جھوٹ کو کیسے روکا جائے

مزمل سہروردی  منگل 23 اگست 2022
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

پاکستان میں اس وقت جھوٹ کا ایسا طوفان ہے کہ سچ ڈھونڈنا مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں جھوٹ بولنے کی طاقت بڑھانے پر توجہ دے رہی ہیں۔ بے شک پراپیگنڈا ایک سیاسی طاقت ہے لیکن جھوٹے پراپیگنڈے کی طاقت ایک ہتھیار بن گیا ہے۔

سوشل میڈیا پر جھوٹ پھیلانے کی طاقت کو بھی ایک ہتھیار بنا لیا گیا ہے۔آپ جس قدر جھوٹا پراپیگنڈا کر سکتے ہیں، آپ اتنے ہی طاقتور سمجھے جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس رحجان کو کیسے روکا جا سکتا ہے۔

میں سمجھتا ہوں جھوٹ چاہے سوشل میڈیا پر بولا جائے یا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بولا جائے اس کی سخت سزا ہونی چاہیے۔ جھوٹ بولنے پر جس قدر سخت سزا ہو گی معاشرے میں اس قدر ہی سچ کا بول بالا ہوگا۔ اگر جھوٹ بولنے کی کھلی چھٹی دی جائے گی تو سچ ختم ہو جائے گا۔ جھوٹ سچ پر غالب آجائے گا۔

آزاد میڈیا کے ساتھ سچ کی شرط بھی لازم ہے۔ جھوٹ کی آمیزش کے ساتھ میڈیا اور آزادی اظہار کی آزادی کوئی آزادی نہیں ہے۔ اس کے معاشرے اور ملک پر مثبت کے بجائے منفی اثرات آتے ہیں۔ جہاں جمہوریت کا میڈیا کی آزادی کے بغیر کوئی تصور نہیں وہاں جھوٹ کی آزادی بھی جمہوریت کو کھا جاتی ہے۔ اس لیے اگر پاکستان میں جمہوریت اور میڈیا کو مضبوط کرنا ہے تو جھوٹ کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔ جھوٹے پراپیگنڈے کی طاقت کو ختم کرنا ہوگا۔

آج آپ جتنے زیادہ جھوٹ بولیں گے آپ اس قدر نوٹس ہونگے۔ میں سوشل میڈیا کی آزادی کے خلاف نہیں ہوں، سیاسی جماعتوں کے خفیہ سوشل میڈیا سیلز‘ مذہبی و فرقہ پرست تنظیموں کے سوشل میڈیا سیل‘ انتہائی غیر ذمے داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ایسی شتر بے مہارآزادی اور گالم گلوچ کا کلچر بھی کوئی آزادی نہیں۔ گالی نکالنے کی آزادی بھی کوئی آزادی نہیں۔ جھوٹ بولنے کی آزادی کوئی آزادی نہیں۔ کسی کی عزت نفس کو مجروح کرنے کی آزادی بھی کوئی آزادی نہیں۔ اختلاف میں دلیل کے بجائے گالم گلوچ سے جواب بھی کوئی حوصلہ افزا رجحان نہیں ہے۔

جھوٹی صحافت کوئی صحافت نہیں ہے۔ سچ کے بغیر صحافت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ ذمے دارانہ صحافت کے بغیر صحافت کا کوئی تصور نہیں۔ شائستگی کے بغیر صحافت کا کوئی تصور نہیں۔ ویسے تو سچ کے بغیر جمہوریت کا بھی کوئی تصور نہیں۔ سچ کے بغیر سیاست کا بھی کوئی تصور نہیں۔ ذمے دارانہ سیاست کے بغیر سیاست کا بھی کوئی تصور نہیں ہے۔ جھوٹ کسی بھی شکل میں کہیں بھی قابل قبول نہیں ہونا چاہیے۔ جھوٹ کی حوصلہ افزائی معاشرہ کا ناسور بن جاتی ہے۔

حال ہی میں شہباز گل پر تشدد کا معاملہ ہی لے لیں۔ میں اس بحث میں نہیں جانا چاہتا کہ تشدد ہوا کہ نہیں۔ حالانکہ میری رائے میں تشدد نہیں ہوا ۔ لیکن اس بحث سے قطع نظر جس قسم کا پراپیگنڈا کیا گیا۔ کیا کسی مہذب ملک میں یہ ممکن ہے۔ سوشل میڈیا پر جنسی تشدد کو جس طرح بیان کیا گیا کیا اس کی دنیا میں کہیں کوئی مثال ملتی ہے۔ پراپیگنڈے کی طاقت سے ایک ماحول بنایا گیا۔

ایسا ثابت کر دیا گیا کہ صرف تشدد ہی نہیں بلکہ جنسی تشدد بھی ہوا ہے۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ میں نے وڈیو دیکھی ہے۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ میں نے تصاویر دیکھی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ لوگ اس قدر طاقت سے جھوٹ کیسے بول رہے تھے۔کیونکہ انھیں علم تھا کہ ملک میں جھوٹ بولنے کی کوئی سزا نہیں ہے۔ آزادیٔ اظہار اور جھوٹ بولنے کی آزادی دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ جھوٹ آزادی اظہار نہیں ہے۔ جھوٹ بولنے پرشرمندہ ہونے کے بجائے اب اس پر فخر کرنے کا کلچر بن گیا ہے۔ لوگ فخر سے جھوٹ بول رہے ہیں۔ اور ملک ایک تماشہ بن گیا ہے۔

اس ساری صورتحال کے باوجود میں سمجھتا ہوں پاکستان میں سوشل میڈیا سمیت کسی بھی میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے کسی بھی خصوصی قانون کی کوئی ضرورت نہیں۔ ملک میں جھوٹ کے کلچر کو ختم کرنے کے لیے کسی بھی قسم کی کوئی خصوصی قانون سازی کی کوئی ضرورت نہیں۔ جھوٹ کہیں بھی بولا جائے کسی بھی پلیٹ فارم پر بولا جائے اس کے لیے ہتک عزت کا قانون ہی کافی ہے۔

سوال صرف یہ ہے کہ عدالتیں ہتک عزت  کے مقدمات کا بروقت فیصلہ کریں۔ جھوٹ کو ایک جرم سمجھیں۔اس پر مثالی سزائیں دیں تا کہ کسی اور کو جھوٹ بولنے کی جرات نہ ہو۔ ہتک عزت کے مقدمات میں بڑے بڑے جرمانے کوئی مدعی کی حیثیت دیکھ کر نہیں کیے جاتے بلکہ جھوٹ کو روکنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ جھوٹ کو آزادی اظہار کے پیچھے چھپنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ برطانیہ میں جھوٹی خبروں پر بڑے بڑے جرمانے ہوئے ہیں تو وہ اس لیے ہوئے ہیں کہ وہاں جھوٹ کو ایک جرم سمجھا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان میں جھوٹ کو ایک بڑا جرم نہیں سمجھا جاتا۔ اس لیے جھوٹ دن بدن ترقی کر رہا ہے۔

پاکستان کی عدلیہ پاکستان میں ہتک عزت کے مقدمات کے بروقت اور مثالی فیصلے کرنے میں ناکام رہی ہے۔  ہم کسی ایک جھوٹ پر بھی ایسی سزا نہیں دے سکے ہیں جس کو مثال بنایا جا سکے۔ عدلیہ ہتک عزت کے مقدمات کو کوئی مقدمہ سمجھا جاتا ۔ ہم آج تک کسی ایک بھی بڑے آدمی کو جھوٹ بولنے پر سزا نہیں دے سکے ہیں۔

یہ تو ممکن نہیں قیام پاکستان سے آج تک کسی نے کوئی جھوٹ بولا ہی نہیں۔ کبھی کسی نے کسی پر کوئی جھوٹا الزام ہی نہیں لگایا ہے۔ اس لیے اب ایک رائے بن گئی ہے کہ پاکستان میں جھوٹ بولنا کوئی جرم نہیں۔ پاکستان میں جھوٹ بولنے کی کوئی سزا نہیں۔ اس لیے دل کھول کر جھوٹ بولو۔ کوئی مسئلہ نہیں۔

آپ سعودی عرب کی مثال ہی لے لیں۔ انھوں نے مسجد نبوی میں نعرے لگانے والوں کو سزا دی ہے۔ اب وہاں کسی کو نعرہ لگانے کی جرات نہیں ہوگی۔ حال ہی میں وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ مسجد نبوی گئے ہیں۔ کسی نے کوئی نعرہ نہیں لگایا۔ ایک سزا نے جرم کو روک دیا ہے۔ اسی طرح دنیا میں جھوٹ پر بڑے بڑے جرمانوں نے جھوٹ کو روک دیا ہے۔ سزا ہی جرم کو روکتی ہے۔ اسی لیے سزا کا نظام بنایا گیا ہے۔ پاکستان میں اگر جھوٹ کو روکنا ہے تو ہتک عزت کے مقدمات کا فوری فیصلہ کرنا ہوگا۔ سخت سزائیں دینا ہوں گی۔

تب ہی ملک میں جھوٹ رک سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی جھوٹ ایسے ہی رکے گا۔ گالم گلوچ ایسے ہی رکے گی۔ جھوٹا پراپیگنڈا ایسے ہی رکے گا۔ لوگوں کی حوصلہ افزائی کے بجائے حوصلہ شکنی کرنی ہوگی ۔ درگزر اور نظر انداز کرنے کی پالیسی نے معاشرے اور ملک کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔

پاکستان کے قانون میں لکھا ہے کہ ہتک عزت کے مقدمات کا فیصلہ نوے دن میں ہوگا۔ صرف اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ فیصلہ نوے دن میں ہوجائے۔ مثالی جرمانے کیے جائیں۔ پاکستان میں تو ہتک عزت کا فوجداری قانون بھی موجود ہے۔ اس میں آج تک کوئی بڑی سزا نہیں ہوئی۔ حالانکہ لوگوں نے مقدمات دائر کیے ہیں لیکن عدالتیں سزا نہیں دیتیں۔ حال ہی میں ایک جھوٹی خبر پر صرف تین ماہ کی سزا دی گئی ہے ۔ جو بہت کم ہے۔ سزا زیادہ ہونی چاہیے تا کہ آیندہ کسی کو جھوٹ بولنے اور جھوٹی خبر دینے کی جرات نہ ہو۔

آج صورتحال یہ ہو گئی ہے کہ عام آدمی نہیں پاکستان کے مضبوط اور سالمیت کے ذمے دار ادارے بھی جھوٹ کے آگے بے بس نظر آرہے ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں جھوٹ کے حوالے سے پانی سر سے گزر گیا ہے۔ اب ریاست کی سالمیت خطرے میں آگئی ہے۔ اس لیے پاکستان کی عدلیہ کو اپنی ذمے داری ادا کرنی ہوگی۔ ورنہ بہت نقصان ہوجائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔