پی ٹی آئی مارچ: کون جیتا؟ کون ہارا؟

اظہر تھراج  منگل 31 مئ 2022
عمران خان کو مارچ کرنے سے روکنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ (فوٹو: فائل)

عمران خان کو مارچ کرنے سے روکنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ (فوٹو: فائل)

چند دنوں میں پاکستانی سیاست میں بہت کچھ ہوا۔ ہم نے سیاست کے بدلتے رنگ دیکھے، جو جیتنے آئے وہ ہار چلے، جو دل ہارے بیٹھے تھے وہ تگڑے ہوگئے۔ اس ملک کی سیاست ہی ایسی ہے کہ ایک پل میں ماشہ تو دوسرے پل میں تولہ۔

ایک طرف عمران خان کا لانگ مارچ ایک جلسے کی صورت اختیار کرگیا اور بے فیض ہوکر اختتام کو پہنچا۔ دوسری طرف مخلوط حکومت نے ایسی جرأت پکڑی کہ انتخابی اصلاحات اور نیب ترامیم کرڈالیں۔ مشکل فیصلے لینے سے گھبرانے والی حکومت نے پٹرول کی قیمتیں بڑھانے کا مشکل ترین فیصلہ لے کر عوام کو ہی مشکل میں ڈال دیا۔ بے فیض شخص نے واپس آنے کا اعلان کرکے سب کو مشکل میں ڈال دیا۔ ڈیل ہوئی یا نہیں؟ کیا کوئی دباؤ تھا یا اپنے ہی کھلاڑیوں میں دم نہیں تھا؟ کیا کپتان 6 دن بعد پھر پچ پر ہوں گے؟ یا صرف دباؤ کےلیے باتیں ہی ہیں؟ لوگوں کے خدشات بڑھ گئے۔

ایک عرصہ سے کپتان ایک دھواں دھار اننگز کھیل رہے تھے۔ جلسوں کے ایسے چوکے چھکے لگا رہے تھے کہ ایمپائرز بھی یہ اندازہ کر بیٹھے تھے کہ یہ اس بار ڈبل سینچری کرکے ہی چھوڑے گا۔ ڈبل سینچری تو کرلی لیکن ناقص فیلڈنگ کی وجہ سے میدان سے ہی باہر ہوگئے۔ جب دیکھا کہ میچ کنٹرول سے باہر ہے، ایمپائرز کے تیور ٹھیک نہیں تو ’’میں نہیں کھیلنا‘‘ کہہ کر میدان سے باہر چلے گئے۔ اب کہتے ہیں کہ تیاری اچھی نہیں تھی، اب بھرپور تیاری کے ساتھ میچ کھیلوں گا اور جیت کر دکھاؤں گا۔ جیت کے بعد حریف ٹیم بھی تگڑی ہوگئی ہے۔ ایمپائرز کو بھی لگتا ہے کہ ’’میچ‘‘ ہونے میں وقت لگے گا۔ اگر موسم خراب ہوگیا، بارش ہوگئی تو انتظار بھی طویل ہوجائے گا۔

اب حکومت کا خیال ہے کہ عمران خان جیسے خطرے سے نمٹ سکتی ہے۔ اسی لیے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھائی گئی ہیں، اسی لیے انتخابات اپنے وقت پر ہونے کا دو ٹوک اعلان بھی کیا گیا ہے۔ حالات نہ سنبھلے تو حکومت کو یہ بھی خدشہ ہے کہ انتخابات جلد بھی ہوسکتے ہیں۔ اس لیے قوانین میں ترامیم بھی کی گئی ہیں۔ مخلوط حکومت دونوں حوالوں سے تیار ہے۔ ہر صورتحال کا مقابلہ کرنے کےلیے چوکس ہے۔ انتخابات تو ہونے ہیں جلد ہوں یا بدیر۔ اگر اتفاق رائے سے ہوجائیں تو بہت اچھا ہوگا۔

جب یہ خبر نکلی کہ اندھیری راتوں میں ملاقاتیں ہورہی ہیں تو میڈیا کو جھٹلانے کی کوشش کی گئی لیکن یہ راز بھی صبح کے سورج کی طرح کھل کر سامنے آگیا اور تصدیق بھی ہوگئی کہ بالواسطہ بات چیت جاری ہے۔

مانیں یا نہ مانیں، عمران خان سے غلطیاں ہوئی ہیں۔ عمران خان کو مارچ کرنے سے روکنے کی بھرپور کوشش کی گئی، پیغامات بھی بھیجے گئے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی چیئرمین کا مسئلہ یہ ہے کہ ’’ان کو اسلام آباد جانے کا کہا جائے تو وہ راستے میں اتر جائیں گے، منزل پر نہیں جائیں گے‘‘۔ یہی وہ ضد تھی جو ان کو ’’ٹریپ‘‘ کرگئی۔ اگر عمران خان مارچ نہ کرتے تو الیکشن کی تاریخ بھی مل جاتی، خجل خوار ہونے کی زحمت بھی نہ اٹھانا پڑتی۔ خیر ہر برائی میں خیر کا پہلو بھی چھپا ہوتا ہے، اس میں خیر کا پہلو یہ تھا کہ کپتان کو اپنی طاقت کا اندازہ ہوگیا۔

پنجاب کے اندر گرفتاریاں، چھاپے سب کچھ ہوا۔ پولیس ان سب چیزوں کا اندازہ عوام کی تعداد سے لگاتی ہے۔ تعداد کم ہو تو پولیس والے بھی شیر بن جاتے ہیں۔ پنجاب میں رکاوٹیں تھیں تو کے پی کے کی تو ساری مشینری عمران خان کے ساتھ تھی۔ اس بار وزیر داخلہ کوئی اور تھا اس لیے روکا گیا۔ عمران خان نے پیغام کو نہیں سمجھا۔ سیاسی کارکن نکلے ہیں لیکن جو فین کلب تھا وہ نہیں نکلا۔ حکومت ان کو ڈرانے میں کامیاب رہی۔ اس سارے منظر میں عوام ہارے ہیں، ووٹر اور سپورٹرز ہارے ہیں۔ اب مخلوط حکومت بے رحم ہوکر عوام پر مہنگائی کے بم گرائے گی۔

کسی کو اس کے چاہنے والوں کی نظروں کے سامنے گرانا ہو تو اس کی ساکھ کو خراب کرتے ہیں۔ آڈیو لیک بھی اس گیم کا ایک حربہ ہے۔ آڈیو لیک کرنے کا مقصد عمران خان کے ناکام مارچ کے بعد ان کی ساکھ کو مزید خراب کرنا ہے۔

پی ٹی آئی اپنے اعلان کردہ چھ دن کے بعد پھر یہی قدم اٹھاتی ہے تو یہ حماقت ہوگی۔ یہ پہلے والی غلطی سے بڑی غلطی ہوگی۔ پی ٹی آئی کو ابھی غور کرنا چاہیے کہ غلطی کہاں ہوئی۔ اپنے آپ کو سنبھالنا چاہیے۔ جلد بازی میں جو کیا گیا اس کا نتیجہ سامنے ہے۔ عمران خان کا بھرم کے پی کے نے رکھا۔ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کے مجاہد، سول سوسائٹی کے لوگ نہیں نکلے۔ ٹوئٹر، انسٹاگرام، سوشل میڈیا سے انقلاب نہیں آتا اور نہ آئے گا، پی ٹی آئی کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔

خان صاحب ٹھنڈا کرکے کھائیے۔ بات سپریم کورٹ تک پہنچ گئی تو پھر اس انقلاب کو رہنے دیں۔ بیساکھیاں، بلیک میلنگ، عدالتوں کی منتیں، ایمپائرز کی خوشامدیں، کاروباری شخصیات کے ذریعے پیغامات، ایسے انقلاب نہیں آتے۔ انقلاب کے پیمانے کچھ اور ہیں۔ پیچ اپ پاکستان کے عوام سے کرنے کی ضرورت ہے۔ فریبِ زندگی ہے سہاروں کی زندگی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

اظہر تھراج

اظہر تھراج

بلاگر سینئر صحافی، یوٹیوبر اور مصنف ہیں۔ روزنامہ خبریں، نوائے وقت اور ڈیلی پاکستان میں کام کرچکے ہیں اور آج کل 24News سے وابستہ ہیں۔ ان سے ٹویٹر، فیس بک اور انسٹاگرام پر @azharthiraj کے ذریعے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔