ڈسکوز کی کارکردگی پر چیئرمین نیپرا کا اظہار مایوسی

اسٹاف رپورٹر  اتوار 8 جنوری 2023
’’کے الیکٹرک‘‘بجلی پیداوار بہتر نہ بناسکا،اسکی اجارہ داری جولائی 23 تک ختم ہوجائیگی (فوٹو فائل)

’’کے الیکٹرک‘‘بجلی پیداوار بہتر نہ بناسکا،اسکی اجارہ داری جولائی 23 تک ختم ہوجائیگی (فوٹو فائل)

کراچی: چیئرمین نیپرا توصیف حسن فاروقی نے پاکستان بھر میں پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (ڈسکوز) کی کارکردگی پر شدید مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

چیئرمین نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) توصیف حسن فاروقی نے کراچی چیمبر آف کامرس کے دورے کے موقع پر منعقدہ اجلاس سے خطاب میں کے ای سمیت پاکستان بھر میں پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (ڈسکوز) کی کارکردگی پر شدید مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’کے ای‘ نجی ادارہ ہونے کے ناتے دیگر ڈسکوز کے مقابلے میں بہتر ہے جو ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے نقصانات کو 40 فیصد سے کم کر کے 15.5 فیصد تک لایا ہے لیکن سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ’کے ای‘ بجلی کی پیداوار کو بہتر نہیں بناسکا۔

چیئرمین نیپرا نے کہا کہ ٹیکنالوجی اور مقابلہ ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے، ٹیکنالوجی پہلے سے موجود ہے لیکن مقابلہ کہیں نظر نہیں آرہا، ’کے ای‘ کی اجارہ داری جولائی 2023ء تک ختم ہو جائے گی اور سی ٹی بی سی ایم کراچی کے تاجروں کو اجازت دے گا کہ وہ اپنی بجلی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنے پاور پلانٹس لگا کر یا اپنی مرضی سے کسی اور پاور پروڈیوسر سے بجلی حاصل کر سکیں۔

انھوں نے بتایا کہ کمپیٹیٹیو ٹریڈنگ بائلٹرل کنٹریکٹ مارکیٹ (سی ٹی بی سی) پاکستان کی ہول سیل الیکٹریسٹی مارکیٹ کھولنے کے لیے ایک روڈ میپ فراہم کرتا ہے جس کا مقصد بجلی کے بلک صارفین کو ڈسکوز یا اپنی پسند کے مسابقتی سپلائر سے بجلی خریدنے کا انتخاب فراہم کرتا ہے۔

پاکستان اس وقت توانائی کی بدترین صورتحال سے گزر رہا ہے کیونکہ پیداواری صلاحیت ہونے کے باوجود ملک بجلی پیدا کرنے سے قاصر ہے کیونکہ بجلی کی پیداوار کے لیے درآمدی ایندھن خریدنے کے لیے فنڈز دستیاب نہیں۔

انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی منڈیوں میں ایندھن کی مجموعی قیمتوں میں کم از کم آٹھ گنا اضافہ ہوا جبکہ پاکستانی روپیہ بھی ڈالر کے مقابلے میں نصف تک گر چکا ہے جس کا مطلب ہے کہ بجلی کے نرخوں پر مجموعی اثر 16 گنا زیادہ ہونا چاہیے تھا کیونکہ ملک کی 65 فیصد بجلی درآمدی ایندھن سے پیدا کی جا رہی ہے لیکن نیپرا نے ٹیرف میں نہ تو 16 گنا اضافہ کیا اور نہ ہی 8 گنا بلکہ 4 گنا تک بھی نہیں کیا جو لائق تحسین ہے۔

چیئرمین نیپرا نے کے الیکٹرک کی جانب سے بند صنعتوں سے وصول کیے جانے والے فکسڈ چارجز کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ متعلقہ قوانین کے تحت ایسی تمام بند صنعتوں کے پاس کنکشن منقطع کرنے کے لیے درخواست دینے کا اختیار ہے جس سے وہ فکسڈ چارجز سے بچ جائیں گی۔کے ای ان صنعتوں سے درخواست موصول ہونے پر کسی بھی وقت سیکیورٹی ڈپازٹ اور سسٹم ڈیولپمنٹ چارجز کے بغیر انہیں دوبارہ کنکشن بحال کرنے کا پابند ہے۔

چیئرمین بی ایم جی زبیر موتی والا نے کہا کہ پاکستان میں بجلی کے موجودہ نرخ بھارت، بنگلادیش، سری لنکا، ویتنام اور کمبوڈیا کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔بجلی کے نرخ بنگلادیش میں 22 فیصد کم ہے جبکہ گیس میں یہ پاکستان کے مقابلے میں 30 سے 32 فیصد سستی ہے جس کی وجہ سے ہم مقابلہ کرنے اور اپنی برآمدات بڑھانے سے قاصر ہیں۔ اگر انرجی ٹیرف کو بنگلادیش کے برابر لایا جائے تو پاکستان کی برآمدات 60 ارب ڈالر سے کم نہیں ہوں گی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت تقریباً 23000 میگاواٹ بجلی کی پیداواری صلاحیت موجود ہے جبکہ تھر سے جلد ہی مزید 1300 میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل ہو جائے گی اور سولر، ونڈ اور ہائیڈل وسائل سے بجلی کی پیداوار میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔اس منظر نامے میں پیک آور ٹیرف وصول کرنا انتہائی غیر منصفانہ ہے۔

قبل ازیں صدر کے سی سی آئی طارق یوسف نے چیئرمین نیپرا کا خیرمقدم کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ گردشی قرضہ 4000 ارب روپے سے زائد کی خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔