دہشتگردی کے خلاف جدوجہد جاری رکھنے کا عزم

ایڈیٹوریل  اتوار 25 دسمبر 2022
یہ حکمت عملی ظاہر کرتی ہے کہ اب دہشت گردوں کے ساتھ کسی قسم کی نرمی یا لچک کا مظاہرہ نہیں کیا جائے گا۔ فوٹو: آئی ایس پی آر

یہ حکمت عملی ظاہر کرتی ہے کہ اب دہشت گردوں کے ساتھ کسی قسم کی نرمی یا لچک کا مظاہرہ نہیں کیا جائے گا۔ فوٹو: آئی ایس پی آر

پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے گزشتہ روز شمالی وزیرستان، میران شاہ اور تربیلا کا دورہ کیا، انھوں نے میران شاہ میں مادر وطن کا دفاع کرتے ہوئے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے بہادر سپاہیوں کو خراج عقیدت پیش کیا اور یادگار شہداء پر پھولوں کی چادر چڑھائی۔

آرمی چیف کو فیلڈ کمانڈرز نے علاقے کی تازہ ترین سیکیورٹی صورت حال اور دہشت گردی کے خاتمے پر بریفنگ دی۔آرمی چیف نے پاکستان افغانستان سرحد پر تعینات فرنٹ لائن دستوں کا بھی دورہ کیا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق پاک فوج کے سربراہ نے افسران اور جوانوں کے ساتھ بات چیت کی اور کہا ہے کہ پاک فوج قربانیوں سے حاصل کیے گئے امن کو مستحکم کرے گی کیونکہ علاقے کا امن پاکستانی قوم اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی عظیم قربانیوں سے ممکن ہوا ہے۔ پاک فوج دہشت گردوں کو انجام تک پہنچانے کے لیے پرعزم ہے اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے ساتھ گٹھ جوڑ کو بھی توڑے گی ۔

پاک فوج سیکیورٹی کی صورت حال کو بہتر بنانے اور دہشت گردوں کو ان کے انجام تک پہنچانے اور ان کے سہولت کاروں کے ساتھ گٹھ جوڑ توڑنے کے لیے پرعزم ہے۔ سماجی اقتصادی ترقی کے ذریعے دیرپا امن کو یقینی بنایا جا سکے۔ آرمی چیف نے ہیڈکوارٹرز ایس ایس جی تربیلا کا دورہ بھی کیا۔

آرمی چیف نے ایس ایس جی افسران اور جوانوں سے ملاقات کی۔ ضرار کمپنی کے سپاہیوں نے بنوں سی ٹی ڈی کمپلیکس آپریشن کے ساتھ ساتھ ایوی ایشن میں بہادری سے کام کیا، آرمی چیف نے مختلف آپریشنز میں ان کے ناقابل تسخیر جذبے، قربانیوں اور ڈیوٹی کے عزم کی تعریف کی۔

پاک فوج کے سربراہ کا یہ دورہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ پاک افغان سرحد پر تعینات پاک فوج کے افسر اور جوان جس بہادری اور جرأت کا مظاہرہ کر رہے ہیں، اس کی مثال نہیں ملتی۔ اتنے دشوارگزار اور مشکل علاقے میں دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا ایک مشکل کام ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر دہشت گردوں کو سرحد پار سے مدد مل رہی ہو تو کام مزید مشکل ہو جاتا ہے لیکن پاک فوج کے جوانوں نے ثابت کیا ہے کہ ان کی ٹریننگ اعلیٰ معیار کی ہے اور ان کے حوصلے چٹان کی مانند ہیں اور ان کے جذبے آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔

گزشتہ ایک برس کے دوران خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کی وارداتوں اور سرحدی خلاف ورزیوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ چند روز قبل بنوں سی ٹی ڈی کمپلیکس پر دہشت گردوں نے قبضہ کر کے وہاں موجود عملے کو یرغمال بنا لیا تھا۔ پاک فوج کے ایس ایس جی کمانڈوز نے یہ قبضہ چھڑایا اور پچیس کے قریب دہشت گردوں کو ان کے انجام تک پہنچایا۔ اس بار دہشت گردوں کا کوئی مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا۔

یہ حکمت عملی ظاہر کرتی ہے کہ اب دہشت گردوں کے ساتھ کسی قسم کی نرمی یا لچک کا مظاہرہ نہیں کیا جائے گا اور ان کے سہولت کاروں کو بھی بے نقاب کر کے انجام تک پہنچایا جائے گا اور اس معاملے میں زیرو ٹالرنس کا مظاہرہ ہو گا۔ ادھر گزشتہ روز اسلام آباد کے سیکٹر آئی ٹین فور میں بارود سے بھری ٹیکسی کو خودکش حملہ آور نے دھماکے سے اڑا دیا جس کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار شہید اور 3 اہلکار شدید زخمی ہوگئے۔

میڈیا کی اطلاعات کے مطابق یہ خودکش دھماکا صبح سوا گیارہ بجے کے قریب اس وقت ہوا جب ایگل اسکواڈ کے جوانوں نے ایک مشکوک گاڑی چیکنگ کے لیے روکنے کی کوشش کی تو خودکش بمبار نے اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا دیا۔ انتظامیہ کے مطابق اسلام آباد کا آئی ٹین فور سیکٹر راولپنڈی سے ملحقہ ہے، دہشت گرد نے یہ راستہ آسان سمجھا، یہاں سے دہشت گرد نے اسلام آباد میں اپنے ٹارگٹ کی طرف جانا تھا مگر سیکیورٹی ہائی الرٹ ہونے کی بنا پر وہ کامیاب نہیں ہو سکا۔

پولیس اور انتظامیہ کے مطابق اگر دہشت گرد اسلام آباد میں اپنے ٹارگٹ تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتا تو خاصا نقصان ہوتا۔ بہرحال بہتر حفاظتی انتظامات کی وجہ سے دہشت گرد اپنے ٹارگٹ تک نہ پہنچ سکا۔

پاکستان میں گزشتہ ایک برس کے دوران دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ افغانستان میں طالبان حکومت برسراقتدار آنے کے بعد پاک افغان سرحدی خلاف ورزیوں میں بھی اضافہ ہوا جب کہ سوات، شمالی و جنوبی وزیرستان اور خیبرپختونخوا کے دیگر شہروں میں دہشت گردی کی وارداتیں بڑھ گئیں۔

ٹی ٹی پی کے لوگ بھی اپنے اپنے علاقوں میں واپس آ گئے۔ ان کی واپسی کے بعد صورت حال مزید پیچیدہ ہوئی۔ لوگوں کو بھتہ دینے پر مجبور کیا گیا۔ صوبے کی کئی اہم شخصیات بھی بھتے کی دھمکیوں کا شکار ہوئی ہیں۔ پاکستان خصوصاً خیبرپختونخوا میں جو کچھ ہو رہا ہے، ایسا لگتا ہے کہ ایک منصوبے کے تحت ملک کے نظام کو ہٹ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ زیادہ تر حملے سیکیورٹی فورسز اور پولیس پر کیے جا رہے ہیں۔

پاکستان کے ریاستی اداروں کے لیے سب سے بڑا چیلنج دہشت گردوں اور پاکستان میں موجود ان کے سہولت کاروں سے نمٹنا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے بڑے خطرناک اور ملکی سلامتی کے حوالے سے سنگین واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ ماضی میں بھی خیبرپختونخوا کی جیل سے متعدد دہشت گرد فرار ہو کر افغانستان چلے گئے تھے۔ اب بنوں سی ٹی ڈی کمپلیکس میں قید دہشت گردوں نے بھی وہی تاریخ دہرانے کی کوشش کی لیکن وہ اس بار کامیاب نہیں ہو سکے۔

یہ بات طے ہے کہ دہشت گرد بغیر کسی سہولت کار اور ہینڈلر کی مدد کے، پاکستان کے شہروں میں واردات نہیں کر سکتے۔ پاکستان شاید اس وقت دہشت گردوں سے زیادہ ان کے سہولت کاروں کی وجہ سے خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ خودکش حملہ آور تو محض ایک ہتھیار ہے۔ ان خودکش حملہ آوروں کا تعلق بھی انتہائی غریب اور مفلس خاندانوں سے ہوتا ہے یا ایسے نوجوان خودکش حملہ آور بنتے ہیں جن کی برین واشنگ کی جاتی ہے۔

اس کا مطلب یہی ہے کہ یہ خودکش حملہ آٰور اور دہشت گرد خود کچھ بھی نہیں ہیں، انھیں خود بھی پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور اپنے اس گھناؤنے عمل کی وجہ سے کتنے بے گناہ انسانوں کی جانوں سے کھیل رہے ہیں۔ اصل دہشت گرد تو وہ ہیں جو ان خودکش حملہ آوروں اور دہشت گردوں کو رہنے، سونے اور آرام کرنے کے لیے رہائش فراہم کرتے ہیں۔ انھیں ٹرینڈ کرنے کے لیے جگہ دیتے ہیں۔

ان کے کھانے پینے کے اخراجات برداشت کرتے ہیں اور انھیں اپنے ٹارگٹ تک پہنچانے کے لیے ٹرانسپورٹ یا کوئی کیریئر فراہم کرتے ہیں۔ یہ ایک پورا نیٹ ورک ہے اور اس نیٹ ورک کو چلانے کے لیے بے پناہ وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔

پاکستان میں دہشت گردوں کے حوالے سے ایک کنفیوژ قسم کا بیانیہ گھڑا گیا ہے، اس بیانیے کو آگے بڑھانے میں مخصوص قسم کے نظریات کا سہارا لے کر دہشت گردوں کو برا بھی کہا جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اگر مگر، چونکہ چنانچہ جیسے الفاظ لگا کر معاملے کو الجھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ افغانستان میں طالبان کا اقتدار قائم ہوا تو پاکستان میں ایسا تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ جیسے افغانستان میں کوئی عوامی انقلاب آیا ہے۔

طالبان کو گلوری فائی کر کے ان کی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش کی گئی ہے اور عوام اور ملک کے کاروباری طبقے کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے سے پاکستان میں دہشت گردی کا خاتمہ ہو جائے گا کیونکہ افغانستان کی سابقہ حکومتیں امریکا اور بھارت کی پٹھو تھیں۔ ان حکومتوں نے دہشت گردوں کو افغانستان میں پناہ دی اور ان کے ٹریننگ کیمپ قائم کیے۔ اب یہ سب کچھ ختم ہو جائے گا لیکن حالات نے اس ملمہ کاری سے پردہ اٹھا دیا ہے۔

افغانستان پر قائم عبوری حکومت اب تک عالمی سطح پر اپنی نمایندہ ساکھ قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ افغان عبوری حکومت میں کئی گروپ شامل ہیں۔ ہر گروپ کے اپنے اپنے مفادات اور نظریات ہیں۔ افغانستان ایک طرح سے ابھی تک وار لارڈز کے زیرقبضہ ہے۔ داعش اور القاعدہ جیسی تنظیمیں بھی وہاں فعال ہیں اور ٹی ٹی پی بھی فعال ہے۔

ممکن ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت میں شامل کچھ دھڑے دوہا معاہدے کی شرائط پر مکمل عمل درآمد کرنا چاہتے ہوں لیکن وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہے کیونکہ سخت گیر گروپ افغانستان کی حکومت میں اہم وزارتوں اور عہدوں پر قابض ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔