متضاد بیانیہ

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 20 اگست 2022
tauceeph@gmail.com

[email protected]

تحریک انصاف کی یہ خوبی ہے کہ ہمیشہ دو قسم کے متضاد بیانیے کو اختیار کرتی ہے۔ ان کے رہنماؤں کے حامی مختلف تضادات کے حامل ہر قسم کے بیانیہ کو قبول کرلیتے ہیں۔

عمران خان جو گزشتہ اپریل سے امریکا مخالف مہم چلا رہے ہیں۔ ان کی زیرِ نگرانی خیبر پختون خوا کی حکومت کے وزیر اعلیٰ نے امریکا کے سفیر کا پرجوش خیرمقدم کیا اور امریکی حکومت کی تحفہ میں ملنے والی سیکڑوں جدید گاڑیاں قبول کیں۔ امریکی سفیر جو پختون خوا حکومت کے مہمان تھے انھیں ایک ہیلی کاپٹر میں بٹھا کر درہ خیبرکی سیر کرائی گئی اور پاک افغان سرحدی چوکی پر لے جایا گیا۔

انسانی حقوق کی سابق وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری کی اچانک غیرت جاگ اٹھی۔ انھوں نے امریکی سفیر کے دورہ درہ خیبر کو ملک کی سلامتی کے لیے منفی قرار دیا۔ ان کے قائد عمران خان نے اپنے وزیر اعلیٰ کے امریکی سفیر کے استقبال اور امریکی حکومت سے گاڑیوں کے تحفہ لینے کو غیرت کے مسئلہ سے تو نہیں جوڑا مگر ڈاکٹر شیریں مزاری کے بیان کی حمایت کا اعادہ کیا۔

وفاقی وزراء نے الزام لگانا شروع کیا کہ عمران خان امریکا سے معافی کے لیے کوششیں کر رہے ہیں اور ان کے ایک مشیر نے واشنگٹن میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے افسروں سے ملاقاتیں کی ہیں۔ تحریک انصاف کی قیادت نے وفاقی وزراء کی اس خبرکو محض پروپیگنڈہ قرار دیا۔ واشنگٹن سے یہ خبر آئی کہ تحریک انصاف نے امریکا کی ایک لابنگ کرنے والی فرم کی خدمات حاصل کیں۔ اس معاہدہ کے تحت یہ فرم عوام اور میڈیا میں تحریک انصاف کے امیج کو بہتر بنانے کے لیے کاوشیں کرے گی۔

بیرسٹر فواد چوہدری نے اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ فرم پبلک ریلیشن کی کمپنی ہے لابنگ نہیں ہے۔ ابلاغ عامہ کے ماہرین کو اس وضاحت پر حیرت ہوئی۔ دنیا بھر میں پبلک ریلیشن فرم اپنے کلائنٹ کے امیج کو بہتر بنانے کے لیے حکمت عملی تیار کرتی ہے۔ اس حکمت عملی میں اشتہارات، پریس ریلیز، ڈاکیو منٹری اور سوشل میڈیا کا استعمال Strategic Writing شامل ہے۔

یہ فرمیں سرکاری پالیسی ساز اداروں میں اپنے کلائنٹ کا مؤقف اس طرح تیار کرتی ہیں کہ ان اداروں کے فیصلہ کرنے والے ماہرین اس مؤقف سے متاثر ہوجائیں اور اس کلائنٹ کی مدد کے لیے سوچنے لگیں ، اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ یہ فرم تحریک انصاف کے بیانیہ کو میڈیا پر پیش کرے گی تاکہ امریکا میں رائے عامہ ہموار ہو اور یہ رائے عامہ امریکا کی حکومت اور منتخب اداروں کے اراکین کو مجبور کرے کہ وہ تحریک انصاف کا امریکا مخالف بیانیہ قبول کرلیں اور پاکستان میں فیصلہ ساز اداروں کو مجبور کریں کہ وہ عمران خان کو ملک کی باگ ڈور سونپ دیں۔ کوئی عقل و شعور رکھنے والا شخص پی ٹی آئی کے اس مؤقف کو تسلیم کرسکتا ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف کے امریکا کے حامی رائے عامہ کو یہ بتانے کی کوشش کریں گے کہ عمران خان امریکا سے قریبی تعلقات قائم کرنے کے حامی ہیں اور ان کے بارے میں یہ تاثر غلط ہے کہ امریکا کے مخالف ہیں۔

واشنگٹن میں ایک انگریزی اخبار کے نامہ نگار نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو امریکا میں تحریک انصاف کے حامیوں نے پرجوش مظاہرہ کیا اور ان مظاہرین نے امریکا کی شدید مذمت کی ۔ ان میں سیکڑوں لوگ وہ تھے جو پاکستان کی شہریت چھوڑ چکے ہیں اور امریکا سے وفاداری کا حلف اٹھا چکے ہیں۔

اب ان مظاہرین کو ہوش آیا کہ وہ اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے مظاہروں میں امریکا مخالف بیانیہ پیچھے چلا گیا۔ اب یہ لوگ اپوزیشن اور ریاستی اداروں کو نشانہ بناتے ہیں۔ تحریک انصاف کے اس فرم کی خدمات حاصل کرنے کا واضح مطلب یہ ہے کہ تحریک انصاف امریکی انتظامیہ کی مدد کی طلب گار ہے۔ عمران خان کا ایسا ہی مؤقف طالبان کے بارے میں آیا۔ ان کے بیانات سے القاعدہ کے رہنماؤں سے محبت کا اظہار ہوتا تھا۔ ایک امریکی ڈرون نے وسطی ایشیاء سے پرواز کی اور کابل میں روپوش القاعدہ کے قائد ایمن الزواہری کو ہلاک کردیا۔

طالبان اور امریکا کے درمیان قطر میں ہونے والے معاہدہ کے تحت افغان حکومت اس بات کی پابند ہے کہ القاعدہ سمیت کسی دہشت گرد تنظیم کے جنگجوؤں کو افغانستان میں پناہ نہیں دی جائے گی ، مگر ایمن الزواہری کی کابل میں ہلاکت سے ثابت ہوا کہ طالبان حکومت نے قطر معاہدہ کی پابندی نہیں کی۔ اقوام متحدہ کی قرارداد کے تحت دہشت گردوں پر پناہ لینے پر افغانستان پر مزید پابندیاں لگ سکتی ہیں۔

دنیا بھر میں صرف تحریک انصاف واحد جماعت ہے جس کو الزواہری کی موت پر تشویش ہوئی۔ حکومت کی واضح تردید کے باوجود کہ اس حملہ میں پاکستان کی سرزمین استعمال نہیں ہوئی، فواد چوہدری مسلسل وضاحت طلب کررہے تھے۔ ایک طرف تو تحریک انصاف کی القاعدہ اور طالبان سے ہمدردی کا اظہار ہو رہا ہے تو دوسری طرف عمران خان کو یہ تشویش پیدا ہوئی کہ تحریک طالبان پاکستان کے جنگجو ان کے رہنماؤں کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔

دراصل عمران خان کی خیبرپختون خوا میں مقبولیت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے طالبان اور القاعدہ سے ہمدردی کو استعمال کیا، یوں وہ مقبول ہوگئے ، مگر دہشت گردوں کی حمایت کرکے انھوں نے اس ملک میں دہشت گردی کے رویہ کو تقویت دی۔ پاکستان گزشتہ 20 برسوں سے دہشت گردی کا شکار ہے۔

قومی رہنما بے نظیر بھٹو ، سلمان تاثیر ، بشیر بلور اور راشد رحمن سمیت ہزاروں افراد جن میں آرمی پبلک اسکول پشاور کے طلبہ اور اساتذہ شامل ہیں اس دہشت گردی کا شکار ہوئے ۔ آج بھی سیکیورٹی ادارے شمالی وزیرستان میں ان دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔