ملک وقوم انتہائی خطروں سے دوچار

ڈاکٹر منصور نورانی  منگل 24 مئ 2022
mnoorani08@hotmail.com

[email protected]

ویسے تو ہمارا ملک جس دن سے معرض وجود میں آیاہے، ہمیشہ سے خطروں میں ہی گھرا رہاہے۔ مشکل مالی حالات ہیں کہ سدھرکے ہی نہیں دیتے۔ نفرت ، انتشار اورعلاقائی و فروعی اختلافات نے قوم کو متحد ومنظم ہونے ہی نہیں دیالیکن حالیہ چند سالوں سے سیاستدانوں کی آپس کی لڑائی نے قوم کے مختلف طبقات کے اندر ایسی نفرت اور چپقلش پیداکردی ہے جس سے باآسانی چھٹکاراممکن دکھائی نہیں دیتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ مزید بڑھتی اورگہری ہوتی جا رہی ہیں۔

لیڈروں کے تندو تیزبیانات ، ناملائم اور درشت لہجوں نے ساری قوم کو اُس کا عادی اوراسیر بناکے رکھ دیاہے۔ دنیاتیزی سے ترقی کے مراحل  طے کرتی جارہی ہے اورہم انحطاط پذیری کی طرف گرتے چلے جارہے ہیں،کوئی پرسان حال نہیں ہے۔رہبران ملک وقوم ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں۔

وہ مل بیٹھ کر مشکلات کا کوئی متفقہ حل سوچنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہر نیا دن لوگوں کے لیے نئی قیامت بن کر ٹوٹ رہاہے۔خود قوم کو بھی اپنے اچھے اوربھلے کی تمیز باقی نہیں رہی۔2018 سے ہم مسلسل گراؤٹ اورتنزلی کاشکارہیں۔

ہمارا روپیہ اپنی ساکھ کھو چکاہے ۔ایک زمانہ تھا ہمارا روپیہ بھارتی روپیہ سے بھی زیادہ مستحکم اورقیمتی تھا،مگر آج ہمارے 258 روپے بھارت کے 100 کے برابر ہوچکے ہیں۔یہ حالت دیکھ کر وطن سے تھوڑی سی بھی محبت رکھنے والوں کے دل یقیناً غم اور فکر سے دوچار ہیں مگر اہل سیاست کو ذرا بھی احساس نہیں ہے کہ اُن کی اِن حرکتوں سے یہ ملک کہاں کسی گہری کھائی میں گرتاجارہاہے۔

آج ایک طرف عدم اعتماد کی تحریک کے نتیجے میں تشکیل پائی جانے والی نئی حکومت ہے تودوسری جانب اقتدار واختیار سے محروم کی جانے والی عمرانی اپوزیشن ہے۔ عمران خان صاحب فوری طور پرنئے الیکشن کا مطالبہ کر رہے ہیں اوراس مقصد سے وہ ایک منظم تحریک بھی شروع کرچکے ہیں ،وہ روزانہ کی بنیاد پرجلسے اورعوامی خطابات کے ذریعے اپنے حامیوں کالہو گرما رہے ہیں تودوسری جانب حکومت مالی و معاشی بحران سے نکلنے کی فکر میں سرگرداں ہے۔

اس کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ملک وقوم کو مالی مشکلات سے باہرنکالنا ہے۔اس نے ایک ایسے مشکل دور میں حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ہے جب عالمی سطح پر بھی روس اوریوکرین کی لڑائی کی وجہ سے تیل وتوانائی کا شدید بحران آیاہواہے۔غریب ممالک انتہائی مالی مشکلات سے دوچار ہیں۔ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ مسلم لیگ نون کسی صورت میں بھی عدم اعتماد کی تحریک کی حمایت میں نہ تھی اور وہ ایسے عارضی سیٹ اپ میں حکمرانی سنبھالنے کے لیے بھی تیار نہ تھی لیکن بدلتے سیاسی حالات نے یہ ذمے داری اس کے کاندھوں پر ڈال دی ہے۔

جناب شہباز شریف بظاہر وزیراعظم تو بن گئے ہیں لیکن وہ بڑے اورمشکل فیصلے کرنے سے بھی کترا رہے ہیں۔وہ نہیں چاہتے کہ سابقہ حکومت کی تمام ناکامیوں کاملبہ اُن کے سرتھونپاجائے اور جس کایہ ملبہ تھاوہ عوام کی نظروں میں سرخرو وکامیاب تصور کیاجائے۔وہ چاہتے ہیں کہ حکومتی اتحاد کی ساری جماعتیں یہ ذمے داری قبول کرتے ہوئے اپنااپنا فرض ادا کریں ورنہ انھیں کوئی ضرورت نہیں ہے کہ عوام پر مہنگائی کرنے کے الزامات وہ اپنے سر لیتے پھریں۔ پارٹی کے اندر سے بھی ایسی تجاویز آرہی ہیں لیکن بعض حلقے حکومت کو بجٹ تک صبر کرنے کی تلقین کررہے ہیں۔

وہ سمجھتے ہیں کہ جس حکومت کی کوئی مدت طے نہیں ہے اسے بچانے کے لیے بلاوجہ اداروں سے کیوں دشمنی مول لی جائے،لیکن اعلیٰ سطح پر حکومتی فیصلوں میں یہ تذبذب اور پس وپیش غیر یقینی صورتحال پیداکرنے کا موجب بن رہاہے اور اس غیر یقینی فضا سے کاروباری حلقے بھی احتیاط سے کام لیتے ہوئے کوئی بڑا فیصلہ نہیں کر پا رہے ہیں، جس کی وجہ سے ڈالر کی قیمت بڑھتی جارہی ہے تو دوسری طرف اسٹاک مارکیٹ بھی مندی کاشکار ہے۔

کہنے کو نئے الیکشن ہی اس مشکل کاواحد حل ہیں لیکن ہمارے خیال میں جب سیاست نفرت واشتعال کی آخری حدوں کو چھولے تو پھر نئے الیکشن بھی ملک میں امن واستحکام قائم نہیں کرسکتے ہیں، ہم آج اپنے یہاں یہی کچھ دیکھ رہے ہیں۔ الیکشن اگرہوبھی جائیں تو اس بات کی کیاگارنٹی کہ ہارنے والا فریق اپنی شکست باآسانی قبول کرلے گا۔

خاص کر ایسے ماحول میں جب ہر سیاسی جماعت اپنی فتح  یقینی سمجھتی ہو اوروہ کسی طور اپنی ہار یاشکست کو تسلیم کرنے کے موڈ میں نہ ہو اورجس کے لوگ کسی وقت بھی ملک بھر میں ہنگامے برپاکرکے سارا ملک لاک ڈاؤن کرسکتے ہیں وہاں یہ اُمید لگانا کہ نئے انتخابات ملک کے اندر کوئی استحکام لاپائیںگے اپنے تئیں دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ہمیں یہ ملک اگلے سال مزید بحرانوں میں گھرتادکھائی دے رہا ہے۔ مقامی گماشتوں کی کارگزاری ، سازشیوں کی ریشہ دوانیوں اور ملک دشمن قوتوں کی چیرہ دستیوں نے ہمیں ایک بار پھر 1971 والے خطرات سے دوچار کردیاہے۔

پچاس سال بعد ایک بار پھروہی تاریخ دہرائی جارہی ہے۔ایک طرف وطن سے محبت رکھنے والے آشفتہ سروں کی دم توڑتی کوششیں ہیں تودوسری جانب وطن سے کھلواڑ کرنے اورصرف اپنے گھرمیں چراغ روشن کرنے کی خواہش رکھنے والوں کی اکثریت ہے وہاں کوئی ملک اپنی سالمیت اوربقا برقرار نہیںرکھ سکتا۔ ہم آج تک سقوط ڈھاکا کے اسباب کاصحیح طورپر پتا نہیں لگاسکے لیکن یہ جانتے ضرور ہیں جب نفرتیں اورمنافقتیں اس قدر بڑھ جائیں کہ اپنے علاوہ ہر کوئی دشمن دکھائی دینے لگے تو سمجھ جاؤ اپنی تباہی کے تم خود ذمے دار ہو۔وہاں کسی اورملک کو تمہیں برباد کرنے کے جتن کی حاجت باقی نہیں رہتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔