اساتذہ کے تقرر میں بدعنوانیاں

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  پير 24 مارچ 2014
advo786@yahoo.com

[email protected]

حضرت علیؓ کا قول ہے کہ علم مال سے بہتر ہے کیونکہ علم انسان کی حفاظت کرتا ہے جب کہ مال کی حفاظت خود انسان کو کرنا پڑتی ہے۔ مال خرچ کرنے سے کم ہوتا ہے جب کہ علم خرچ کرنے سے بڑھتا ہے۔ اس تناظر میں کسی کو علم سے محروم کرنا مال سے محروم کر دینے سے بڑا جرم بنتا ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں طبقاتی تعلیم، دہرے اور تجارتی تعلیمی نظام، سفارش، رشوت، کوٹہ سسٹم اور نہ جانے کن کن طریقوں سے اہل اور حقدار طلبا کو تعلیم سے محروم کر کے تعلیمی معیار کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ دوہرے اور طبقاتی تعلیمی نظام اور نصابی کمزوریوں اور قومی ترجیحات سے مبرا تعلیمی نصاب کی وجہ سے شعبہ تعلیم میں تعلیم سے زیادہ پیسہ کمانے پر توجہ مرکوز نظر آتی ہے۔ طلبا کی کردار سازی جو تعلیم کا بنیادی جزو ہے اسے فراموش کر دیا گیا ہے، نجی تعلیمی اداروں کا اپنا تعلیمی نصاب ہے، اپنی پالیسیاں جن پر بظاہر حکومت کا کوئی کنٹرول نظر نہیں آتا بلکہ الٹا یہ ادارے حکومتی پالیسیوں پر بھی اثرانداز ہو جاتے ہیں۔ جو قوم اپنی روایات اور اسلاف کو بھلا کر تعلیم میں پیچھے رہ جائے وہ اقوام عالم میں بھی پیچھے رہ جاتی ہے۔ کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی اور خودداری، خودمختاری میں تعلیم کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ اسی حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے سرسید احمد خان نے علی گڑھ جیسی عظیم یونیورسٹی کی بنیاد رکھی تھی جو بالآخر قیام پاکستان کی بنیاد بنی۔

حالانکہ قیام پاکستان کے وقت پاکستان کے حصے میں آنے والے تعلیمی ادارے اور اساتذہ انتہائی ناکافی تھے، یہاں تک کہ وزارت تعلیم کا سرے سے وجود بھی نہیں تھا لیکن قومی اکابرین کی کوششوں اور اخلاص سے تعلیمی نظام تسلی بخش طور پر چلتا رہا۔ سرکاری اداروں کے علاوہ نجی تعلیمی ادارے بھی بہتر تعلیمی کارکردگی پیش کرتے رہے۔ لیکن 1972ء میں تعلیمی اداروں کو سرکاری تحویل میں لیے جانے کے بعد سے تعلیمی اداروں کی زبوں حالی اور تعلیم کی بربادی کا دور شروع ہوا۔ شعبہ تعلیم میں تجارت اور تعلیم میں بدنظمی، بدانتظامی، سیاسی اثرورسوخ، مداخلت، دھونس دھاندلی، دھمکی اور نقل کرنے کے رجحان نے رواج پایا۔ تقرریوں، تبادلوں، داخلوں میں میرٹ کو نظرانداز کیا جانے لگا، کوٹہ سسٹم، سیلف فنانس اور ڈونیشن کے نام پر سرکاری اور قانونی طور پر مستحق طلبا کا استحصال کرنے کی بنیاد فراہم کر دی گئی۔ تعلیمی اداروں کے مالکان کی اولین ترجیح مال کمانا بن گیا تو اساتذہ کی توجہ اور دلچسپی تعلیم سے ہٹ کر سیاسی وابستگیوں، پرائیویٹ ٹیوشنز اور ذاتی مفادات پر مرکوز ہو گئی۔ طلبا، اساتذہ، والدین اور تعلیمی اداروں کا تعلق عزت و احترام کے بجائے محض مادی نوعیت کا ہو کر رہ گیا اور تعلیم کے شعور کی جگہ پیسہ کمانے کے شعور نے لے لی۔ نجی تعلیمی ادارے تو معمولی اجرت کے عوض اور بلا کسی قانونی سہولت کے اساتذہ کا استحصال کرتے ہیں لیکن سرکاری تعلیمی اداروں کے اساتذہ کے ساتھ بھی تقرری، تبادلوں اور ترقیوں کے سلسلے میں اسکول اساتذہ سے لے کر کالج اور یونیورسٹیوں کی سطح تک حق تلفی، اقربا پروری، رشوت بلکہ تشدد تک سلسلہ دراز ہو چکا ہے۔

سندھ میں گزشتہ تین حکومتوں کے دور سے پرائمری اور سیکنڈری اسکول اساتذہ کی بھرتیوں کے سلسلے میں جو تماشا لگا ہوا ہے وہ نہ صرف محکمہ تعلیم اور وزارت تعلیم کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے بلکہ انتہائی شرمناک بھی ہے۔ اس محکمے اور وزارت میں اتنی بھی صلاحیت نہیں کہ چند ہزار اساتذہ کی بھرتی کا عمل کسی نظم و ضبط اور میرٹ کی بنیاد پر مکمل کر سکے۔ گزشتہ تقریباً ایک عشرے سے محکمہ اساتذہ کی بھرتیوں کے لیے لاکھوں کی تعداد میں درخواست فارم بینکوں کے ذریعے فروخت کر کے آئی بی اے سکھر اور جامشورو یونیورسٹی کے تحت ٹیسٹ اور انٹرویو کروا چکا ہے، جن میں شدید بدنظمی دیکھنے میں آئی، شہر کی ٹریفک میں خلل پڑا، ایڈمٹ کارڈ اور نشستیں نہ ملنے پر امیدواروں نے پیپر پھاڑ دیے، نیشنل ہائی وے اور ریلوے لائنوں پر دھرنے دیے، شہروں میں احتجاج کیا، عدالتوں میں آئینی درخواستیں دائر کیں، جانبداری اور بھاری رشوتیں لے کر بھرتیوں کے الزامات عاید کیے، بھوک ہڑتالیں ہوئیں، جعلی کاغذات اور قواعد کو نظرانداز کرنے پر ہائیکورٹ نے بہت سی تقرریاں منسوخ قرار دیں۔

ورلڈ بینک اور یورپی یونین کی جانب سے بدانتظامی اور میرٹ کو نظرانداز کرنے کی پاداش میں عدم اعتماد کا اظہار اور فنڈ روکنے کی دھمکیاں سامنے آئیں، کئی بار ٹیسٹ و انٹرویو کی تاریخیں اور مقام تبدیل کیے گئے، انھیں منسوخ کر کے دوبارہ یہی سلسلہ کیا گیا، بھرتی کی پالیسی کو تبدیل کیا گیا جس پر امیدواروں کی جانب سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔ بات خود سوزی تک پہنچ گئی۔ تقرر کے سلسلے میں جنس اور یونین کونسل میں آسامی جیسی شرائط نے ایک تو میرٹ پر زیادہ نمبروں کے حامل افراد بھرتی کے لیے نااہل قرار دے کر ناانصافی کا قانونی دروازہ کھول دیا، دوسری جانب متعلقہ یونین کونسلوں میں آسامی کے خالی ہونے یا نہ ہونے کے اصول نے دھاندلی کا راستہ بھی کھول دیا۔ امتحانی نتائج کے اجرا سے قبل ہی محکمہ تعلیم کے افسران نے من پسند امیدواروں میں تقرری کے لیٹر تقسیم کردیے اور اہل امیدواروں کے احتجاج پر یہ موقف اختیار کیا کہ یہ لوگ مستحق تھے ان کی مدد کرنا ہمارا فرض تھا گویا تقرری میں اہلیت کی بجائے مسکینیت کے اصول کو مدنظر رکھ کر میرٹ کی دھجیاں بکھیر دی گئیں۔ اگر تعلیم کے شعبے میں اساتذہ کے تقرر میں اس قدر کھلی دھاندلی اور میرٹ کا خون کیا جائے گا تو تعلیم کا معیار کیا رہ جائے گا؟

گزشتہ دنوں حکومت سندھ نے کراچی کے سرکاری اسکولوں میں 1500 خالی آسامیوں پر 23 ہزار بھرتیاں کرنے والے 19 افسران کو معطل کیا ہے اور ان سے 14 دنوں میں جواب طلب کیا ہے ان پر الزام ہے کہ انھوں نے تدریسی و غیر تدریسی آسامیوں پر دستیاب خالی آسامیوں سے زیادہ غیرقانونی تقرریاں اور تعیناتیاں کی ہیں۔ اساتذہ کی بھرتیوں کے لیے انٹرویو اور تحریری ٹیسٹ بھی نہیں لیے گئے جوائننگ پہلے دے دی گئی، میڈیکل، پی آرسی اور ڈومیسائل وغیرہ بھی بعد میں بنوائے گئے۔ رپورٹ کے مطابق سینیارٹی لسٹ میں 99 ویں نمبر پر موجود جونیئر ترین افسر نے 1047 بھرتیوں کی ذمے داری قبول کی ہے جب کہ تحقیقات کے نتیجے میں یہ تعداد 3500 ثابت ہوئی ہے، اسی طرح 63 ویں نمبر پر موجود افسر نے 2525 بھرتیوں کا اعتراف کیا جب کہ اس کے دستخط سے 11 ہزار بھرتیاں سامنے آئی ہیں۔ ایک افسر جو پہلے بھی ایک اسکول کو لینڈمافیا کے حوالے کرنے کے الزام میں معطل کیا گیا تھا اس پر بھرتیوں کے حامل افراد کو غیرقانونی طور پر جوائننگ دینے کا الزام ثابت ہوا۔ ایک اور افسر پر غیرقانونی طور پر 1200 بھرتیوں کا الزام ہے۔

ایک ایک افسر کی جانب سے ہزاروں بھرتیوں کے اس عمل کو بندر بانٹ کے نام سے بھی موسوم نہیں کیا جا سکتا، یہ تو کھلی ڈکیتیاں اور عظیم قومی جرم ہے جس میں قوم کے تعلیمی مستقبل سے کھیلنے کی کوشش کی گئی ہے، یہ جرم محض معطلی کا نہیں ہے ایسے اقدام کے مرتکب افراد پر تو فوجداری مقدمات قائم ہونے چاہیے تھے۔ چہ جائیکہ محض معطلی جو چند دن کا کھیل ہوتا ہے اس کے بعد ایسے لوگ اپنی نوکریوں پر بحال ہو کر نئی توانائیوں کے ساتھ بے دھڑک ہو کر ان ہی دھندوں میں لگ جاتے ہیں اور دوسرے لوگوں کے لیے بھی تقویت کا باعث بنتے ہیں کہ وہ بھی ایسی کارروائیوں میں ملوث ہوں اور دھڑلے سے مال بنائیں۔ بچے ملک کے مستقبل کے معمار ہوتے ہیں تو اساتذہ طلبا کے مستقبل کے معمار ہوتے ہیں۔ جب تک ان کے تقرر میں اہلیت کو معیار نہیں بنایا جائے گا اور ان کی عزت نفس اور احترام کے پہلو کو مدنظر نہیں رکھا جائے گا تعلیمی نظام کو بہتر نہیں بنایا جا سکے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔