9/11 کے بعد ہمارے پاس امریکہ کا ساتھ دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا

رئیس سلیم چاچڑ  اتوار 29 جنوری 2023
امریکہ نے خود یہ تاثر عام کیا کہ پاکستان کے فوجی حکمران نے امریکہ کی بات مان کر بزدلی دکھائی ہے ۔ فوٹو : فائل

امریکہ نے خود یہ تاثر عام کیا کہ پاکستان کے فوجی حکمران نے امریکہ کی بات مان کر بزدلی دکھائی ہے ۔ فوٹو : فائل

آخری قسط

1994 میں اچانک ایک نئی صورتحال پیدا ہو گئی۔ افغانستان کے شہر قندھار کے مضافات میں ملا محمد عمر نامی ایک سابق جنگجو مدرسے کا معلم تھا، مدرسے کے ایک طالب کو ایک ’وار لارڈ‘ نے اغوا کر لیا تو ملا عمر نے اس کی بازیابی کے لئے اس وار لارڈ کا گھیراو کے ٹھکانے کاگھیراوء کر لیا۔

وار لارڈکے ہاتھوں تنگ اس کے اپنے محافظ ملا عمر کے گروہ میں آ شامل ہوئے ، دیکھتے ہی دیکھتے دیگر وار لارڈز کے جنگجو بھی ملا عمر کے گروہ میں شامل ہوتے گئے۔

افغانستان میں موجود القاعدہ نے ملا محمد عمر کو طاقت پکڑتے دیکھا تو بھاگم بھاگ قندھار جاپہنچی ، مالی و عسکری وسائل کی فراہمی میں ملا محمد عمر کو اپنی بھر پور مدد کا یقین دلایا۔ عالمی اجارہ دار کی خفیہ کے اہلکار بھی یونائٹڈ آئل کمپنی آف کیلفورنیا کے انجینئرز کا روپ دھارے قندھار جا پہنچے۔ اگلا مرحلہ اب طالبان کی کابل کی جانب پیشقدمی کا تھا۔

افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے بھی ایک انٹرویو میں ملا عمر کو ڈالرز اور اسلحہ کی فراہمی کا اعتراف کیا تھا۔

واشنگٹن دورے میں1994 میں سابق وزیر اعظم بے نظیر کو امریکی ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ رابن رافیل نے ملا عمر کے طاقت پکڑتے ، نئے اُبھرتے مسلح گروہ کی حمایت کے فوائد گنوائے اور انہیں اپنا ہمنوا بنا لیا تھا۔

پاکستان کو وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ افغانستان کے زمینی راستے سے تجارت کے ذریعے خوشحالی کے ایک بہت بڑے منصوبے کے خواب دکھلائے گئے تھے۔

اس وقت تک ملا عمر کے طالبان اور پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے درمیان کسی بھی سطح پر کوئی رابطہ نہ تھا، ملا عمر کو افغانستان پر مکمل قبضے کے لیے ایک مضبوط سرپرستی کی ضرورت تھی،امریکی دوست پاکستانی سیاست کو وسط ایشیا سے معاشی رابطوں کے فوائد گنواتے ، ملا محمد عمر کی حمایت و سرپرستی پر قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

بے نظیر بھٹو نے کونسل آن فارن ریلیشنز کے زیر اہتمام 2007 میں منعقدہ ایک نشست میں کہا تھا ” ہمارے امریکن فرینڈز کا بھی یہی خیال تھا کہ ملا عمر کے طالبان افغانستان میں امن لائیں گے ، یقینی طور پر یہ غلطی تھی ،کاش یہ میں نے نہ کی ہوتی‘‘ کابل پر اقتدار کی چپقلش نے پاکستان پر مذہبی انتہا پسندی مسلط کرنے کے منصوبوں کو کھٹائی میں ڈال دیا تھا لیکن ملا عمر کی صورت میں پاکیسان دشمنوں کو اب اس کام کے امکانات دکھائی دینے لگے تھے۔

نیا ہدف اب کابل میں مذہبی انتہا پسندوں کی ہمسایہ ایٹمی اسلامی ریاست پاکستان کی جانب مذہبی شدت پسندی کی یلغار تھی ، انتہا پسندی کو ہوا دے کر دنیا بھر میں ڈھنڈورا پیٹنا کہ ایٹمی ہتھیار کسی بھی وقت مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھوں لگ کر دنیا کا امن تباہ کر سکتے ہیں۔

ملا محمد عمر کے طالبان ابھی کابل نہیں پہنچے تھے۔ اب پاکستان اور ملا عمر کے طالبان کے درمیان براہ راست رابطے کا مرحلہ درپیش تھا۔

ایسے میں معاشی نسخے کی ایک ترکیب لائی گئی۔ وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر نے وزیر اعظم کو ملک میں ٹیکسٹائل ملز کی ضروریات پوری کرنے کے لیے وسط ایشیائی ملکوں سے کاٹن منگوانے کا منصوبہ پیش کر دیا، بغیر اس بات کا دھیان کیے کہ افغانستان کا زمینی تجارتی راستہ ، جگہ جگہ مقامی وار لارڈز کے سخت حصار میں ہے۔

یہ سفر کس طرح طے ہو گا ، پاکستانی ٹرکوں کے تجارتی قافلے پاک افغان بارڈر کراس کرتے ہوئے افغانستان میں داخل کر دئیے گئے۔توقع کے مطابق ، پاکستانی تجارتی قافلوں کے یہ ٹرک اور ان کے سوار مقامی وار لارڈز کی ’عصمت ملیشیا‘ اور دیگر مقامی مسلح گروہوں کے ہاتھوں یرغمال بنتے گئے۔

اب پاکستان کے پاس انہیں چھڑانے کے لئے ملا عمر سے مدد مانگنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا۔ قومی سطح پر مضبوط و مستحکم عملداری سے یکسر محروم افغانستان کے زمینی راستوں پر وسط ایشیا کے لئے ٹرکوں کے اپنے تجارتی قافلوں کو روانہ کر نے کی پاکستانی سیاست کے حکومتی فیصلے نے پاکستان کو مجبوری کے عالم میں مدد کا طلبگار بنا کرملا عمر کے در پر جا کھڑا کیا۔

اب ایک طرف ملا عمر کو کابل کے تخت پر قبضہ کے لئے پاکستان کے تعاون کی ضرورت تھی اور دوسری جانب پاکستان کو اپنے تجارتی قافلوں کو مقامی وار لارڈز سے چھڑانے کے لئے ملا عمر کی حمایت درکار تھی۔ پاکستانی حکومت نے یرغمال بنے پاکستانی تجارتی قافلوں کو چھڑانے کا مشن بقول سابق آئی ایس آئی سربراہ جاوید اشرف قاضی کو سونپا گیا۔

ملا عمر کے طالبان سے پاکستان کے عسکری اداروں کا یہ پہلا رابطہ تھا۔ وزیر داخلہ ریٹائرڈ جنرل نصیر اللہ بابر فخر سے افغان طالبان کو اپنے بچے کہنے لگ گئے۔

قندھار سے باہر افغانستان کے دیگر علاقوں کی جانب بڑھتے ملا عمر کے طالبان اب پاکستانی تجارتی قافلے کو بازیاب کروانے کی مہم پر نکل کھڑے ہوئے۔ پاکستانی تجارتی قافلے کو بازیاب کرا لیا گیا۔

کامیاب مہمات سے ملا عمر کے طالبان طاقت پکڑتے گئے ، افغان دارالحکومت کابل کی سڑکوں پر افغان طالبان کی مکمل عملداری بالآخر قائم ہو گئی۔ افغانستان کی اسلامی ریاست کے امیر ملا عمر کی حکومت کو پاکستان ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات تین ملکوں نے تسلیم کر لیا۔

پاکستان اور افغان طالبان کے ایک دوسرے کے ساتھ قریب ہوتے ، شانہ بشانہ چلتے اس سفر کے دوران پاک جانثاروں کی ہمہ وقت بیدار آنکھوں نے القاعدہ اور عالمی یونی کول کے ” اہلکاروں ” کے عزائم کا کھوج لگا لیا۔ ملا محمد عمر کو واضح پیغام دے دیا گیا۔

افغانستان کے اندرونی معاملات کے تم حاکم و مختار مگر پاک افغان بارڈر کی جانب شدّت پسندی کا کوئی قدم ہرگز برداشت نہ ہو گا۔ ملا عمر پر ہوئی سرمایہ کاری کی سبھی غیر ملکی یلغار اکارت گئی۔

القاعدہ مگر افغانستان میں موجود تھی ، دنیا بھر سے اس کے خیر خواہ افغانستان میں اکٹھے ہوتے گئے ، افغان طالبان پاک افغان بارڈر سے دور رہے تاہم القاعدہ ان پر قابو پاتی چلی گئی۔سوویت افواج کے انخلا کے بعد پاکستان نے افغان جنگجو گوریلا کمانڈرز کی باہمی چپقلش سے مایوس ہو کر اپنی تمام توجہ مشرقی بارڈر کی جانب موڑ لی تھی۔

مذہبی شدت پسند عسکری گروہوں نے مقبوضہ کشمیر کی جانب دیکھنا شروع کر دیا تھا ، پاکستانی سیکیورٹی اداروں کو مشرق کی جانب تاریخ میں پہلی بار نہایت سازگار ماحول نظر آیا ، کشمیر کی پہاڑیوں میں کارگل ہوا ، مجاہدین نے گارگل کی چوٹیوں پر قبضہ کر لیا۔

یاد رہے 71 کی پاک بھارت جنگ سے قبل کارگل کی یہ چوٹیاں پاکستان کے پاس تھیں ، پاکستانی وزیر اعظم نے مسلح افواج کے اپنے چیف کو کارگل سے پیچھے ہٹنے کا حکم دے دیا ، تعمیل ہوئی اور مجاہدین کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔

جلد ہی مگر اب ایک اور خطرہ عالمی اجارہ داروں کے در پر دستک دیتا آ کھڑا ہوا۔ کارگل کا جنگجو جرنیل 12 اکتوبر 1999 سے عسکری اور حکومتی معاملات کی باگ ڈور پاکستان میں اپنے ہاتھ میں لے چکا تھا۔

اس سے پہلے مغربی افغان بارڈر پر افغان طالبان کی مضبوط حکومت قائم ہو چکی تھی ، دنیا بھر سے افغانستان میں جمع ہوئے جدید ترین ہتھیاروں سے لیس مجاہدین گروہ سوائے لڑنے کے اب کسی اور کام کے نہیں تھے۔

اگر یہ طاقتور مسلح جہادی گروہ کارگل کے حملہ آور جنگجو کے ہتھے چڑھ گئے تو کیا ہو گا ؟ یہ خیال آتے ہی پاکستانی ایٹمی ریاست کے مخالف اجارہ داروں کے مشیر پریشان و ہلکان ہو تے گئے ، انہیں جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بگڑتا دکھائی دیا ، بالکل وہی صورتحال جس سے بچنے کے لئے 17 اگست 1988 ہوا تھا ، عالمی اجارہ دار کا اپنا سفیر اور ایک فوجی بریگیڈیئر بھی جس مشن کی بھینٹ چڑھا دیئے گئے تھے۔

ایسے میں دنیا بھر میں نائن الیون کی خبر اچانک حیرت اور پریشانی کے عالم میں سنی گئی۔ غصے اور غیض و غضب سے بپھرا عالمی اجارہ داری کا اکلوتا دعویدار نائن الیون کی تباہ کاری کا بدلہ لینے پاکستان کو افغانستان کا سرپرست و مربی سمجھتے ہوئے اسلام آباد سے ہمکلام ہوا ، دہشت گردوں کا ساتھ دینا ہے یا ان کے خلاف ہمارے ساتھ کھڑے ہونا ہے ؟

پاکستان نے اچانک بدلتی عالمی صورتحال میں اپنے دوست ملکوں کی جانب دیکھا ، دوست ممالک بشمول چین ، سعودی عرب سبھی دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں امریکہ کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔

نائن الیون حملوں کے حق میں کوئی اخلاقی اور قانونی جواز ڈھونڈنا ویسے بھی مشکل تھا۔ پاکستانی فوجی حکمران نے ورثے میں ملی معاشی صورتحال پر نظر دوڑائی ، اپنے عسکری وسائل کا جائزہ لیا ، ایٹمی تنصیبات کو لاحق خطرات ذہن میں آئے ، مشرقی ہمسایہ ملک بھارت نے پاکستانی بارڈر پر واقع اپنے سبھی ہوائی اڈوں کی بلا مشروط استعمال کی فورا ًامریکہ کو پیشکش کر دی۔ بھارت کو پاکستان کو روندنے کا تاریخی موقع نظر آنے لگا۔

اقوامِ متحدہ کا اجازت نامہ ، پوری دنیا کی حمایت و ہمراہی ، پاکستان کے لئے تاریخ کا مشکل ترین لمحہ آ پہنچا۔ اسٹاف کالج کوئٹہ میں کبھی وار اسٹریٹجی پڑھانے والے پاکستانی فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے نائن الیون حملوں کے بعد غصے سے بپھرے امریکہ کو جواب میں کہا ” پاکستان ہر طرح کی دہشت گردی کے خلاف ہے” پاکستان کی ایٹمی تنصیبات ، ملکی یکجتی و سالمیت کو اچانک لاحق ہوئی آفت ٹل گئی۔ پاکستان کا مشرقی ہمسایہ ہاتھ ملتا رہ گیا۔

پاکستان اس حقیقت سے آگاہ تھا کہ اس کے مغربی بارڈر پر آباد افغان ایک مذہب ، مشترکہ زبان و ثقافت اور آپس کی رشتہ داریوں میں جڑے قبائل ہیں ، افغانستان پر آئی جنگی آفت کی تباہ کاریوں کے اثرات پاکستان پر ہر صورت پڑیں گے۔

پاکستان نے نائن الیون کے فوراً بعد افغان حکمران ملا محمد عمر کے پاس مذہبی ، عسکری اور سیاسی قائدین کے متعدد وفود بھیجے ، سر پر آئی آفت سے کسی مشترکہ حکمت عملی سے نمٹنے کے پیغامات بھیجے گئے۔

باہم تدابیر اپنانے کی پیشکش کی گئی مگر ملا عمر نے پاکستان کی ایک نہ سنی اور عالمی اتحاد کے سبھی حملوں کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہو گیا۔ فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف پاکستان پر آئی جنگ کو ٹالنے میں کامیاب ہو گیا۔

7 اکتوبر 2001 کو امریکی صدر جارج بش نے افغانستان پر حملوں کا حکم دے دیا۔ حملوں کے بظاہر تین اہداف تھے ، القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو سزا دینا ، القاعدہ کا نیٹ ورک توڑنا اور افغان حکمران ملا عمر کی جانب سے اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے نہ کرنے پر افغان طالبان حکومت کا خاتمہ۔ ملا عمر کی حکومت ختم ہو گئی۔

اب اسامہ بن لادن کی تلاش اور القاعدہ کے نیٹ ورک کے خاتمہ کے لئے نیٹو کی سربراہی میں چھتیس ملکوں کے فوجی دستے بھی افغانستان کے ہوائی اڈوں پر اترتے لگے۔ میونخ کانفرنس کی روشنی میں حامد کرزئی افغان حکومت کے سربراہ مقرر ہو گئے۔

معاہدہ شاہ ولی کوٹ کے تحت زابل اور قندھار میں افغان طالبان کے حامی گورنرز کی تعیناتی کے احکامات جاری کر دیئے گئے۔

افغان طالبان پرامن طور پر شہروں سے باہر نکل گئے ، امریکی وزیر دفاع جنابِ رمزفیلڈ کو معاہدہ شاہ ولی کوٹ کی خبر ہوئی تو وہ بھڑک اٹھے۔ ان کے دباؤ پر معاہدہ ختم کر دیا گیا ، زابل اور قندھار میں گورنرز کا جو تقرر کر دیا گیا تھا واپس لے لیا گیا۔

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل جاوید ناصر نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا ” اسامہ امریکیوں کا بلیو آئیڈ تھا ، چہیتا تھا “ٹی وی میزبان نے حیرت سے پوچھا ، یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ ؟ صحیح کہہ رہا ہوں ، یہی تو المیہ ہے کسی کو یہاں کچھ پتہ ہی نہیں ہے ، سعودیہ کا مخالف وہ اس وقت ہوا جب امریکی فوجی دستے سعودی سرزمین پر اترنے لگے۔

امریکی ، اسامہ بن لادن کی تلاش میں کیا واقعی سنجیدہ تھے ؟ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ ریٹائرڈ جنرل ضیاء الدین بٹ نے کہا ” امریکی ، نائن الیون حملوں سے بھی پہلے اسامہ کی تلاش میں تھے۔

ہم نے انہیں دو بار اسامہ کی موجودگی بارے میں بتایا مگر امریکیوں نے اسامہ کو پکڑنے میں کوئی سنجیدگی نہیں دکھائی” افغانستان پر حملوں کے بڑے عرصہ بعد یہ خبر بھی آئی تھی کہ تورا بورا کی بمباری کے وقت اسامہ بن لادن ان کے نشانے پر آ گیا تھا مگر نامعلوم وجوہات کی بنا پر اس سے چشم پوشی کر لی گئی۔

نیٹو کی سربراہی میں چھتیس ملکوں کی افغانستان میں موجودگی کا اصل ہدف کیا تھا؟ افغانستان میں لڑی جنگ میں شریک ریٹائرڈ امریکی جنرلز کے2020 میں لکھے گئے ” دی افغانستان پیپرز ، سیکرٹ ہسٹری آف وار‘‘ کے مطابق “یوں لگتا تھا جیسے بنائی گئی اسٹرٹیجی افغانستان کے تناظر میں تھی ہی نہیں ” جنرل ڈگلس لوٹ نے انٹرویو میں کہا ” دشمن القاعدہ تھی یا طالبان ، پاکستان دوست تھا یا دشمن ، واضح ہی نہیں ہو رہا تھا ” جنرل مائیکل فیلن نے کہا ” اگر یہ سب کچھ ٹھیک تھا تو ہمیں ایسا کیوں لگتا تھا کہ جیسے ہم ہار رہے ہیں” یہ بھی لکھا ہے ” ایسا لگتا تھا ، جیسے ہمیں معلوم ہی نہ ہو ، افغانستان میں ہمارا اصل ہدف کیا ہے ؟ یوں لگتا تھا جیسے ہم افغانستان میں جنگ کے لئے تیار ہی نہ تھے۔

ایک جگہ لکھا ہے ” پاکستان ہمارا دوست ہے کہ دشمن ، کبھی یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا‘‘ “2021 میں کانگریس کی آرمڈ سب کمیٹی کے سامنے کابل میں تعینات رہے جنرل آسٹن ، جنرل میگنزی اور جنرل مارک ہیلے سے سوال و جواب کی امریکہ میں متعدد نشستیں ہوئیں ، سینیٹرز کی سخت باز پرس کا انہوں نے سامنا کیا ، جنرل مارک ہیلے نے ایک سوال کے جواب میں کہا “افغانستان میں لڑی گئی جنگ میں کامیابیوں کے بارے میں امریکی عوام اور میڈیا کو بہت سے معاملات پر اکثر غلط اطلاعات پہنچتی رہی ہیں ”

اصل ہدف پاکستان تھا اور اسی مقصد کی تکمیل کے لیے حیران کن طور پر افغانستان کے پاکستانی سرحدی علاقوں کو اتحادی دستوں کے حملوں سے مکمل طور پر ہمیشہ محفوظ رکھا گیا تاکہ القاعدہ اور افغان طالبان ان علاقوںکی جانب آسانی سے اپنے لیے جائے فرار پائیں اور پاکستان میں داخل ہونے میں انہیں کوئی دقت نہ ہو۔

آئی ایس آئی کے سابق چیف ریٹائرڈ جنرل جاوید اشرف قاضی نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا “یہ سوویت افواج کے کابل سے انخلا کے بعد کی بات ہے ، غیر ملکی جہادی پشاور میں اکٹھے ہو گئے تھے ، مصر نے اپنے شہریوں کی واپسی کا تقاضا کیا ، ہم نے ان جہادیوں کو پاکستان سے نکل جانے کی وارننگ دی اس پر یہ لوگ افغانستان منتقل ہو گئے ورنہ القاعدہ نے پشاور کو اپنا مستقل اڈہ بنا لینا تھا ”

2006 میں شائع اپنی کتاب ، سب سے پہلے پاکستان ، کے صفحہ 254 کے پیرا گراف 3 میں جنرل پرویز مشرف نے لکھا ” میں نے امریکیوں کے ساتھ ایک مدمقابل کی طرح بازی لڑی ” ایک پل کو ٹھہریئے اور کھلے ذہن سے غور کیجئے “مدمقابل کی طرح بازی کھیلنے “کی بات کس وقت اور کس کے لئے کہی جاتی ہے۔

پاکستانی حکمران پاکستانی نکتہ نظر سے اپنے قومی مفاد کے تحفظ کے لیے بیرونی سازشوں سے ایک کامیاب حکمت عملی کے تحت نمٹ رہا تھا مگر پاکستان دشمنوں نے پرسیپشن مینجمنٹ کے ذریعے یہ تاثر پھیلا دیا کہ پاکستانی فوجی حکمران نے امریکہ کا ساتھ دے کر “بزدلی دکھائی ” پاکستانی سیاست ، صحافت اور مذہبی طبقات نے اپنے اپنے مفاد کی خاطر عوام اور قومی عسکری اداروں کے درمیان شکوک و شبہات کی فضا قائم کر دی اور یہ ایک بہت بڑا حملہ تھا۔

یہ اگر نہ ہوا ہوتا ، یہ مغالطے اور ابہام نہ ہوتے تو تحریکِ طالبان پاکستان کو پاکستانی سماج میں جگہ بنانے کا موقع نہ ملا ہوتا۔ یاد کیجئے نوے کی دہائی میں صوفی محمد کی تحریک نفاذ شریعت کے ساتھ حکومت نے شرعی عدالتوں کے معاہدے کر کے انتہا پسندوں کو قبائلی علاقوں میں قدم جمانے کا موقع پہلے ہی فراہم کر دیا تھا۔

پھر 2008 میں برسراقتدار آتے ہی اسی حکمران جماعت نے پشاور جیل میں قید صوفی محمد کو نہ صرف رہائی دی بلکہ سوات میں ایک بڑے جلسہ عام کے اہتمام کا بھی موقع فراہم کر دیا۔ صوفی محمد کے انتہا پسندوں نے 2008 کے آواخر ہی سے سوات ، مالاکنڈ پر پاکستانی حکومت کی رٹ ختم کرتے ہوئے گوایا اپنی الگ سے ایک سلطنت قائم کر لی تھی ، کہا جانے لگا تھا ” پاکستانی طالبان اب وفاقی دارالحکومت سے زیادہ دور نہیں ہیں۔

” کچھ شک نہیں اگر افغان طالبان ، نیٹو کو افغانستان میں کامیابی سے الجھائے نہ رکھتے تو مذہبی انتہا پسند زیادہ شدت سے پاکستان پر حملہ آور ہوتے۔ تورا بورا پر بھاری امریکی فضائی بمباری کا مقصد محض القاعدہ اور مسلح مذہبی شدت پسندوں کو پاکستان کی زمینی حدود میں دھکیلنا تھا۔

اس دوران ریاست کا چہرہ سیاست ، صحافت ، مذہبی طبقات اور سفارت کی پیلٹ گنز سے چھلنی ہوتا رہا۔ سید یوسف رضا گیلانی نے اسمبلی میں کہا “یہ ہم سے امریکیوں کو ویزے دینے بارے پوچھتے ہیں ، میں پوچھتا ہوں ، اسامہ بن لادن کس ویزے پر ایبٹ آباد میں تھا”

ایبٹ آباد واقعے کے بعد 2012 میں ایک بار پھر پاکستان کا رخ ہوا ، صدر اوباما نے پاکستان پر فضائی اور زمینی حملوں کی دھمکی دے ڈالی ، عالمی امور کے ماہر جناب طارق علی نے اینکر کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا ” امریکی اسٹیبلشمنٹ کو جنرل زینی اور خود رچرڈ آرمٹیج نے پاکستان میں براہِ راست زمینی مداخلت پر پاکستانی افواج کے خطرناک اور سخت ردعمل سے باخبر کرتے ہوئے اس قسم کی احمقانہ حرکت سے روک دیا تھا”

اب افغانستان سے نکلنے اور ہزیمت سے بچنے کا مرحلہ درپیش تھا۔ جینوا مذاکرات کا تلخ تجربہ پاکستان کو یاد تھا ، سفارتی اور عسکری رابطوں میں تیزی آئی ، سبھی ترکیبیں آزمائی گئیں۔ وقت کی اکلوتی سپر پاور نے ہزاروں ارب ڈالر کے عسکری اخراجات سے لاکھوں افغان ، ہزاروں پاکستانی معصوم شہریوں کا ناحق خون بہایا ، ظلم و بربریت صرف افغانستان اور پاکستان تک محدود نہیں رہی ، عراق ، لیبیا اور ملک شام میں لاکھوں کی تعداد میں شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔ یاد کیجئے ، سوویت یونین کے انہدام پر برطانوی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر نے کہا تھا ” ابھی اسلام باقی ہے”

قومی سلامتی کے ہمہ وقت جاگتے ، بیدار اور چوکس جانثاروں کے لئے ہدیہ تحسین۔ پاکستان پائندہ باد

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔