1921 میں ڈھاکا یونیورسٹی بنی تو ہندو اسے طنزاً ’مکہ یونیورسٹی‘ کہنے لگے

 جمعـء 16 دسمبر 2022
عوامی لیگ کے کچھ مخالفین موقع پرستی میں عوامی لیگ سے بھی کہیں بڑھ کر صوبائی حقوق کے چمپین بننے لگے تھے، تحریک پاکستان کے کارکن اور راج شاہی یونیورسٹی کے سابق وی سی پروفیسر سجاد حسین کی فکر انگیز تحریر ۔  فوٹو : فائل

عوامی لیگ کے کچھ مخالفین موقع پرستی میں عوامی لیگ سے بھی کہیں بڑھ کر صوبائی حقوق کے چمپین بننے لگے تھے، تحریک پاکستان کے کارکن اور راج شاہی یونیورسٹی کے سابق وی سی پروفیسر سجاد حسین کی فکر انگیز تحریر ۔ فوٹو : فائل

پروفیسر سجاد حسین نے اپنی نوجوانی کے زمانے میں تحریک پاکستان میں حصہ لیا اور زندگی کے آخری لمحوں تک اس سے وابستہ رہے۔ انھوں نے بنگلہ زبان میں ’’پاکستان‘‘ کے نام سے ایک پندرہ روزہ جریدہ بھی جاری کیا۔

1949 میں کلکتہ کے اسلامیہ کالج میں انگریزی کے لیکچرار بنے اور ساری زندگی درس و تدریس میں گزاری۔ ناٹنگھم یونیورسٹی (برطانیہ) سے انگریزی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی، راج شاہی یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے، سقوط ڈھاکا سے چند ماہ قبل ڈھاکا یونیورسٹی کے وائس چانسلر مقرر ہوئے۔ 1995ء میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئے۔

٭٭٭

سقوطِ مشرقی پاکستان کے بارے میں جس قدر بھی غور کیجیے، ذہن اسی قدر الجھتا جاتا ہے۔ میں خانہ جنگی کے دوران رونما ہونے والے سفاک حالات کی بات نہیں کر رہا اور نہ یہاں فوجی حکمتِ عملی پر بحث مقصود ہے۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ مشرقی پاکستان کے باشندوں کے ذہنوں سے پاکستان کی اہمیت کا تصور اس قدر تیزی سے کس طرح کھرچ کر پھینک دیا گیا۔ ہمارے لیے پاکستان ایک بنیادی ضرورت تھا، مگر حیرت اس امر پر ہوتی ہے کہ ہمیں اس بنیادی ضرورت کے احساس سے ہی غافل کردیا گیا۔

عوامی لیگ پورے مشرقی پاکستان پر اثرات نہیں رکھتی تھی مگر1971ء کے حالات نے اسے ایسی پوزیشن کا حامل بنا دیا کہ کوئی اسے چیلنج کرنے والا نہ رہا۔ جو لوگ عوامی لیگ سے اختلاف رکھتے تھے، وہ بھی اپنے اندراس اختلاف کو برملا ظاہر کرنے کی ہمت نہیں رکھتے تھے۔ عوامی لیگ کے بعض مخالفین نے صورت حال کی نزاکت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسا پینترا بدلا کہ وہ صوبائی مفادات کے تحفظ کا چمپئن بننے کے معاملے میں عوامی لیگ سے بھی دو ہاتھ آگے نکلتے دکھائی دیے۔

مجھے یاد ہے کہ 1968ء اور 1969ء میں ڈھاکا کی سڑکوں پر نوجوان مارچ کرتے ہوئے یہ نعرہ لگاتے تھے کہ انہیں اسلام آباد کے شکنجے سے نکالا جائے! لوگوں کو کس طرح اس بات کا یقین دلایا گیا کہ ان کی زندگی اور اس کے تمام معاملات اسلام آباد یعنی پاکستانی حکمرانوں کے شکنجے میں ہیں۔

ہوسکتا ہے لوگوں کو خود بھی معلوم نہ ہو کہ یہ احساس کیونکر پیدا ہوا۔ دوسری طرف سرحد پار بھارت میں باغیوں کی خوب حوصلہ افزائی کی جارہی تھی۔ انہیں یقین دلایا گیا تھا کہ جابر پاکستانی حکمرانوں کے خلاف وہ جو کچھ بھی کریں گے، اس میں انہیں بھارتی حکومت اور میڈیا کی بھر پور حمایت حاصل رہے گی۔

مشرقی پاکستان کے مسلمانوں نے ماضی میں ہندوؤں کے ہاتھوں بہت سی مشکلات سہی تھیں، مگر سب کچھ بھول کر وہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہوگئے کہ آزاد بنگلہ دیش کے قیام کے بعد وہ بھارت کی مدد سے بھرپور ترقی کریں گے اور خوش حال زندگی بسر کرینگے۔ ہم جیسے لوگ، جو عوامی لیگ کے ساتھ نہ تھے، حالات کا رْخ دیکھ کر صرف حیران اور پریشان ہی ہوسکتے تھے۔

مجھے نہیں معلوم کہ ہمارے خطے (مشرقی پاکستان) نے جس سیاسی بے بصیرتی کا مظاہرہ کیا ہے، اس کی عصر حاضر کی تاریخ میں کوئی مثال ملتی ہے یا نہیں۔ 1905ء میں انگریزوں نے بنگال کو مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم کردیا تھا۔

یہ تقسیم مسلمانوں کے مطالبے پر عمل میں آئی تھی۔ انگریزوں کے نزدیک اس فیصلے کی حیثیت انتظامی سے زیادہ نہیں تھی۔ مگر انگریزوں نے ہندوؤں کے دباؤ میں آکر 1911ء میں اس تقسیم کو منسوخ کر دیا تھا۔

مشرقی بنگال اور آسام کے علاقوں کو ملاکر جو انتظامی یونٹ تشکیل دیا گیا تھا، اس کی ترقی کے امکانات دیکھ کر ہندوؤں نے انگریزوں کو ورغلایا اور مغربی بنگال میں ممکنہ خرابی سے ڈراکر انہیں یہ فیصلہ واپس لینے پر مجبور کیا۔

بنگال میں مشرقی اور مغربی کی تقسیم کوئی نئی بات نہیں۔ یہ طویل داستان ہے، اس کی ایک تاریخ ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جغرافیائی اعتبار سے بھی دونوں خطوں میں بہت فرق ہے۔ مشرقی بنگال دریائی علاقہ ہے۔

یہاں موسم غیر معمولی طور پر مرطوب رہتا ہے اور ہر سال سیلاب اور سمندری طوفان سے تباہی مچتی رہتی ہے۔ دوسری جانب مغربی بنگال میں موسم خشک اور غیر مرطوب رہتا ہے۔ شہری آبادی زیادہ ہے۔ صنعتی ڈھانچا مضبوط ہے۔ انگریزوں نے جب مغلوں کو شکست دی تو ہندوستان پر حکومت کرنے کے لیے انہوں نے کلکتہ کو دارالحکومت بنایا۔

ہندو اور انگریز دونوں ہی مسلمانوں سے مخاصمت رکھتے تھے۔ اس لیے وہ ایک ہوگئے اور کلکتہ کے ہندوؤں نے انگریز حکومت کے ایوانوں میں گہرا اثر و رسوخ پیدا کرلیا۔ ہندوؤں نے کلکتہ میں دارالحکومت ہونے کا خوب فائدہ اٹھایا ۔ مغربی بنگال میں صنعتوں کا جال بچھا دیا گیااور اعلیٰ تعلیم کے ادارے بھی اسی علاقے میں قائم کیے گئے۔

انگریزوں نے 1911ء میں بنگال کی انتظامی تقسیم ختم تو کردی، مگر انہوں نے مسلمانوں سے وعدہ کیا کہ وہ ڈھاکا میں یونیورسٹی تعمیر کردیں گے۔ ہندوؤں سے یہ بھی برداشت نہ ہوا۔ انہوں نے انگریزوں کو ورغلانا شروع کردیا کہ ڈھاکا میں یونیورسٹی کے قیام سے کلکتہ میں یونیورسٹی کی تعلیم اور آمدنی متاثر ہوگی۔

کانگریس کے ایک وفد نے اس سلسلے میں وائسرائے سے ملاقات کی اور انہیں اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی کہ ڈھاکا میں یونیورسٹی کا قیام کوئی منفعت بخش فیصلہ نہ ہوگا،کیونکہ جہاں یونیورسٹی قائم کی جا رہی ہے وہاں ناخواندہ اور پسماندہ لوگ رہتے ہیں۔

ہندو مسلم تاریخ اور دو طرفہ کشیدگی کے پیش نظر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مشرقی بنگال کے مسلمانوں کو کن حالات کا سامنا تھا۔ ہندوؤں نے ایک طرف تو مشرقی اور مغربی بنگال کی تقسیم ختم کروا کے مسلمانوں کو پہنچ سکنے والے ممکنہ فوائد سے محروم کروا دیا اور دوسری طرف مسلمانوں کو تعلیم سے دور رکھنے کی سازش بھی جاری رکھی۔

ڈھاکا یونیورسٹی 1921ء میں قائم ہوئی۔ ہندوؤں نے حسد کے مارے اسے ’ مکہ یونیورسٹی ‘ قرار دیا کیونکہ اس میں مسلمانوں کے لیے بنگالی اور انگریزی کے علاوہ عربی اور فارسی سکھانے کا انتظام بھی کیا گیا تھا۔ ابتدا میں عملے کے بیشتر ارکان ہندو تھے۔

عربی، فارسی اور اردو کے شعبوں کے علاوہ دیگر شعبوں میں بڑے لمبے عرصے تک صرف چار یا پانچ ہی مسلم اساتذہ تھے۔ بنگالی میں ڈاکٹر شہیداللہ ، تاریخ میں اے ایف رحمن ، انگریزی میں ایم حسن اور ریاضی میں قاضی مطاہر حسین تھے۔

ڈھاکا یونیورسٹی کے قیام کے سترہ سال بعد 1938ء میں جب ہم نے یونیورسٹی میں قدم رکھا، اس وقت بھی صورتحال زیادہ مختلف نہیں تھی۔اس وقت ڈاکٹر شہیداللہ تو تھے، مگر اے ایف رحمن ریٹائر ہوکر جاچکے تھے اور ان کی جگہ محمود حسین آئے تھے۔

انگریزی میں ایک نوجوان جلال الدین احمد کو کلاس ٹو کا لیکچرر مقرر کیا گیا تھا۔ معاشیات میں مظہرالحق تھے اور سیاسیات میں عبدالرزاق نئے بھرتی ہونے والے اساتذہ میں سے تھے۔

1938ء میں ڈاکٹر فضل الرحمن نے ڈھاکا یونیورسٹی میں تاریخ کے شعبے سے چند ماہ کے لیے وابستگی اختیار کی اور پھر مستعفی ہوکر چلے گئے۔ شعبہ سائنس میں قاضی مطاہر حسین واحد مسلم لیکچرر تھے جنہیں کلاس ٹو کا گریڈ دیا گیا تھا۔

ڈھاکا یونیورسٹی کے مختلف شعبوں میں مسلم اساتذہ کی شدید قلت تھی اور یہ کسی سازش کا نتیجہ نہ تھا، بلکہ حقیقتاً مشرقی بنگال کے مسلمانوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ خال خال ہی تھے۔

خالی آسامیوں پر بھرتی کے لیے لوگ نہیں ملتے تھے جبکہ ہندو امیدوار بہتر قابلیت کے حامل ہوتے تھے اور ان میں نظم و ضبط بھی ہوتا تھا۔

تعلیم و تعلم کے معاملے میں ان کا رویہ خالص پیشہ ورانہ تھا۔ یونیورسٹی کی گورننگ باڈی، جسے ایگزیکٹو کونسل کہا جاتا تھا، کے مسلم ارکان کو جلال الدین احمد کے تقرر کے لیے بہت زور لگانا پڑا تھا،کیونکہ ان کے پاس سیکنڈ کلاس ڈگری تھی۔ عبدالرزاق ہندو اور مسلمان، دونوں ہی کے لیے دردِ سر تھے۔

ان کے اطوار غیر روایتی تھے اور ان میں نظم و ضبط کا بھی فقدان تھا۔ فرائض سے غفلت برتنا ان کی عادت تھی۔ وہ ہندوؤں کی تنقید کا نشانہ بنتے تھے اور مسلمانوں کو ان کے حوالے سے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ مظہرالحق نے کئی مواقع پر یونیورسٹی کے تسلیم شدہ قواعد کو ماننے سے انکار کیا۔ ان کا گورننگ باڈی سے بار بار تنازع کھڑا رہتا تھا۔

یہ وہ وقت تھا جب ڈھاکا یونیورسٹی میں کسی مسلم کلرک کے تقرر کو بھی مسلمان اپنی بڑی کامیابی تصور کرتے تھے۔ 1930ء کے عشرے میں ڈھاکا یونیورسٹی ایک چھوٹا سا ادارہ تھی۔ طلبا کی تعداد ایک ہزار سے بھی کم تھی۔

ان میں اکثریت ہندوؤں کی تھی۔ تین ہاسٹلوںمیں سے ایک رہائشی ہال مسلمانوں کے لیے مختص تھا اور دوسرا ہندوؤں کے لیے۔ تیسرا ہال کسی کے لیے مختص تو نہ تھا، تاہم اس میں ہندو زیادہ تھے۔ مسلمانوں کے لیے سلیم اللہ ہال اور ہندوؤں کے لیے جگن ناتھ ہال مختص تھا۔ کاسموپولیٹن ہال کا نام ڈھاکا ہال پڑ گیا تھا، جسے بعد میں ڈاکٹر شہیداللہ سے موسوم کر دیا گیا۔

1940ء کے بعد مسلم طلبا کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ اب ان کے لیے ایک اور ہال مختص کرنے کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ جب یہ معاملہ صوبائی کا بینہ میں منظوری کے لیے پیش ہوا تووزیر خزانہ نالنی رنجن سین نے اس مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایک اور کاسموپولیٹن ہال بنایا جائے۔

جبکہ خواجہ ناظم الدین نے ہال کو مسلمانوں کے لیے مختص کرنے پر زور دیا۔ بہرحال یونیورسٹی کی عمارت میں پہلی منزل پر ایک ہال کو عارضی طور پرخالی کرکے، اس وقت کے وزیراعلیٰ اے کے فضل الحق کے نام سے موسوم کردیا گیا۔ جسے بعد میں مستقل ہال کے طور پر موجودہ نئی عمارت میں منتقل کردیا گیا۔

1936ء سے 1939ء میں دوسری جنگ عظیم کے آغاز تک کا زمانہ داخلی اور خارجی اعتبار سے شدید مشکلات سے پْرتھا۔ ہندوستان کے بڑے حصے پر کانگریس کی حکومت تھی اور اس کے اندازِ حکمرانی نے ثابت کردیا تھاکہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے لیے سیاسی طور پر ساتھ رہنا کسی طور ممکن نہیں۔ مسلمانوں کو بار بار باور کرایا جارہا تھا کہ انگریز کے جانے کے بعد اگر ہندوستان میں رہنا ہے تو انہیں اپنی جداگانہ تہذیبی شناخت ختم کرنا پڑے گی۔

مسلمانوں کی بنیادی زبان اردو خطرے میں تھی۔ مسلمانوں کے لیے آزادانہ طریقے سے عبادت ناممکن بنادی گئی تھی۔ وِدیا مندَر ایجوکیشن اسکیم کے تحت مسلم طلبا کو ہندو بنانے کی سازش کی گئی۔

ان تمام مسائل کا حل کیا تھا؟ چند آئینی اصلاحات؟ کوئی اس بات پر کس طرح یقین کر سکتا تھا کہ اقتدار پر مکمل قابض ہونے کے بعد کانگریس مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرے گی، جبکہ فوج پر بھی اْسی کا کنٹرول تھا؟یہ وہ پس منظر تھا جس میں علیحدگی کی بات کی جانے لگی تھی، مگر ہمیں خود بھی اندازہ نہ تھا کہ آگے چل کر یہ مطالبہ کیا شکل اختیار کرلے گا۔

بین الاقوامی سطح پر یہ وہ دور تھا جب جرمنی میں ہٹلر کا عروج، اسپین میں خانہ جنگی اور وسطی یورپ کا سیاسی و سفارتی بحران دنیا کو ایک بار پھر بھرپور تصادم کی طرف دھکیل رہا تھا۔ ہٹلر کی جانب سے معاہدوں کا عدم احترام، جرمنی کو دوبارہ مسلح کرنا، یہودیوں کو مظالم کا نشانہ بنانا اور نسل پرستی سے متعلق نت نئے نظریات کا پرچارتہذیب اور شائستگی کے لیے، سولہویں صدی کے بعد شاید سب سے بڑا دھچکا تھا۔

اٹلی نے ایبی سینا (موجودہ ایتھوپیا اور قرب و جوار) پر لشکر کشی کرکے ثابت کردیا تھا کہ لیگ آف نیشنز کسی کام کی نہیں اور یہ بین الاقوامی تنازعات روکنے یا ختم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ اٹلی کے مسولینی کے مقابلے میں جرمن ایڈولف ہٹلر لیگ آف نیشنز کے لیے زیادہ تیزی سے موت کا باعث بن رہا تھا۔

مشرقِ بعید کی صورت حال بھی کچھ اچھی نہ تھی۔ جاپان نے چین کے خلاف جارحیت جاری رکھی ہوئی تھی۔ وہ پورے مشرقی ایشیا پر اپنا تسلط جماناچاہتا تھا۔

جاپانی استعماریت بین الاقوامی سطح پر خرابی پیدا کر رہی تھی۔ ہم اس زمانے میں طالب علم تھے۔ ہمیں جس قدر یورپ کے بارے میں معلوم تھا ، اتنا مشرقِ بعید کے بارے میں معلوم نہ تھا۔ اخبارات میں بھی یورپ میں ہو نے والے واقعات کو زیادہ اور نمایاں طور پر پیش کیا جاتا تھا۔

ہمارے لیے خبروں کا ایک بڑا ذریعہ کلکتہ سے شائع ہونے والا اخبار ’’دی اسٹیٹس مین‘‘ تھا۔ یہ ’’ ٹائمز آف لندن‘‘ کی طرز پر شائع ہوتا تھا۔ اس کے ادارتی عملے میں یورپی باشندے شامل تھے۔ اس لیے اس کا معیار بھارت کے دیگر انگریزی اخبارات سے خاصا بہتر تھا۔

مسلمانوں کے قابل ذکر اخبارات برائے نام ہی تھے۔ خواجہ ناظم الدین نے 1930ء کی دہائی کے اواخر میں ’’دی اسٹار آف انڈیا‘‘ کے نام سے شام کو چھپنے والا ایک روزنامہ جاری کیا تھا۔ لیکن اس کے ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرنے کے لیے کوئی بھی تعلیم یافتہ مسلمان نہ مل سکا تھا۔ تب ہی جنوبی ہندوستان کے ایک عیسائی پوتھن جوزف کو اس کا ایڈیٹر مقرر کیا گیا تھا۔

بنگالی زبان میں مولانا اکرم خان کا اخبار ’’آزاد‘‘ 1936ء سے مسلمانوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کر رہا تھا۔ اس کی سرکولیشن محدود تھی اور اس میں بین الاقوامی خبروں کی اشاعت بھی نہ ہونے کے برابر تھی۔ ’’دی آنند بازار پتریکا‘‘، ’’دی امرت بازار پتریکا‘‘، ’’فارورڈ‘‘، ’’جگانتر‘‘ اور دیگر ہندو روزنامے دن رات مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے رہتے تھے۔

مسلمانوں کو دی جانے والی معمولی سی رعایت بھی ان اخبارات سے برداشت نہیں ہوتی تھی اوروہ اس پر تنقید کی بوچھاڑ کردیتے تھے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ میں مسلمانوں کو کوئی بڑا منصب مل جاتا تھا تو اس کے خلاف محاذ کھڑا کردیا جاتا تھا اور اسے فرقہ واریت اور اقربا پروری کا نام دے دیا جاتا تھا۔ وزیراعلیٰ اے کے فضل الحق بیورو کریسی اور حکومتی مشینری کے کل پرزوں میں ہندو مسلم توازن برقرار رکھنے کے لیے چند مسلمانوں کو بطور کلرک بھی بھرتی کرلیتے تھے تو انہیں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

بنگال میں 1935ء کی آئینی اصلاحات کے بعد مسلم لیگ کی وزارت نے حالات کچھ بہتر بنائے۔ ورنہ اس سے پہلے تو مسلمانوں کو سرکاری ملازمت کے حصول میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ مسلم گریجویٹ بے روزگار رہا کرتے تھے۔

1934ء یا 1935ء کی بات ہے، ایک مسلم نوجوان، میرے عزیز، خان بہادر ایم اے مومن سے ملنے آیا، جو ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے اور اعلیٰ حلقوں میں ان کے تعلقات بہت اچھے تھے۔ اْس نوجوان نے بتایا کہ فرسٹ کلاس ڈگری حاصل کرنے کے باوجود اسے ملازمت نہیں ملی۔ وہ اس بات پر تاسف کا اظہار کر رہا تھا کہ اس نے تعلیم پر خواہ مخواہ وقت اور وسائل ضائع کیے۔

سیاسی اعتبار سے بھی معاملات مایوس کن تھے۔ ہندو بہت اچھی سیاسی پوزیشن میں تھے اور وہ مسلمانوں کو اس میں کوئی حصہ دینے کو تیار نہیں تھے۔ ان کا خیال تھا کہ مسلمانوں کو صوبائی مقننہ میں اقلیت کی حیثیت سے رہنے پر اکتفا کرنا چاہیے۔

رمزے میکڈونلڈ نے جس کمیونل ایوارڈ کا اعلان کیا تھا، رابندر ناتھ ٹیگور جیسی بلند پایہ ہستی نے بھی اس کی مذمت کی تھی۔ کمیونل ایوارڈ کا بنیادی مقصد بنگال میں اقلیتوں کو بھی سیاسی امور میں آواز اٹھانے کا موقع دینا تھا۔

کانگریس نے اس ایوارڈ کو انگریزوں کی ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کے اصول کا حصہ گردانا۔ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کو اس بات پر زیادہ غصہ تھا کہ نچلی ذات کے ہندوؤں کو بھی ووٹ ڈالنے اور صوبائی مقننہ میں اپنے نمائندے بھیجنے کا اختیار دے دیا گیا تھا۔

1940ء کے عشرے سے کچھ قبل میری اپنی سوچ یہ تھی کہ مسلمانوں کے لیے جداگانہ نمائندگی کا حق یا متحدہ ہندوستان میں رہتے ہوئے کوئی آئینی فریم ورک کسی کام کا نہ تھا۔ میں نے اس زمانے میں علیحدگی کے بارے میں سوچنا شروع نہیں کیا تھا، اور نہ مسلم لیگ کی جانب سے الگ وطن کے قیام کا مطالبے کی حمایت شروع کی تھی۔

محمد علی جناحؒ کی شخصیت بھی ہمارے لیے خاصی متاثر کن تھی۔ تاہم آزادی یا علیحدگی کے حوالے سے ہمارے ذہنوں میں بہت سی الجھنیں تھیں اور ہم اس بارے میں ابہام کا شکار تھے۔ مسلمانوں کی علیحدہ شناخت کے حوالے سے پنڈت جواہر لعل نہرو سے محمد علی جناح کی بحث نے ہم میں خاصا ولولہ پیدا کیا تھا۔ نہرو کا موقف تھا کہ ہندوستان میں صرف دو فریق ہیں۔ کانگریس اور انگریز۔ محمد علی جناح نے جواب میں کہا کہ فریق تو چار ہیں۔ انگریز، ہندو، مسلمان اور آزاد ریاستیں (رجواڑے)۔

پریس میں مسلم اور ہندو حقوق کے حوالے سے گرما گرم بحث ہمارے لیے غیر معمولی دلچسپی کا سامان تھی۔اْس وقت میں خاصا اُلجھا ہوا تھا کیونکہ کوئی حتمی حل دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ میری ذہنی اُلجھن اس قدر بڑھ گئی تھی کہ ایک مرحلے پر میں اس بات کا قائل ہوگیا تھاکہ اگر ہم مسلمانوں کو متحدہ ہندوستان میں رہنا ہے تو ہمیں علیحدہ ثقافتی اور مذہبی شناخت کا تصور ذہن سے نکال دینا چاہیے۔ انہی دنوں مسلمانوں کے لیے ایک علیٰحدہ وطن کے قیام کی بات کی جانے لگی۔ اس مطالبے نے مجھ میں عجیب جوش و خروش بھردیا۔

انہی دنوں روزنامہ دی اسٹیٹس مین میں ایک تجزیہ کار ’الکھ دھاری‘ نے لکھا کہ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا مطالبہ ناقابل قبول ہے، کیونکہ ہندوستان میں ہندو اور مسلمان اس قدر یکجان ہوچکے ہیں کہ انہیں کسی معمے (Puzzle) کے حصوں کی طرح تقسیم کیے بغیر الگ کرنا ممکن نہیں۔ میں نے ’’دی اسٹیٹس مین‘‘ کے ایڈیٹر کو ایک خط لکھا، جس میں بتایا کہ الکھ دھاری کا تجزیہ کیوں غلط ہے اور مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا مطالبہ کیوں درست ہے۔

میں نے اس وقت تک یونیورسٹی کی پہلی ڈگری بھی حاصل نہیں کی تھی۔ میرے لیے یہ احساس ہی غیر معمولی مسرت کا ماخذ تھا کہ میں مسلمانوں کی ترجمانی کا حق ادا کر رہا تھا۔ اس خط کی کاپی میں نے سنبھال کر رکھی تھی جو 1971ء کے ہنگاموں کی نذر ہوگئی۔ میں نے اس خط میں کشمیر اور حیدرآباد کے علاوہ مسلمانوں کی علیحدہ ریاست میں مسلم اکثریت کے حامل بھوپال، یوپی اور سی پی کے علاقوں کو بھی شامل کرنے کی بات کہی تھی۔

مجھے اس خط کی تاریخ تو اچھی طرح یاد نہیں تاہم اتنا ضرور یاد ہے کہ یہ لاہور میں قرارداد پاکستان کی منظوری کے آس پاس کا زمانہ تھا۔

میں اتنا جانتا ہوں کہ ہمارے ذہن میں یہ واضح نہیں تھاکہ ہندوستان سے الگ ہونے کی صورت میں مسلمان آزاد ریاست یا ریاستوں کی حیثیت سے اپنے آپ کو کس طرح منظم کریں گے، زندگی کس طور بسر کریں گے۔

میں اور میرے ساتھی یہ سوچتے تھے کہ ہندوستان سے الگ ہونے والے مسلم اکثریتی علاقے آزاد ریاستوں کی حیثیت سے قائم بھی رہ پائیں گے یا نہیں۔کیونکہ یہ بھی واضح نہیں تھا کہ وہ آپس میں اتحاد قائم کریں گے یا نہیں۔ جیسے ہی علیحدگی کی بات کھل کر کہی جانے لگی، ہم نے سکون کا سانس لیا کہ ہندوستانی سیاست کی پیچیدگیوں سے نجات کی یہی ایک صورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔