دنیا کا سب سے بڑاجھوٹ…آزادی (پہلا حصہ)

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 29 اکتوبر 2022
barq@email.com

[email protected]

دنیا میں جتنے گیت،نغمے اور ترانے آزادی کے گائے گئے ہیں، گائے جارہے ہیں اورگائے جاتے رہیں گے، اتنے اورکسی بھی چیزکے نہیں ہوں گے اورمزے کی بات یہ ہے کہ جہاں اس کے زیادہ گیت، نغمے اور ترانے گائے جاتے ہیں وہیں پر یہ نہیں ہوتی۔علامہ اقبال کا مشہور ومعروف شعرہے۔

دیواستبداد جمہوری قبا میں پائے کوب

تو سمجھتاہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری

یہ بھی ان سارے جھوٹوں کی طرح ایک جھوٹ ہی ہے جو اشرافیہ اپنے اسلحہ خانے میں رکھتی ہیں اور بوقت ضرورت کسی اور پر نہیں بلکہ اپنی ہی عوامیہ پر استعمال کرتی ہے، ان میں مذہب، وطن، آزادی، جمہوریت ،امن اورآئین و قانون جیسے دوسرے ہتھیار بھی موجود رہتے ہیں۔

دراصل یہ ساری چیزیں جن کا ذکر ہے اپنے آپ میں بہترین چیزیں ہیں لیکن اشرافیہ کے قبضے میں جاکر ’’بری‘‘ بن جاتی بلکہ بنا دی جاتی ہیں کیوں کہ اشرافیہ کے کان نمک میں پہنچ کو نمک بن جاتی ہیں۔

دنیا میں جب بھی اور جہاں بھی اشرافیہ کے استحصال سے عوام تنگ آجاتے ہیں تو اشرافیہ کے خلاف کوئی ابال، کوئی تحریک، کوئی انقلاب جنم لیتا ہے، ایسی تحریکیں چاہے مذہبی رنگ میں ہوں یا دنیاوی شکل میں۔عوام غریب غربا یعنی گراس روٹس سے ابھرتی ہیں۔

مقتدر اشرافیہ پہلے تو اس کا ٹھٹھہ اڑاتی ہے اوراسے کمی کمین لوگوں کی شورہ نشینی قرار دے کر نظر اندازکرتی ہے لیکن جب وہ تحریک ختم ہونے کی بجائے اور زور پکڑتی ہے تو پھر اسے بزور مٹانے کی کوشش کرتی ہے پھر بھی اگر وہ نہ دبے اور بے قابو ہوکر کامیابی حاصل کر لیتی ہے تو اشرافیہ کے نبض شناس ،ہوا شناس اورموقع شناس آہستہ آہستہ اس کے ساتھ ہو کر اس میں شامل ہوجاتے ہیں ۔

یہاں ایک اور حقیقت کا بھی ذکر کردوں اور وہ یہ ہے کہ صدیوں بلکہ ہزاروں سالوں سے اشرافیہ اپنی عوامیہ کو جسمانی کاموں پر رکھتی آئی ہے اوردماغ کاکام اپنے پاس رکھے ہوئے ہوتی ہے چنانچہ پندرہ فی صد اشرافیہ کا دماغ مسلسل ’’کثرت استعمال‘‘ سے شیطانی اور تیزہوچکاہے اورعوامیہ کا دماغ عدم استعمال سے زنگ آلود ہوکر صفر ہوچکا ہے۔

چنانچہ نئی تحریک یا انقلاب یا نظرئیے کے ساتھ ہوکر نہایت آسانی سے اس پر قبضہ کرکے اپنے ڈھب پر لے آتی ہے ،ہراول میں پہنچ اورمضبوط مقامات پر قبضہ کرکے تحریک کو اپنی مٹھی میں کرچکی ہوتی ہے۔

اس کی مثال یوں ہے جیسے کوئی غریب اورشریف آدمی کسی غنڈے بدمعاش سے تنگ آکر کسی نہ کسی طرح کوئی ہتھیار حاصل کرکے بدمعاش پر تان لیتا ہے اور چالاک غنڈہ بدمعاش اسے باتوں میں الجھاکروہ ہتھیار اس سے چھین کراسی پر استعمال کردیتاہے پھر اس تحریک کو برپا ہوئے چند سال بھی نہیں گزرے ہوتے کہ وہی اشرافیہ جس کے خلاف وہ تحریک اٹھی ہوئی ہوتی ہے اس پر قابض ہوکراپنے ڈھب پر لے آتی ہے ۔

تاریخ میں ایسی مثالیں بے شمار ہیں خود پاکستان اس کی سب سے بڑی مثال ہے کہ دو قائدین کے بعد وہی لوگ اس پر قابض ہوگئے جو آخر تک انگریزوں کے وفادار نو کرتھے۔

بات لمبی ہوجائے گی ورنہ اسلام کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ ابھی پچاس سال بھی نہیں گزرے تھے کہ وہی بنوامیہ اس پر قابض ہوگئے اور پھر وہی مطلق العنانیت اور وہی لوٹ مار۔اور پھر آزادی اورغلامی کے درمیان فرق کیا کہ صرف نام اورچہرے بدل جاتے ہیں باقی سب کچھ وہی ہوتاہے ۔

ہندیوں نے انگریزوں کے خلاف تحریک آزادی چلائی لیکن جنھوں نے چلائی وہ بھی یاآریا تھے یا عرب یا ایرانی یامنگول نژاد۔تاریخ کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو ہند کے اصلی باشندوں کو تو آریوں کے وقت سے نشدھ (ناپاک) اور‘‘شدھر‘‘ یا شودر بنایا گیا تھا۔

موہن جوڈاروکے بعد تو ہند میں جو بھی آیا پرایا تھا توملک کس کا،آزادی کیسی اورغلامی کیسی، دراصل یہ پندرہ فی صد اشرافیہ ہی خود کو آزادی، مذہب،ملک اور وطن سمجھ لیتی ہے۔

تاریخ کو ہرطرف سے الٹ پلٹ کر دیکھئے ،آپ کو آزادی کہیں بھی نہیں ملے گی خاص طورپر پچاسی فی صد عوامیہ کے لیے تو ہمیشہ یہ معاملہ رہاہے کہ بارش سے بچتی ہے تو پرنالے کی زدمیں آجاتی ہے ۔

کرے فریاد امیراے داد رس کس کی

کہ ہردم کھینچ کرخنجر نئے ’’سفاک‘‘ آتے ہیں

کہتے ہیں کسی ملک میں کسی غیرقوم کی حکومت تھی پھر وہاں کے لوگوں نے آزادی کی تحریک شروع کی اورکامیاب ہوگئی،سارے ملک میں خوشی اورجشن و چراغاں کاغلغلہ تھا کیوں کہ بے دماغ یعنی عدم استعمال کی وجہ سے زنگ خوردہ دماغ والے عوام ململ کاکیڑہ ہوتے ہیں ،شبنم سے بھیگ جاتے ہیں اور ہوا کے جھونکے سے خشک ہوجاتے ہیں۔

کسی جگہ ایک کسان ایک جولاہا اورایک گڈریا بھی اپنے طورپر جشن منارہے تھے کہ غیر ملکی حکومت چلی گئی اوراب اپنی ملکی اورقومی حکومت آگئی، وہ خوش تھے کیوں کہ غیرملکی حکومت کسان سے ایک من غلہ، جولاہے سے ایک تھان کپڑا اورگڈریئے سے ایک دنبہ ٹیکس میں وصول کرتی تھی۔

وہ جشن منا رہے تھے کہ وہی کوتوال انھی سپاہیوں کے ساتھ آگیا اور بولا اٹھو اورفوراً دومن غلہ ،دوکپڑے کے تھان اور دودنبے لے آؤ۔ تینوں نے کچھ غل غپاڑہ کرناچاہا تو کوتوال نے وہی ڈنڈا ان پر برساتے ہوئے کہا کم بختو۔ اس پرائی اورغیرملکی حکومت کو ’’دیتے ‘‘ تھے اوراب جب کہ ’’اپنی‘‘حکومت ہے تو انکار کررہے ہو ۔

ڈنڈے سے خوب تواضع کرنے کے بعد کوتوال نے کہا ۔اب تم تین من غلہ تین کپڑے کے تھان اور تین دنبے دوگے ورنہ۔ورنہ ابھی تمہارے خلاف غداری اوراپنی حکومت کی حکم عدولی کامقدمہ درج کر کے گرفتار کرتا ہوں۔

(جاری ہے)

آزادی بے شک ایک نعمت ہے لیکن یہ ہمیشہ اشرافیہ کو ملتی ہے، عوامیہ صدیوں سے غلام تھی، غلام ہے اورغلام رہے گی،جھنڈے بدلتے رہتے ہیں لیکن ہر جھنڈے میں ڈنڈہ ایک ہوتاہے جس سے عوامیہ کی ہڈی پسلی ایک کی جاتی ہے۔

کہنے کو تو اقوام متحدہ کے چارٹر میں لکھاہے کہ انسان آزاد پیداہوا ہے اورآزاد رہے گا لیکن عملاً ایسا کبھی نہیں ہوتا،انسان غلام پیداہوتاہے اورغلام ہی مرتاہے کیوں کہ کسی نہ کسی اشرافیہ کے منحوس سائے تلے تو آہی جاتاہے، ویسے بھی جب پیداہوتاہے تو نہ تو اپنی مرضی کے وقت پر پیداہوتاہے نہ اپنی مرضی کے مقام پر نہ اپنی مرضی کے گھرانے میں، نہ ملک میں۔اور پھر ماں کے پیٹ ہی میں ’’سانس‘‘ کا اسیر ہوکر پیداہوتاہے، پیٹ کااسیرہوکر پیداہوتاہے خواہشات کا اسیرہوکر پیدا ہوتاہے۔

بے شمار غلاموں اور پابندیوں کااسیر ہوکر جیتا ہے اورپھر موت کاغلام بن کر مرجاتاہے ۔لیکن ان تفصیلات کو ہم نظراندازکئے دیتے ہیں کیوں کہ آگے پھر معاملہ ’’جبرو اختیار‘‘ کی پیچیدگیوں میں داخل ہوجاتا ہے اس لیے عمومی سطح پر ہی اپنی بات کو رکھتے ہیں ۔

دنیا میں اس وقت بے شمار ممالک ہیں اوران کے عوام ہیں جوخود کو آزادسمجھتے ہیں لیکن ہیں نہیں۔یہ جشن آزادی بھی مناتے ہیں اوریوم آزادی بھی۔افغانستان میں بھی یوم آزادی منایاجاتاہے ،عربستان میں بھی اور روس چین وغیرہ میں بھی۔اورہر ہرجگہ وہی ایک سلسلہ ہے، ’’دماغ‘‘ کے عدم استعمال کی ماری ہوئی پچاسی فی صد عوامیہ اوردماغ کی کثرت استعمال سے شیطانی دماغ کی مالک پندرہ فی صد اشرافیہ ،کیا پاکستان اور ہندوستان کی عوامیہ آزاد ہے؟

غالباً کرشن چندرکاایک افسانہ ہے یاکسی اورکا۔ الفاظ کے لحاظ سے نہایت مختصر لیکن معانی کے لحاظ سے کوزے میں سمندر۔

کہتے ہیں کہ ایک کسان اپنے کھیت میں ہل چلارہاتھا کہ راستہ چلتے ہوئے ایک شخص نے پکارا یہ کیا؟ تم آج بھی ہل چلا رہے ہو، ادھر شہر میں آزادی کاجشن منایاجا رہا ہے چلو جشن میں چلتے ہیں۔ ہل چلانے والے نے پوچھا ،کس بات کاجشن ؟ دوسرے نے کہا آزادی کاجشن۔انگریزجارہے ہیں۔

ہل چلانے والے نے ہل روک کر کہا ۔سچ۔دوسرے نے کہا بالکل سچ ۔ہل چلانے والے نے ہل روک کر کہا تو پھر ٹھہرو، میں بھی چلتا ہوں،لیکن پھر کچھ سوچتے ہوئے پوچھا۔ پٹواری اورتھانیدار بھی جارہے ہیں نا۔دوسرے نے کہا نہیں صرف انگریزجارہے ہیں ،پٹواری اورتھانیدار تو یہیں رہیں گے۔ اس نے پلٹ کر ہل چلاتے ہوئے کہا کہ جب پٹواری اورتھانیدارنہیں جارہے ہیں تو کیسی آزادی کیسا جشن؟

اور پھر ہم نے دیکھا ہم دیکھ رہے ہیں انگریز جاچکے ہیں، آزادی بھی ملی ہے مگرصرف پندرہ فی صد ان خاندانوں کوجو کل انگریزوں کے دورمیں بھی آزاد تھے، سکھوں کے وقت بھی آزاد تھے اورمغلوں کے وقت میں بھی۔

وہ بے شک اب بھی آزاد ہیں جو چاہیں اس ملک کے ساتھ یہاں کے عوام کے ساتھ اوراس زمین کے ساتھ کرسکتے ہیں اورکررہے ہیں بلکہ کرتے رہیں گے۔کتنے آئے اورکیاکیا ترانے نہیں گائے گئے، جمہوریت، روٹی، کپڑا مکان،اسلام ،تبدیلی نیا پاکستان، ریاست مدینہ اور اب حقیقی آزادی۔

آزادی تو دیکھ لی ہے، پچھترسال سے دیکھ رہے ہیں لیکن یہ ’’حقیقی آزادی ‘‘کیا ہوگی ،شاید اس جسد خاکی سے آزادی ۔

ہو چکیں غالب بلائیں سب تمام

ایک مرگ ناگہانی اور ہے

ایک لطیفہ جو شاید ہم پہلے بھی سناتے رہے ہیں لیکن اس موقع کے لیے بھی مناسب ہے بلکہ اگر اس لطیفے کو ہم پاکستان کی پوری تاریخ قراردیںتو بھی درست ہوگا ۔

کہتے ہیں ایک عورت کو شوہر نے بری طرح مارا پیٹا اور پھر باہرنکل گیا،جسے ہی شوہر باہر نکلا، عورت مصلے پر بیٹھ گئی ،دو رکعت نفل پڑھ کردست بدعا ہوگئی یا اللہ میرے شوہرکو سلامت رکھ ،اسے لمبی عمرعطا فرما، اسے ہر بلا سے امان میں رکھ ، پڑوسن جو دیوار پر سے یہ ماجرا دیکھ رہی تھی، اس نے کہا تم بھی عجیب عورت ہو وہ تمہیں اتنا مارگیا ہے اور تم اسے دعائیں دے رہی ہو، میں ہوتی تو بددعائیں دیتی ۔ عورت نے کہا میرا کیس مختلف ہے، میرا پہلاشوہرمجھے برابھلا کہتاتھا وہ مرگیا تو  دوسراگالیاں دیتاتھا اب یہ تیسرا مارتاہے اگر یہ بھی مرگیاتو چوتھا تومجھے مارہی ڈالے گا۔

کیاآپ آزاد پاکستان میں،زندہ باد پاکستان میں، پائندہ باد پاکستان میں ،اس سے مختلف کچھ دیکھ رہے ہیں؟یاکبھی دیکھ سکیں گے؟

لوگ لاکھ جشن آزادی منائیں کہ ان کا دماغ تو زنگ کھا کر ختم ہوچکاہے گزشتہ یوم آزادی چونکہ ’’ڈائمنڈ جوبلی‘‘ تھی اس لیے لوگوں نے اسے بہت ہی دھوم دھام سے منایا جو اس بات کا دلیل ہے کہ دماغ بالکل ختم ہوچکے ہیں ورنہ پچھترواں یوم آزادی نہیں بلکہ یوم غلامی منانا چاہیے تھا کیوں کہ پچھترسال پہلے یہ حالت نہیں تھی جو اب ہے نہ اتنے قرضے تھے، نہ اتنے ٹیکس تھے، نہ اتنے چور تھے، نہ اتنے گینگ تھے، نہ ملک کا ایسا گینگ ریپ ہوتا تھا نہ اتنے غنڈے تھے۔

نہ دادا تھے، نہ بھائی تھے ۔بلکہ ایک مزے کی بات یہ دیکھئے، دماغ تو آپ کا ہے نہیں اس لیے دل سے کام لے لیجئے کہ جن فرنگیوں کی غلامی سے ہم نکلنا چاہتے ہیں آج درخواستیں دے دے کر ویزے خرید خرید کر اور جان جو کھم میں ڈال کر جاتے ہیں ، کیوں کہ آزادی کی نعمت تو ہم کو مل گئی تو خود ہی ان کے وطن جاکر خود کو ان کی غلامی میں دینے کے لیے بے قرار کیوں ہورہے ہیں ،آزادی تو یہاں ہے وہاں تو وہی انگریز اور وہی غلامی ہے ،اسیر ہونے کے بعد ’’آزاد ‘‘ تو ہوگئے، پھر اب آزادی کی آرزوکیوں کر رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔