حقیقی آزادی مبارک

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 26 نومبر 2022
barq@email.com

[email protected]

سقراط کو یہ ماننے میں ساری عمر خرچ کرنا پڑی تھی کہ میں کچھ نہیں جانتا اور پھر اپنی اس کامیابی کی خوشی میں زہرکا پیالہ غٹاغٹ پی لیا، گویا خود کو خود ہی سزا دے ڈالی، ہمارے ہاں بھی ایسے یہت سارے ہیں جو ابھی تک یہ نہیں جان پائے کہ وہ کچھ نہیں جانتے اور بدستور اسی غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں ۔ایک اور تھا فارسی کا مشہور شاعر خاقانی ۔اس نے بھی اعتراف کیاہے کہ ؎

لیس ازسی سال ایں نکتہ محقق شد بہ خاقانی

کہ بورانی سب بادنجان و باد نجان بورانی

یعنی پورے تیس سال مجھے اب یہ پتہ چلاہے کہ بورانی بینگن ہوتی ہے اور بینگن بورانی ہوتاہے ۔

تو پھر کیا ہوا اگر ہمیں بھی پچھتر سال کے بعد پتہ چلا کہ ہم فضول میں چودہ اگست مناتے ہیں اور کچھ لوگوں کو ہیرو بناتے رہے ہیں کہ انھوں نے ہمیں آزادی دلائی ۔اے قائد اعظم ترا احسان ہے احسان ، جب کہ ہمیں آزادی ملی ہی نہیں ہم جسے آزادی سمجھ رہے تھے وہ ایک مایاجال خیال تھا یعنی ہم ویسے ہی تمنا کے سرابوں میں رہ رہے تھے ۔

خدا بھلا کرے پی ٹی آئی کے معاون خصوصیوں کا جنھوں نے یہ خوشخبری دی ہے کہ حقیقی آزادی تو اب آنے والی ہے اور اس کا سہرا حضرت کپتان خان، بانی تبدیلی، معمار نیا پاکستان اورکولمبس ریاست مدینہ کے سرجاتا ہے کہ اس صرف چار سال میں یہ پتہ کیا کہ ہم آزاد نہیں ہے اور پھر دن رات محنت کرکے حقیقی آزادی کا نہ صرف پتہ لگا لیا بلکہ اسے لانے کا بندوبست بھی کیا اور یہ خبر بلکہ خوشخبری کسی ایسے ویسے ذریعے سے بھی نہیں ملی ہے۔

معاون خصوصی برائے کے ذریعے ملی ہے جو کبھی جھوٹ نہیں بولتے، ہمیشہ سچ بولتے ہیں اور سچ کے سوا اورکچھ نہیں بولتے ۔پرانے زمانے میں ان معاون خصوصیوں کو ہاتف یا سروش کہاکرتے تھے اور ہمارے پڑوسی ملک میں اسے آکاش وانی یعنی آسمانی آوازکہتے ہیں ،حافظ شیراز نے بھی اس سروش ہاتف غیبی کو سنا تھا۔

سحرزہاتف غیبم رسید مژدہ بگوش
کہ دورشاہ شجاع است می دلیر بنوش

ترجمہ۔صبح سویرے میں نے سروش ہاتف غیبی سے یہ مژدہ سنا کہ یہ شاہ شجاع کا دورحکومت ہے، نڈرہوکر دھڑلے سے شراب پیو۔

اس سے یہ بھی پتہ چلتاہے کہ پرانے زمانے میں بھی معاونین خصوصی برائے اطلاعات ہواکرتے تھے یعنی ایک اور’’پیشے ‘‘کی طرح یہ بھی بہت پرانا پیشہ ہے۔

اس معاون خصوصی نے کہاہے کہ حقیقی آزادی مارچ کے بعد جب حقیقی آزادی جلوہ گر ہوگی تو امپورٹڈ حکومت کو گھر بھیج دیا جائے گا۔ اس میں ضمنی خوش خبری یہ بھی ہے کہ امپورٹڈ حکومت والے بیچارے ’’گھر‘‘ نہیں جاتے اورگھر بدری کی حالت میں ہیں۔ایک مرتبہ ایک سرکاری ملازم سے ایک بارسوخ نے کہا، میں تجھے گھر بھیج دوں گا تو اس ملازم نے کہا کہ آپ کیوں تکلیف کرتے ہیں گھر تو میں روز چھٹی کے بعد جاتا ہوں ۔

چھوڑئیے آزادی۔سوری حقیقی آزادی کی بات کرتے ہیں ہم نے تو جب سے یہ اطلاع سنی ہے، دل میں لڈو پھوٹ رہے ہیں ۔کیسی ہوگی حقیقی آزادی؟ اس کی آنکھیں کیسی ہوں گی، اس کی زلفیں، اس کے ابرو، اس کاشباب اس کی چال مستانی اور جوانی؟

مسلسل لبوں پر ایک پرانا پاپولرپشتو گانا مچل رہاہے

جارو کومہ ورتہ لارہ۔ زماآشنا رازی

گلونہ راوڑہ دگلزارہ ، دخاپیرو د ماباغ مالیارہ

ترجمہ۔میں راستے میں جھاڑولگا رہاہوں، اے پریوں کے باغ کے مالی ،پھول لاؤ کہ راستے میں بچھادو ، میرا محبوب آرہاہے۔

’’حقیقی آزادی‘‘ کتنا خوبصورت، کتنا لذید، کتناخوشبودار نام ہے جب زبان پر آتاہے تو ہونٹ ایک دوسرے کے بوسے لینے لگتے ہیں اور منہ میں دس بارہ لیموں ایک ساتھ نچڑجاتے ہیں۔

اب کے سال پونم میں

جب وہ آئے گی ملنے

ہم نے سوچ رکھا ہے

رات یوں گزاریں گے

ہم نگاہوں سے ان کی آرتی اتاریں گے

خدا اس ’’وژن اعظم‘‘ کا بھلا کرے اور تا عمر کرسی نصیب کرے جس نے چار سال کے قلیل عرصے میں یہ پتہ لگا لیا کہ یہ جو ہم آزادی سمجھ رہے ہیں اصلی نہیں جعلی ہے۔

دیواستبداد جمہوری قبا میں پائے کوب

تو سمجھتا ہے کہ آزادی کی ہے نیلم پری

اور اس معاون خصوصی کو بھی ہمیشہ بیان طراز رکھے جس نے ہمیں خوشخبری سنائی ہے جو جھوٹ کبھی نہیں بولتا ،ہمیشہ سچ بولتاہے اورسچ کے سوا کچھ نہیں بولتا ،ہمارا نہ صرف اس کے سچ پر یقین ہے بلکہ وژن اعظم پر بھی بھروسہ ہے کہ وہ جو کہتے ہیں، وہی کر دکھاتے ہیں ۔ ہمیں یاد ہے کہ کرسی پر بیٹھتے ہی اس نے ’’تبدیلی‘‘ لاگو کی پھر دوسرے لمحے میں ’’نیاپاکستان‘‘ بنا ڈالا اور ابھی لوگ سنبھل بھی نہیں پائے کہ ماضی سے کھینچ کر ریاست مدینہ بھی سجا دی۔اور اب اس پر بھی ہمیںیقین ہے کہ حقیقی آزادی بھی ضرور لاکردیں گے اور پھر۔

بہشت آں جا کہ آزارے نہ باشد

کسے رابا کسے کارے نہ باشد

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔