گیس پائپ لائن منصوبہ کراچی کے بجائے گوادرسے شروع کرنے پرغور

ظفر بھٹہ  جمعرات 2 فروری 2023
بلیک مارکیٹنگ کے باعث ایل پی جی سلنڈرزکی تقسیم کامنصوبہ ناکامی سے دوچار۔ فوٹو: فائل

بلیک مارکیٹنگ کے باعث ایل پی جی سلنڈرزکی تقسیم کامنصوبہ ناکامی سے دوچار۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: پاکستان ’اسٹریم گیس پائپ لائن‘ کا ’’اسٹارٹنگ پوائنٹ‘‘ کراچی سے گوادر منتقل کرنے پر غور کر رہا ہے تاکہ ایران کے ساتھ منسلک کرنے کیلیے ’ایل این جی گوادر پائپ لائن پروجیکٹ‘ کو دوبارہ شروع کیا جاسکے۔

پاکستان اور روس نے 2015 میں یہ منصوبہ بنایا تھا اور بین الحکومتی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ پہلے اس کا نام نارتھ ساؤتھ گیس پائپ لائن منصوبہ تھا، بعد میں کراچی سے لاہور تک ایل این جی کی منتقلی کے لیے اس کا نام پاکستان گیس اسٹریم پروجیکٹ رکھ دیا گیا۔

ابتدائی طور پر یہ طے پایا تھا کہ اس منصوبے کے لیے 85 فیصد فنڈنگ روس فراہم کرے گا جبکہ باقی ماندہ پاکستان کو کرنی تھی، یہ منصوبہ روس کو BOOT بنیادوں پر یعنی ’’بلڈ، اون، آپریٹ، ٹرانسفر‘‘ کے تحت مکمل کرنا تھا، جسے بعد میں پاکستان کو منتقل کیا جانا تھا۔

اس کی تعمیر کے لیے ابتدائی طور پر روس نے اپنی کمپنی RT Global کو نامزد کیا تھا جبکہ پاکستان نے اس منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے ISGS نامی ایک سرکاری کمپنی کو نامزد کیا تھا۔

تاہم امریکا نے RT Globalکے خلاف 2016 میں پابندیاں عائد کردی تھیں، جس کی وجہ سے نارتھ ساؤتھ گیس پائپ لائن پراجیکٹ روبہ عمل نہ آسکا۔ اس وقت سے اب تک پاکستان اور روس نے نارتھ ساؤتھ گیس پائپ لائن منصوبے کا ڈھانچا تقریباً چھ بار تبدیل کیا ہے لیکن اس منصوبے کو مکمل کرنے کا کوئی راستہ نہیں نکلا۔

جولائی 2021 میں دونوں فریقوں نے پھر گیس پائپ لائن منصوبے کے ڈھانچے کو تبدیل کیا۔ پاکستان اور روس نے فیصلہ کیا کہ پاکستان کی سرکاری گیس کمپنیوں کے پاس 74 فیصد حصص ہوں گے جب کہ روسی فرم کے 26 فیصد حصص ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ پاکستانی کمپنیاں 74 فیصد سرمایہ کاری کریں گی جب کہ روسی فرم کو 26 فیصد فنڈ فراہم کرنا ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ پاکستان اور روسی کمپنیوں نے پاکستان گیس اسٹریم پائپ لائن منصوبے اور دیگر رسمی کاموں کے لیے کراچی سے لاہور تک روٹ سروے مکمل کر لیا ہے۔ گیس کی نقل و حمل کے لیے ٹولنگ فیس کو حتمی شکل دینے کے لیے دونوں فریقوں کو تجارتی شرائط و ضوابط پر اتفاق رائے تک پہنچنا ہوگا۔

کراچی سے ایل این جی پائپ لائن کے اسٹارٹنگ پوائنٹ کو پشاور منتقل کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ اس منصوبے پر دوبارہ شروع سے کام کا آغاز کیا جائے۔

دوسرا آپشن یہ ہے کہ حکومت پاکستان اور روس جولائی 2021 میں طے شدہ منصوبے کو روک دیں اور اس کے ابتدائی ماڈل کی تجدید کریں اور اسے BOOT کی بنیاد پر روس کے حوالے کر دیا جائے، حکام کا کہنا ہے کہ اس ماڈل پر روس کی جانب سے بھی رضامندی ظاہر کی گئی تھی۔

تاہم نئی صورتحال اس لیے سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں ایل این جی دستیاب نہیں، چنانچہ ایسی صورت حال میں ایل این جی پائپ لائن کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

عہدیدار نے مزید بتایا کہ دوسرا ایل این جی ٹرمینل بھی فی الحال ایل این جی کی عدم دستیابی کی وجہ سے کم گنجائش پر کام کر رہا ہے۔ پاکستان ایل این جی لمیٹڈ (پی ایل ایل) نامی سرکاری کمپنی نے عالمی مارکیٹ میں ایل این جی ڈیل کرنے کی پوری کوشش کی لیکن کسی فریق نے دلچسپی نہیں دکھائی۔

ایل این جی کی عدم دستیابی کی وجہ سے یہ موسم سرما پاکستانی صارفین کے لیے بدترین ثابت ہوا۔وزیرمملکت برائے پٹرولیم مصدق ملک نے صارفین میں ایل پی جی کے سلنڈر تقسیم کرنے کا منصوبہ شروع کیا تھا تاہم اس سے صارفین کو کوئی فائدہ نہیں ہوا کیونکہ مارکیٹ میں ایل پی جی کی بلیک مارکیٹنگ ہو رہی تھی۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔