افغان طالبان ہوش کے ناخن لیں

وجیہ احمد صدیقی  اتوار 25 دسمبر 2022

افغانستان میں پاکستان اور چین کے خلاف ہونے والی کارروائیوں نے طالبان کی حکومت کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کردیے ہیں کہ ان دونوں ممالک کے خلاف ایک ہی ماہ میں ایک ہی نوعیت کے دہشت گردی کے واقعات اور ان کی ذمے داری بھی ایک ہی دہشت گرد تنظیم نے قبول کی ہے، یعنی داعش (آئی ایس آئی ایس)نے۔ ایک شبہ تو یہی ہے کہ طالبان کی نئی حکومت کیا امریکا نے بنائی ہے؟

دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں طالبان کے 5 رہنماگوانتاناموبے کی جیل کے قیدی رہ چکے تھے،جن میں سے 4 اب طالبان کابینہ کے وزیر ہیں۔ملا خیر اللہ خیر خواہ وزیر اطلاعات و ثقافت ہیں،عبد الحق واثق ڈائریکٹر انٹیلی جنس ہیں، ملافضل مظلوم نائب وزیر دفاع ہیں، ملانور اللہ نوری وزیر سرحدی و قبائلی امور ہیں اور محمد نبی قمری کے بارے میں علم نہیں ہے کہ وہ کیا ہیں۔یہ تمام افراد دوحہ مذاکرات میں شریک تھے۔

برطانوی تھنک ٹینک ’’ انٹر نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹیڈیز ‘‘نے اپنی تازہ ترین رپورٹ ’’ ا سٹرٹیجک سروے ‘‘ 2022میں انکشاف کیا ہے کہ افغان طالبان اور بھارت دونوں باہمی اور پر اعتماد تعلقات قائم کرنے کے لیے بے چین ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان تین وجوہات کی بناء پر بھارت کے ساتھ تعلقات میں دلچسپی رکھتے ہیں، کیونکہ انھیں امید ہے کہ بھارت کے ساتھ قریبی سیاسی اور اقتصادی تعلقات کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاری آئے گی اور علاقائی تجارت کو فروغ ملے گا۔

برطانوی انٹیلی جنس رپورٹ کے مطابق بھارت کے ساتھ رشتہ استوار کرنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ طالبان اپنی حکومت کے لیے ہر طرح کے خطرات کا خاتمہ چاہتے ہیں اور تیسری وجہ یہ ہے کہ بھارت ان کی حکومت کو تسلیم کرلے گاتو اس کے ساتھ اچھے تعلقات کی وجہ سے افغانستان کو انسانی امداداور ترقی میں مدد ملے گی۔

اس رپورٹ کے مطابق’’ طالبان کے پڑوسیوں نے ان کی حکومت کو تسلیم کررکھا ہے اوروہاں اپنے مستند سفیر بھی تعینات کررکھے ہیں جن کو طالبان نے ہی پسند کیا ہے لیکن اس اقدام کی وجہ سے طالبان کو عالمی سطح پر کوئی مدد نہیں مل رہی ہے اور طالبان قیادت یہ بات جانتی ہے۔‘‘

طالبان کے ساتھ بھارت کے روابط میں تیزی جون 2022 کے بعد آئی جب بھارتی وزارت خارجہ کے ساتھ طالبان کے مذاکرات شروع ہوئے۔ اسی سال دسمبر میں طالبان نے اعلان کیا کہ وہ بھارت کو افغانستان میں اس کے نامکمل پروجیکٹس دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دے رہے ہیں۔ بھارت اور طالبان میں اس محبت کی کیا وجہ ہے؟

بھارت تو طالبان کا دشمن تھا اور اس نے ان کے خلاف کئی فلمیں بھی بنائی ہیں جن میں طالبان کا مضحکہ اڑایا گیا ہے،لیکن اب طالبان بھارت کو اس کے نامکمل 20پروجیکٹس مکمل کرنے کی اجازت دے رہا ہے،بھارت نے اشرف غنی کے دور میں افغانستان میں 3 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی اورپاک افغان سرحدی علاقوں میں غیر ضروری طور پر قونصل خانے کھولے تھے۔

اب طالبان بھارت کو اس کے ادھورے ایجنڈے کو مکمل کرنے کی اجازت دے رہے ہیں۔بھارت نے طالبان کو یہ لالچ دی ہے کہ وہ انھیں تسلیم کرے گا تو دنیا انھیں تسلیم کرے گی۔امریکا افغانستان سے مجبوراً نکلا ہے اب وہ دوسرے انداز سے افغانستان پر قابض ہونا چاہتا ہے۔اس کے لیے وہ افغانستان کے مغربی تعلیم یافتہ طبقے کو طالبان کے مقابلے کے لیے تیار کررہا ہے۔اس کے لیے وہ ہرطرف سے حملوں کی تیاریاں کررہا ہے۔

امریکا نے دانستہ افغانستان کو ایسی حالت میں چھوڑاکہ وہاں پر لوگوں کو کوئی فیصلہ کرنے کا موقع نہ مل سکے۔ امریکا کے حامی اور طالبان مخالف افغان عوام کی توقع کے خلاف امریکا راتوں رات افغانستان سے نکل گیا۔ دوسری جانب طالبان کا انتہاپسندانہ رویہ لوگوں کو ان سے بد دل کررہا ہے۔ جیسے خواتین کی تعلیم پر مکمل پابندی لگانانہ صرف دنیا بلکہ مسلم دنیا کے لیے ناقابل برداشت ہے۔

اس بار امریکا ان کو بھارت کے کے ذریعے ٹریپ کررہا ہے کیونکہ امریکا چاہتا ہے کہ چین اور پاکستان افغانستان میں اپنا تجارتی راستہ نہ بنا سکیں۔یہی وجہ ہے کہ امریکا نے بھارت کو افغانستان میں کئی پروجیکٹس دیے ہیں۔

افغانستان میں بھارت کا مستقل سفیر نہیں ہے لیکن بھارتی ناظم الامور بھارت کمار کی سرگرمیاں بہت تیز ہیں، اسی نے طالبان کے وزیر اربن ڈیویلپمنٹ و ہاؤسنگ حمداللہ نورانی سے ملاقات کی ہے کہ بھارت کے نامکمل منصوبوں کو اگر مکمل کیا گیاتو اس کے نتیجے میں افغانستان میں روزگار پیدا ہوگا۔جب کہ چین نے طالبان کو اس سے بڑی پیش کش کی تھی بھارت کے تین ارب ڈالر کے مقابلے میں چین کی سرمایہ کاری ایک کھرب ڈالر کی ہے۔

امریکا چاہتا ہے کہ افغانستان سے چین کی سرمایہ کاری نکل جائے۔چین نے امریکا کی افغانستان میں موجودگی میں ہی افغانستان میں بہت سرمایہ کاری کی ہے، لیکن طالبان کی آمد کے بعد چین نے واخان کی پٹی پر تجارتی شاہراہ تعمیر کرنے کی پیش کش کی ہے۔واخان جسے واخان کوریڈور، واخان پٹی اور واخان راہداری بھی کہا جاتا ہے پاکستان کے انتہائی شمالی علاقے یعنی گلگت بلتستان، چینی صوبہ سنکیانگ، افغانی بدخشان اور تاجکستان کے درمیان واقع ہے اور علاقہ افغانستان کے صوبے بدخشان کا ایک دور افتادہ ضلع ہے جہاں زندگی کی بنیادی سہولتیں بہت کم میسر ہیں۔

واخان سے کئی درے دوسرے علاقوں اور ملکوں تک جاتے ہیں۔چین سنکیانگ سے کابل اور پاکستانی علاقوں تک اس راہداری میں ایک تجارتی شاہراہ تعمیر کرنا چاہتا ہے،لیکن اس کا طالبان سے صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ طالبان ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کے جنگجوؤں کوپناہ نہ دے۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف بیان دینے پر پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے سر کی قیمت بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈروں نے 2 کروڑ روپے لگائی ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی ایک عالمی دہشت گرد تنظیم ہے۔لیکن امریکا جو پہلے نریندر مودی کو بوچر آف گجرات کہہ چکاہے لیکن اب اسے بھارت اور کشمیر میں مودی اور اس کی پارٹی کی دہشت گردی نظر نہیں آتی۔

اب یہ ثابت ہورہا ہے کہ دنیا کی مستند دہشت گرد تنظیموں سے بھارت کے رابطے ہیں جن میں سر فہرست ٹی ٹی پی اور ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ خاص طور پر شامل ہیں۔ طالبان چین کی دوستی کو ٹھکرا کر اب امریکا کے بنائے ہوئے جال میں پھنس رہے ہیں، طالبان نے دنیا بھر کی نام نہاد جہادی تنظیموں کو پناہ دے رکھی ہے یہ جانے بغیر کہ ان کا ایجنڈا کیا ہے؟

طالبان کو دیکھنا چاہیے کہ پاکستان ان کا پڑوسی ہے جس نے برسوں ان کی مدد کا الزام سہا ہے اورپاکستان میں ان کی سرگرمیوں سے صرف نظر بھی کیا ہے۔طالبان کو سمجھنا چاہیے کہ افغانستان کی ٹرانزٹ ٹریڈکا واحد راستہ پاکستان ہے ایران کے ساتھ ان کا ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہے پاکستان اور افغانستان کی تجارت کا سالانہ حجم تقریباً 2 ارب ڈالر ہے۔

چین نے افغانستان میں ایک کھرب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے جس میں کان کنی کے کئی منصوبے ہیں جب کہ بھارت کی کل سرمایہ کاری 3 ارب ڈالر تھی جس کا مقصد افغانستان سے بیٹھ کر بھارت کے پڑوسی ممالک کی جاسوسی کرناہے جب کہ چین اور پاکستان کے لیے پر امن افغانستان ہی ان کی اقتصادی ترقی کی ضمانت ہے امریکا اور بھارت کے لیے اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ افغانستان میں امن ہویا نہ ہوالبتہ چین اور پاکستان میں کسی صورت امن قائم نہ ہویہ ان دونوں ممالک کی خواہش ہے۔اس لیے طالبان ہوش کے ناخن لیں اور اپنے پڑوسیوں کو دوست بنائیں نہ کہ ان کے دشمنوں کے ساتھ دوستی بڑھائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔