے انہیں فوری رہا کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نے آئی جی اسلام آباد کو ہدایت دی کہ آئی جی اسلام آباد شیریں مزاری کو گھر تک پہنچائیں اور شیریں مزاری کو گھر میں بھی سیکیورتی دینے کا حکم دیا۔

دوران سماعت پی ٹی آئی کے فواد چوہدری، زلفی بخاری و دیگر رہنما کمرہ عدالت میں موجود تھے، شیری  مزاری کی بیٹی ایمان مزاری بھی ہائی کورٹ کے احاطے میں موجود ہیں۔ درخواست گزار کے وکیل فیصل چوہدری اور علی بخاری بھی عدالت میں موجود ہیں۔

میرا کیس جبری گمشدگی کا کیس ہے، شیریں مزاری 

اس دوران شیریں مزاری کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں پہنچایا گیا جہاں انہوں میڈیا سے مختصر بات کرتے ہوئے کہا کہ میرا لاپتہ ہونے کا پہلا تجربہ ہے، سب کچھ بتاؤں گی جو انہوں نے میرے ساتھ کیا ہے، میرا فون ابھی تک واپس نہیں کیا گیا، میرا کیس جبری گمشدگی کا کیس ہے۔

عمران خان کی ممکنہ گرفتاری سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ کتنے لوگوں کو گرفتار کریں گے، پوری قوم ان چوروں کے خلاف نکلی ہوئی ہے۔

عدالت نے رات ساڑھے 11 بجے شیریں مزاری کو پیش کرنے کا حکم دیا تھا

واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے سیکریٹری داخلہ، آئی جی پولیس اور ڈپٹی کمشنر کو رات ساڑھے 11 بجے طلب کرتے ہوئے شیریں مزاری کو پیش کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق تحریک انصاف نے شیریں مزاری کی گرفتاری کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ پی ٹی آئی کے وکلا فیصل فرید، علی بخاری اور دیگر اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے۔ دفتری اوقات ختم ہونے کے باوجود ہائی کورٹ کو کھول دیا گیا۔ ان کے ساتھ فواد چوہدری، ذلفی بخاری، فرخ حبیب اور دیگر رہنما بھی ہائی کورٹ پہنچے تھے۔

شیریں مزاری کی بیٹی کی جانب سے درخواست دائر 

شیریں مزاری کی گرفتاری کے خلاف پی ٹی آئی نے ان کی بیٹی ایمان مزاری کی جانب سے بطور پٹیشنر درخواست دائر کی جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ہمیں نہیں معلوم شیری مزاری اس وقت کہاں ہیں؟ اور انہیں کس جرم میں اٹھایا گیا کچھ معلوم نہیں، استدعا ہے کہ شیری مزاری کو عدالت کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا جائے۔

ڈاکٹر شیریں مزاری کی بازیابی کی درخواست چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو پیش کردی گئی اور انہیں گھر پر ہی اس فوری نوعیت کے مقدمے سے آگاہ کیا گیا تھا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے درخواست پر بڑا حکم جاری کرتے ہوئے رات ساڑھے 11 بجے عدالت لگانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔

سیکریٹری داخلہ، آئی جی پولیس، ڈپٹی کمشنر طلب 

چیف جسٹس نے سیکرٹری داخلہ، آئی جی پولیس اور ڈپٹی کمشنر، اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو طلبی کے نوٹسز جاری کردیے اور انہیں کہا گیا تھا کہ وہ پیش ہو کر بتائیں کہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کیوں کی گئی؟

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے شیریں مزاری کو رات ساڑھے 11 بجے عدالت کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ سیکریٹری داخلہ، آئی جی اور ڈی سی شیری مزاری کو عدالت کے سامنے پیش کرنے کا عمل یقینی بنائیں، عدالت پر ظاہر ہوا ہے کہ شیریں مزاری کی آزادی کو غیر قانونی طور پر محروم کیا گیا، عدالت پہلے ہی حکم دے چکی ہے کہ اسپیکر کی اجازت کے بغیر ارکان اسمبلی کو گرفتار نہیں کرسکتے۔

یاد رہے کہ تحریک انصاف کے تمام ارکان قومی اسمبلی استعفی جمع کراچکے ہیں لیکن تاحال ان کے استعفی منظور نہ ہونے کے سبب ان کی ارکان اسمبلی کی حیثیت اب تک بحال ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔