ریلوے کرائے بڑھے مگر سہولتیں نہ ملیں

محمد سعید آرائیں  پير 19 دسمبر 2022
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کو یہ اعزاز تو حاصل رہے گا کہ انھوں نے 2013 میں (ن) لیگی حکومت میں وزیر ریلوے بن کر واقعی تباہ حال ریلوے کو بحال کیا تھا اور پانچ سالوں میں اپنی بہترین کارکردگی کے ذریعے پیپلز پارٹی دور کے وزیر ریلوے غلام احمد بلور کے دور کی تقریباً بند ہو جانے والی پاکستان ریلوے کو ازسر نو بحال کر دکھایا تھا اور ریلوے کے مایوس مسافروں کو دوبارہ ریلوے سفر کے لیے راغب کرلیا تھا اور ریلوے مسافروں کو سفری سہولتوں کی فراہمی کے ساتھ متعدد بار ریلوے کرایوں میں کمی کرکے رعایتیں بھی دی تھیں اور ریلوے بحالی کا چیلنج قبول کرکے مسافروں کو مطمئن کر دکھایا تھا۔

اس بار سعد رفیق کی بطور وزیر ریلوے آٹھ ماہ میں وہ کارکردگی نہیں رہی جو وہ پہلے دکھا چکے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق اس بار ریلوے کے ساتھ ہوا بازی کے بھی وزیر ہیں اور ہوائی سفر امیروں کے سفر کا ذریعہ ہے جب کہ ریلوے کو ہمیشہ غریبوں کے سفر کے لیے سستا اور سہولتوں کا ذریعہ کہا جاتا رہا ہے ،اس لیے لگتا ہے کہ خواجہ سعد رفیق کی زیادہ توجہ ہوا بازی پر ہے اور وہ ریلوے پر وہ توجہ نہیں دے رہے جو پہلے دیا کرتے تھے۔

ریلوے کے ایک فوجی وزیر ریلوے کی بحالی کے دعوے کرتے تھے جن پر کرپشن کے الزامات بھی لگے مگر یہ حقیقت ہے کہ بلور دور کی تباہ حال ریلوے سعد رفیق دور میں بحال ہوئی تھی اور عمران حکومت سعد رفیق پر کرپشن کا کوئی کیس بھی نہ بنا سکی تھی۔

عمران دور میں ریلوے کے پرانے تجربہ کار وزیر شیخ رشید احمد کو یہ محکمہ دیا گیا تھا جن کی زیادہ توجہ ریلوے معاملات کو بہتر بنانے کے بجائے روزانہ سیاسی بیانات دینے اور وزیر اعظم کی خوشنودی کے حصول پر تھی۔

انھوں نے نمبر بنانے کے چکر میں عمران خان کے آبائی شہر میانوالی کے لیے راولپنڈی سے اور کراچی میں سٹی اسٹیشن تا دھابیجی جو ٹرینیں چلوائیں وہ دونوں مسافر نہ ہونے سے ناکام رہیں اور ریلوے خسارہ بڑھانے کا سبب بنی تھیں مگر شیخ رشید شہرت کے لیے نئے نئے تجربے کرتے رہے مگر ماضی جیسی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے تھے کیونکہ انھیں شہرت اور روز میڈیا میں آنے کا شوق زیادہ تھا جس کی وجہ سے ریلوے بہتری سے محروم رہی اور بعد میں یہی حال پہلی بار وزیر بننے والے اعظم سواتی کا رہا اور ریلوے میں مسائل بڑھتے رہے۔

مسافروں کی سہولیات کم ہوتی گئیں اور ریلوے کرایوں میں اضافہ ہوتا گیا اور اعظم سواتی ریلوے میں کوئی بہتری نہ لاسکے بدتری بڑھتی گئی۔ حالیہ بارشوں میں سندھ بلوچستان میں ریلوے ٹریکس کو سخت نقصان پہنچا اور تقریباً دو ماہ کراچی تک ٹرینیں نہ چلائی جاسکیں اور کوئٹہ تک ٹرینیں بند ہیں جب کہ کراچی ٹریک بحال تو ہے مگر کراچی سے لاہور کے لیے سفر کا دورانیہ 22 گھنٹے مقرر کیا گیا تھا مگر تمام ٹرینیں لیٹ ہو رہی ہیں اور تیزگام میں سفر کراچی تا راولپنڈی 30 گھنٹے سے زائد پر جا پہنچا ہے اور تقریباً تمام ٹرینیں تاخیر کا شکار ہیں جب کہ پٹرولیم قیمتیں بڑھنے سے ریلوے کرایوں میں بہت زیادہ اضافہ کردیا گیا ہے۔

ٹرینیں بند ہونے سے مسافر بذریعہ سڑک سفر پر مجبور ہوگئے تھے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پبلک ٹرانسپورٹ کے مالکان نے کرائے بہت زیادہ بڑھا دیے تھے اور اب ریلوے اور پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے تقریباً ایک سے ہوگئے ہیں۔ پہلے ریلوے کرائے نجی طور پر چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ سے کم رکھے جاتے تھے۔

خسارے کی وجہ ریلوے عملے اور ریلوے پولیس کی باہمی کرپشن تھی اور نشستیں ہونے کے باوجود ریلوے افسران جگہ نہ ہونے کا بتاتے تھے مگر رشوت لے کر نشستیں فراہم کردیتے تھے۔ اب ریلوے میں جدید سسٹم اپنائے جانے کے بعد نیٹ سسٹم استعمال کرنے والوں کو مطلوبہ ٹرین میں خالی نشستوں کا پتا چل جاتا ہے اور ٹرینوں کی آمد و رفت میں تاخیر کا پتا چل جاتا ہے مگر ریکارڈ آنے کے بعد ریلوے کے متعلقہ افسران اب بھی رشوت ملے بغیر نشست فراہم نہیں کرتے اور جگہ نہ ہونے کا کہا جاتا ہے جب کہ اکثر نشستیں خالی ہوتی ہیں۔

سیلابی صورتحال کے باعث طویل سفر کی ٹرینیں بحال نہیں ہوئیں جن کی بحالی کا کام جاری ہے۔ ٹرینیں کم اور مسافر زیادہ ہونے کی وجہ سے آج کل ٹرینوں میں رش زیادہ ہے، کرائے زیادہ ہونے کے باوجود عوام کا ریلوے سفر پر اعتماد برقرار ہے اور وہ ریلوے سفر کو محفوظ اور باسہولت ہی سمجھتے ہیں لیکن انتظامیہ کی طرف سے ریلوے مسافروں کو سہولتوں کی فراہمی پر توجہ چھوڑ دی گئی ہے ، ریلوے بوگیاں پرانی اور کھٹارا ہوں یا ان میں سہولتوں کا فقدان ہو، مسافر پھر بھی ریلوے کے سفر کو ترجیح دے رہے ہیں۔

ذوالفقارعلی بھٹو دور میں ریلوے میں فرسٹ، سیکنڈ اور تھرڈ کلاس کی بوگیاں ہوتی تھیں۔ مسافروں کا احساس کمتری ختم کرنے کے لیے تھرڈ کلاس کو اکانومی کلاس بنا کر لکڑی کی نشستیں آرام دہ بنا دی گئی تھیں اور کرایہ بھی بڑھایا گیا تھا مگر اب ریلوے میں اکانومی کلاس بالکل لاوارث ہے اور ریلوے حکام کی توجہ بزنس کلاس، سلیپرز اور اے سی اسٹینڈرڈ پر ہے۔

اکانومی کلاس میں صفائی صرف سفر کے آغاز پر کی جاتی ہے بعد میں وہاں روشنی، صفائی اور پانی ختم ہو جانے کی شکایات عام ہو جاتی ہیں اور اس طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی اور صرف اعلیٰ کلاس کے مسافروں پر کچھ توجہ دی جاتی ہے اور صفائی بھی کرا دی جاتی ہے۔

اے سی سے متعلق شکایات رفع کردی جاتی ہیں، ریلوے کے اے سی اسٹینڈرڈ میں پرانی بوگیاں لگا دی جاتی ہیں جہاں اندرونی دروازے کے لاک نہیں ہوتے۔ ٹوائلٹ کے اندر کنڈی تک نہیں ہوتی، موبائل چارجنگ کی سہولت محدود ہوتی ہے جس سے لگتا ہے کہ اکانومی کی بوگیوں کو اے سی اسٹینڈرڈ میں تبدیل کیا گیا ہے۔

مسافروں کے سامان رکھنے کی جگہ بھی برتھیں لگا دی گئی ہیں۔ ریلوے مسافروں کو کراچی، لاہور اور راولپنڈی جیسے بڑے شہروں میں اسٹیشنوں کے ساتھ نواحی علاقوں پر اترنے چڑھنے کی سہولتیں بڑھا کر مسافروں کے رکشوں، ٹیکسیوں کے اخراجات میں بچت کرائی جاسکتی ہے اور مین اسٹیشنوں پر رش کم کیا جاسکتا ہے جس سے مسافروں کے ساتھ ریلوے مسائل بھی کم ہو سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔